قوم ثمود اور اس کا انجام(۴)
سو! اس طرح ہوا،وہ اونٹنی جہاں جی چاہتاچرنے کے لیے چلی جاتی،وہ وادی کہ جس حصے کا رخ کرتی وہاں کے جانور اس کی ہیبت سے بدک کر دوسری طرف چلے جاتے ،جس دن وہ پانی پینے کے لیے جاتی تو کنویں کا سارا پانی پی لیتی، ثمود اپنی باری پر اگلے دن پانی پیتے اور اپنے آئندہ دن کی ضروریات کے لیے پانی جمع کرلیتے،یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس اونٹنی میں (بطور معجزہ)دودھ کی ایسی فراوانی ہوتی کہ لوگ بڑی کثرت سے اس سے سیر ہوا کرتے۔
ایک عرصہ تک تو یہ سلسلہ چلتا رہا،لیکن پھر شیطان نے ان کو فتنے میں مبتلا کر دیا،یہ معجزہ انھوں نے خود طلب کیا تھا،اب انھیں اپنے وعدے کے مطابق ایمان لانا تھا،یا پھر حضرت صالح علیہ السلام کی تنبیہ کے مطابق احتیاط کرنی تھی ،لیکن وہ اس پابندی اُکتانے لگے،اور اس سے فرار کی ترکیب سوچنے لگے،ان کا ایک رئیس جس کا نام قیدار بن سلف بن جندع تھا،آنکھیں نیلی ، رنگ سرخ،اور لوگوں میں اس کے بد الاصل ہونے کی بھی شہرت تھی،اس نے سب کے مشورہ سے اس کی ٹانگیں کاٹ کر اسے ہلاک کر دیا۔(ابن کثیر)امام ابن جریر کہتے ہیں کہ ثمودپانی کی اس تقسیم سے تنگ آ گئے تھے اور تمام لوگ اس سے جان چھڑانا چاہتے ہیں لیکن اس اونٹنی کو قتل کرنے اور کوئی ضرر پہنچانے سے خوف زدہ بھی تھے ،تب صدوق نامی ایک حسین اور مالدار خاتون نے یہ رسک لیا،اس نے مصدع اور قیدار نامی دو افراد کے سامنے یہ پیش کش کی کہ اگر تم اس اونٹنی کو ہلاک کر دو تو میں خود کو بھی اور ایک اور حسین دوشیزہ کو بھی، تمہاری عیش کوشی کے لیے ہبہ کر دوں گی،آخر یہ طے ہو گیاکہ وہ راستے میں چھپ کر بیٹھ جائیں گے اور جب اونٹنی چراگاہ کی طرف جائے گی تواس کو ہلاک کر دیں گے ،سات اور افراد ان کی سازش میں شریک ہو گئے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں