منگل، 16 مارچ، 2021

نماز کی فرضیت

 

نماز کی فرضیت

نماز جو ایمان اور کفر کے درمیان نشان امتیاز ہے۔ ابتدائے دعوت ہی سے مسلمانوں کا معمول رہی ۔لیکن اس کا حکم پانچ نمازوں کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کے سفر معراج کے دوران ہوا۔ نبی کریم ﷺابتداء ہی سے نماز اداء فرماتے تھے۔ اکثر سیرت نگاروں نے طلوع فجر سے پہلے اور غروب آفتاب سے قبل کا ذکر کیا ہے۔ کبھی آپ صحن حرم میں نماز ادا فرماتے تو قریش آپ کو ایزاء دینے کی کو شش کرتے۔ کبھی آپکی ہنسی اڑاتے، کبھی آپکی گردن مبارک میں پھندا ڈال دیتے ۔کبھی تو یہاں تک جسارت کرتے کہ عین حالت سجدہ میں آپ کی پشت مبارک پر نجاست ڈال دیتے اور جب آپ اس بار نجاست کی وجہ سے اٹھنے میں دقت محسوس کرتے تو قہقہے لگاتے۔ عام مسلمان رات کے سائے میں نماز پڑھتے یا دن میں ادھر اُدھر چھپ کر نماز پڑھتے۔ ایک بار حضرت سعد ابن ابی وقاص چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی   میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کی ایک جماعت وہاں آگئی۔ اس نے اس نماز کو اچھا نہ سمجھا اور مسلمانوں کو برا بھلا کہا اور ان سے لڑنے پر آمادہ ہوگئی۔ (سیرت ابن ہشام)معراج کا سفر گویا کہ ظلم و تشدد کے ایک دور کے خاتمے کی نوید تھا اور عروج وکامرانی کی بشارت بھی اس سفر میں تعلق بااللہ کے اس مستقل عمل کو حتمی شکل دیدی گئی اور عروج بندگی کا راستہ متعین کردیا گیا۔ حضرت انس بن مالک جناب رسالت مآب ﷺ سے روایت کرتے ہیں ۔’’اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کردیں میں اس کے ساتھ واپس لوٹا جب حضرت موسیٰ ؑکے پاس سے گزرا تو انھوں نے پوچھا اللہ تعالیٰ نے آپ کیلئے آپکی امت پر کیا فرض کیا ہے؟ میں نے کہا پچاس نمازیں کہنے لگے اپنے رب کے پاس واپس جائیے اس لئے کہ آپکی امت انکی طاقت نہیں پائے گی ۔ سو میں نے مراجعت کی رب تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کردیا۔ میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا اور کہا کہ پروردگار نے ان کا ایک حصہ کم کر دیا ہے۔ وہ کہنے لگے آپ اپنے رب کے ہاں پھر واپس جائیے کیونکہ آپکی امت اسکی طاقت بھی نہیں پائے گی۔ میں نے رب کی بارگاہ میں حاضری دی اللہ نے ان کا ایک حصہ بھی معاف فرما دیا لیکن میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا تو انہوں نے پھر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جانے کا مشورہ دیا۔ اب پروردگار نے فرمایا یہ پانچ نمازیں ہیں اور یہ (دراصل) پچاس ہی ہیں میرے پاس فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا (یعنی پانچ نماز اپنے ضمن میں پچاس نمازوں کا اجر اور ثواب رکھیں گی) میں پھر حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ آپ ایک بار اور اپنے رب کی طرف رجوع فرمائیے لیکن میں نے کہا (اب) مجھے اپنے رب سے حیاء آتی ہے۔ (صحیح بخاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں