جمعہ، 18 جون، 2021

درگذر کرنے والے(۲)

 

درگذر کرنے والے(۲)

امیر المومنین حضرت عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ جب (رئیس المنافقین )عبداللہ بن ابی ابن سلول مرگیا تو اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے جناب رسالت صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی گئی جب آپ اس کی نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو میں تیزی سے آپ کے پاس گیا اورعرض کی ، یا رسول اللہ ! کیا آپ ابن ابی کی نمازجنازہ پڑھا رہے ہیں؟حالا نکہ اس نے فلاں دن یہ اوریہ کہا تھا (کہ مدینہ پہنچ کر عزت والے ذلت والے کو نکال دیں گے، اوریہ کہا تھا کہ جو لوگ آپ کے ساتھ ہیں ،جب تک وہ آپ کا ساتھ نہ چھوڑدیں اس وقت ان پر کچھ بھی خرچ نہ کرو، اورحضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے بارے میں ایسی بازیبا بات کی تھی ،جس سے آپ کو سخت رنج پہنچا تھا ، اور(اس بدبخت نے)آپ سے کہا تھا کہ اپنی سواری کو مجھ سے دور کر لیں،مجھے اس سے بدبو آتی ہے ، جنگ اُحد میں عین اس وقت جب افراد کی بڑی ضرورت تھی، اپنے تین سوساتھیوں کو لے کر لشکر سے نکل گیا تھا )میں آپ کو یہ تمام باتیں ایک ایک کرکے گنواتا رہا ، حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ سن کر مسکراتے اورفرمایا اپنی رائے کو رہنے دو، جب میں نے بہت اصرار کیا تو آپ نے فرمایا : مجھے اختیار دیا گیا ہے (کہ استغفار کرو یا نہ کرو)سو میں نے (استغفار کو)اختیار کرلیا اوراگر مجھے یہ علم ہوتا کہ میں نے سترمرتبہ سے زیادہ بھی استغفار کیا تو اس کی مغفرت کردی جائے گی تو میں ستربار سے زیادہ استغفار کرتا۔ حضرت عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اس کے بعد جناب رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھا دی ۔(صحیح بخاری )
امام ابو جعفر محمد بن ابن جریر طبری لکھتے ہیں ، کہ حضرت قتادہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس معاملے میں سوال کیا کہ آپ نے عبداللہ بن ابی جیسے دشمن اسلام نے نماز جنازہ بھی پڑھادی اوراس کے کفن کے لیے اپنی قمیص مبارک بھی عطاء فرمادی تو آپ نے فرمایا: (اس کی بدبختی اورگستاخی کی وجہ سے ) میری قمیص اوراس پر میری نمازِ جنازہ ا س سے اللہ کے عذاب کو دور نہیں کرسکتی ،اور بے شک مجھے (اللہ رب العزت کے کرم سے)یہ امید ہے کہ میرے اس عمل سے اس کی قوم کے ایک ہزار افراد مشرف بالایمان ہوجائیں گے۔(جامع البیان جلد ۱۰ ص۱۴۲)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا بیان سے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال تقسیم فرمایا : انصار کے (منافقین میں سے )ایک شخص (معتب بن قشیر )نے کہا ، قسم بخدا ،محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)نے اس تقسیم سے اللہ کی رضا جوئی کا ارادہ نہیں کیا، میں نے آپ کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اس بات کی خبر دی ، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ انور متغیر ہوگیا اورآپ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ حضرت موسیٰ (علیہ السلام )پر رحم فرمائے ان کو اس سے بھی زیادہ اذیت دی گئی تھی اور انھوں نے اس پر صبر کیا تھا۔(صحیح بخاری )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں