اتوار، 17 جولائی، 2022

سعادتِ ایمان اور آزمائش

 

سعادتِ ایمان اور آزمائش 

حضور اکرم ﷺکی بعثت مبارکہ کے بعد سب سے پہلے آپ کی تصدیق کا شرف ام المومنین حضرت خدیجہ الکبری رضی اللہ عنہا کو حاصل ہوا، اس کے بعد حضرت ابوبکر صدیق،حضرت علی المرتضیٰ اور حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہم اس سعادت سے مشرف ہوئے ان حضرات کے بعد اسلام کی نعمتِ عظمیٰ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کے مقدر میں آئی ۔ اس طرح آپ السابقون الاوّلون میں نمایاں مقام کے حامل ٹھہرے۔ قبولِ اسلام کے بعد انھیں دوسرے مسلمانوں کی طرح ابتلاء اور آلام کے مشکل مرحلوں سے گزرنا پڑا ۔ آپکے خاندان نے آپکے قبولِ اسلام کی سخت مخالفت کی اور آپ کو عملاً بھی بڑے جبر وتشد د کا نشانہ بنایا گیا ۔ لیکن آپکے پائے ثبات میں کوئی لغزش نہیں آئی، اور آپ اپنے موقف پر بڑی استقامت کے ساتھ ڈٹے رہے۔ ’’آپکے چچا کا یہ معمول تھا کہ جانور کے کچے بدبودار چمڑے میں انہیں لپیٹ کر دھوپ میں ڈال دیتا ۔ نیچے سے تانبے کی طرح تپتی ریت اوپر سے عرب کے سورج کی آتشیں کرنیں ۔ اس پر کچے چمڑے کی بدبو ایک عذاب میں اس بڈھے نے بیسوئوں عذابوں کو یکجا کردیا تھا۔ اس طرح اپنے سگے بھتیجے پر وہ دل کی بھڑاس نکالتا پھر بھی دل سیر نہ ہوتا۔‘‘(ضیاء النبی )مکہ میں آپ کو حضور اکرم ﷺ کی دامادی کا شر ف حاصل ہوا۔ بعثت سے قبل حضور کی دو صاحبزادیوں  حضرت رقیہ ؓ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہا کا نکاح ابو لہب کے بیٹوں سے ہوگیا تھا۔ جبکہ رخصتی عمل میں نہیں آئی تھی۔ آپکی دعوت رسالت کی خبر اس تک پہنچی تو اس نے اپنے بیٹوں کو حکم دیا کہ حضور ﷺ کی صاحبزادیوں کو طلاق دے دیں ۔ اس طلاق کے بعد حضور اکرم ﷺ نے اپنے صاجزادی حضرت رقیہ رضی اللہ عنہاکا نکاح حضرت عثمان غنی سے کردیا۔ کہاجاتا ہے کہ یہ مکہ کاخوبصورت ترین ازدواجی جوڑا تھا اور لوگ انکے باہمی تعلق پر رشک کیا کرتے تھے۔ خود حضور انور صلی اللہ علیہ وسلم کو اس جوڑے کی روحانی اور جمالیاتی اہمیت کا بڑا احساس تھا ۔ حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کہتے ہیں حضور اکرم ﷺ نے مجھے ایک دیگچے میں گوشت دیا اور فرمایا کہ یہ عثمان کے گھر پہنچادو۔  میں انکے گھر میں داخل ہوا ۔وہاں حضرت رقیہ بھی تشریف فرماتھیں۔ میں نے زوجین میں ان سے بہتر کوئی جوڑا نہیں دیکھا۔ میں کبھی حضرت عثمان کے چہرے کودیکھتا اور کبھی انکی باوقار اور پرانور اہلیہ کو(اور اس جوڑے کے ملکوتی حسن وتقدس کودیکھ کر حیران ہوتا) جب واپس آئے تو حضور اکرم ﷺنے (بڑے اشتیاق سے )مجھ سے پوچھا کیاتم وہاں گئے تھے۔ میں نے عرض کیا : جی ہاں،آپ نے فرمایا: کیا تم نے ان سے اچھا کوئی جوڑا دیکھا ہے میں نے عرض کیا۔ یارسول اللہ نہیں ۔میں کبھی حضرت عثمان کی طرف دیکھتا اور کبھی حضرت رقیہ کی طرف۔(ابن عساکر) بعثت مبارکہ کے پانچویں سال ماہ رجب میں یہ گھرانہ حبشہ کی طرف ہجرت کرگیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں