اتوار، 6 فروری، 2022

ملکِ کلیم ویوسف

 

ملکِ کلیم ویوسف

امیر سید علی بن شہاب شاہ ہمدان ارشاد فرماتے ہیں: ’’پس ان فاجر (حکمرانوں )کی تنبیہ کیلئے اوران ظالم فاسقوں کی ہدایت کیلئے جنہوں نے سلطنت اورحکومت کو تکبر کا سرمایہ سمجھ لیا ہے ،وزارت اورامارت کونفس اورہوا کی خواہشات کا دام بنالیا ہے۔ ظلم وستم کو بادشاہی کا آئین سمجھ بیٹھے ہیں اور فسق وفجور کو بزرگی کی رسم جان چکے ہیں۔ انبیاء کرام کی بادشاہی اور خلفا ء راشدین کی خلافت کے کچھ حالات لکھے جاتے ہیں۔تاکہ یہ تذکرہ عالم آخرت کے طالبوں اور،وساوس شیطانی کے گرفتاروں  اورخواہشات نفسانی کے اسیروں کیلئے حجت رہے۔ 
مروی ہے کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو فرعون کی ہلاکت کے بعد بنی اسرائیل کی حکومت تفویض کی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے انھیں حکم بھیجا کہ بنی اسرائیل کو اریحا کی طرف لے جائو اورقومِ عمالقہ کے ساتھ جنگ کرو، فوج تیار ہوگئی ،یہ بارہ لشکر تھے اورہر لشکر میں ایک لاکھ بیس ہزار سپاہی تھے۔اس لشکر کے بارہ نقیب تھے ۔حضرت موسیٰ علیہ السلام 36یا 39سال اس فوج کے حاکم رہے لیکن ان ایام میں انکے پاس نہ ذاتی سواری تھی اورنہ ذاتی رہائش ،سادہ سی پوستین استعمال کرتے اوراونی ٹوپی سرپر رکھتے تھے۔ کچے چمڑے کا جوتا پائوں میں ہوتا اوردوشاخہ چھڑی ہاتھ میں ۔جہاں رات آتی وہیں قیام کرلیتے ۔کبھی پیٹ بھر کر نہ کھاتے ۔بنی اسرائیل باری باری آپکی خدمت میں کھانا پیش کرتے ایک دن سبطِ الائے میں قیام تھا ۔ جس شخص کے کھانے کی باری تھی وہ شخص کھانا لانا بھول گیا۔ جب بھوک کی کیفیت بہت بڑھ گئی ۔تو جناب باری میں عرض کیا کہ اے مولائے کریم یہ کیسی حالت ہے جس میں میں مبتلا ہوں کہ ایک شخص مجھے صبح کھا نا دیتا اور ایک شام کا، اللہ جل شانہٰ نے وحی نازل فرمائی کہ اے عمران کے بیٹے دل تنگ مت کروہم اپنے مقبولوں کی روزی عام لوگوں کے ذمے اس لیے لگادیتے ہیں کہ یہ لوگ بھی ہمارے دوستوں کو کھانا کھلانے کی برکت سے سعادت ابدی حاصل کریں۔حضرت یوسف علیہ السلام جب عزیز مصر مقرر ہوئے تو دن بدن دبلے پتلے اورلاغر ہونے لگے۔ مصاحبین نے ہر چند اس کا سبب دریافت کیا لیکن آپ نے کبھی کچھ بیان نہ فرمایا۔ایک دن بہت اصرار پر کہ طبیب کو دکھایا جائے انھوں نے فرمایا میرے مالک کو میری لاغر ی کا سبب بھی معلوم ہے اورعلاج بھی، سترہ سال ہوچکے ہیں کہ اس منصب پر فائز ہوا ہوں میرے نفس کی خواہش ہے کہ اسکو جوکی روٹی سے ہی سیر کردوں لیکن میں نے کبھی اس کا کہنا نہیں مانا ۔ عرض کیا گیا آپ اپنے نفس پر اتنی تکلیف کیوں گوارا کرتے ہیں۔ فرمایا :میں اپنا وطن کے بھوکوں اورمحتاجوں کی مطابقت کرتا ہوں گو انکی راحت کی طرف دل وجان سے دھیان رکھتا ہوں مگر ڈرتا ہوں کہ مصرکی ولایت میں مبادا کوئی بھی بھوکا رہ گیا ہو اور قیامت میں مجھ سے مواخذہ ہوکہ تم تو ملک کی طرف متوجہ ہوگئے اورمیرے محتاج اورضعیف بندوں کی خبر ہی نہ لی۔(ذخیرۃ الملوک)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں