ہفتہ، 30 جولائی، 2022

وفاداری ،بشرط استوار

 

وفاداری ،بشرط استوار

قبولِ اسلام کے ساتھ ہی حضرت عمر ابن خطاب ،نبی کریم ﷺکی توجہات اور تربیت سے فیض یا ب ہونے لگے اور حضور اکرم ﷺکے مقر بین خاص میں شامل ہوگئے۔ اللہ رب العزت کے پیارے محبوب کی محبت آپکے رگ وپے میں سرایت کرگئی اور آپ اس جذبہء محبت کو درجہ کمال تک پہنچانے کے متمنی رہتے۔ ’’حضرت عبداللہ بن ہشام کہتے ہیں کہ ہم حضور سید عالم ﷺکے ہمراہ تھے اور آپ حضرت عمر بن خطاب کا ہاتھ پکڑے ہوئے تھے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے  عرض کیا : یا رسول اللہ ! آپ مجھے اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ عزیز ہیں ۔ آپ نے ارشاد فرمایا اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے ۔جب تک میں تمہارے نزدیک اپنی جان سے بھی زیادہ محبو ب نہ قرار پائوں تم مومن نہیں ہوسکتے ۔ حضرت عمر نے( اپنی کیفیت کو محسوس کیا تو بے ساختہ )عرض کیا۔ اب آپ مجھے اپنی جان سے بھی عزیز ہوگئے ہیں۔ ارشادہوا ہے : عمر اب تمہارا ایمان درجہ کمال پرپہنچ گیا ہے۔ اس حدیث مبارکہ نے تربیت وتزکیہ کے بہت سے پہلو آشکار کیے ہیں  حضرت عمر دن رات رسول اللہ ؐکی سیرت و کردار کا مطالعہ کر رہے تھے، اوصاف وکمالات کے مشاہدے میں تھے،اپنے ظاہر وباطن کی تبدلیاں بھی انکے پیش نظر تھیں ۔ اس لیے موقع پاتے ہی انھوں نے محبت کا درجہ کمال بھی طلب کرلیا،اور اس صاحبِ تعلیم وتزکیہ نے فوراً ہی انکے جذبہء تسلیم واخلاص اور خود سپردگی کو معراجِ کمال تک پہنچا دیا ۔اسی کیفیت کا اعجاز تھا کہ حضرت عمر کو لمحہ لمحہ نبی کریم ﷺکی رضا ء کا خیال رہتا ۔ آپکے مفادات کی حفاظت کی کوشش کرتے ۔ آپکی پسند کو ہمیشہ پیش نظر رکھتے ۔ حضرت جابر ؓروایت کرتے ہیں کہ ایک بار جناب رسول اللہ ﷺکی خدمت عالیہ میں خوبصورت اور قیمتی قبا بطور ہدیہ ء پیش کی گئی۔ آپ نے اسے زیبِ تن فرما لیا۔ مگر فوراً ہی اسے اتار دیا اور فرمایا:کہ اسے عمر کو دے آئو،آنجناب سے اس قبا کو فوراً اتا ر دینے کی وجہ دریافت کی گئی تو آپ نے ارشاد فرمایا : مجھے جبرئیل امین نے اسے پہننے سے روک دیا تھا۔ یہ بات حضرت عمر تک پہنچی،روتے ہوئے خدمت اقدس میں حاضر ہوئے ،عرض کیا :یا رسول اللہ ! جس قبا کو آپ نے خود ناپسند کیا ، وہ مجھے عنایت فرمادی ، اب میری لیے کیسے ممکن ہے کہ آپ کی مبغوضہ چیز کو پہن لوں، فرمایا: یہ قبا میں نے تمہیں استعمال کے لیے نہیں دی بلکہ اس لیے دی ہے کہ اسے بیچ دو (یہ سن کر آپ کے قلب مضطرب کو تسلی ہوئی ،حضور کی ناراضگی کا اندیشہ ختم ہوا)اور آپ نے اسے دوہزار درہم میں فروخت کردیا۔(مسلم)رسول اللہ ﷺکی نگاہ نے چونکہ آپ کو ’’فاروق‘‘بنادیا تھا، لہٰذا آپ کے جذبہ محبت رسو ل میں ’’غیرت ‘‘کا پہلو بہت ہی نمایاں تھا۔ممکن نہیں تھا کہ کوئی مرتکب توہین وتنقیص آپ کی گر فت میں آئے اور کیفر کردار تک نہ پہنچے۔
 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں