فضول گوہی سے پرہیز
سیدنا علقمہ کہاکرتے تھے:بلال بن حارث کی اس حدیث نے مجھے کتنی ہی باتوں سے روک دیا ہے۔
٭سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کسی صحابی کا انتقال ہوگیا کسی نے کہا ’’تمہیں جنت کی بشارت ہے۔‘‘ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تمہیں کیاخبر ؟ شاید اس نے لایعنی بات کی ہو۔ یا جس میں سے اسے کچھ کمی نہ پڑتی ہو اس میں سے اس نے بخل کیاہو۔‘‘ (جامع ترمذی)
اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن کہاہے۔دوسرے الفاظ میں یہ حدیث اس طرح مروی ہے کہ غزوئہ احد میں ایک نوجوان شہید ہو گیا ۔ اس کی لاش اس حالت میں ملی کہ اسکے پیٹ پر بھوک کی وجہ سے پتھر بندھا ہوا تھا۔ اس کی ماں نے اسے دیکھا اور اسکے منہ سے مٹی پونچھنے لگی۔ اور کہا: بیٹا! تمہیں جنت مبارک ہو۔ یہ سن کر رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’تمہیں اس کا حال کیا معلوم؟شاید اس نے کوئی غیر ضروری بات کی ہو۔ یا جس سے اسے نقصان نہیں تھا اس سے ہاتھ روک دیا ہو۔‘‘٭حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے ایک مرفوع حدیث مروی ہے آپ بیان کرتے ہیں :’’جو آدمی اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اچھی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ (بخاری) ٭ ’’جو آدمی اللہ اورآخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے۔جب کسی بات کی گواہی دے تو بھلی بات کہے یا خاموش رہے۔‘‘ (مسلم)امام ترمذی رحمۃ اللہ علیہ نے صحیح اسناد سے ایک حدیث بیان کی ہے کہ رسول اللہ ؐنے ارشاد فرمایا: ’’کسی آدمی کے اچھے مسلمان ہونیکی ایک صورت یہ ہے کہ لایعنی باتیں ترک کر دے۔‘‘
سیدنا سفیان بن عبداللہ الثقفی بیان کرتے ہیں وہ لکھتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں میں نے عرض کیا:یارسول اللہ !اسلام کے بارے میں ایسی بات مجھے بتلادیجئے کہ آپ کے بعد کسی سے میں نہ پوچھوں ۔آپ نے فرمایا:’’کہومیں اللہ پر ایمان لایا پھر تم اس پر مستقیم رہو۔‘‘میں نے عرض کیا:آپ کو میری نسبت کس چیز کا خوف ہے؟آپ نے اپنی زبان پکڑلی اورفرمایا’’ھذا ‘‘اس زبان کا خوف ہے۔(الجواب الکافی علامہ ابن القیم)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں