بدھ، 16 جون، 2021

درگذر کرنے والے(۱)

 

درگذر کرنے والے(۱)

حضور نبی رحمت ﷺنے اپنے ان دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا جنہوںنے آپکی مخالفت میں کوئی دقیقہ بھی فروگزاشت نہ کیا، ابو سفیان نہ صرف آپکی دشمنی میں پیش پیش تھا بلکہ ابوجہل کی ہلاکت کے بعد کفار کا سب سے بڑا سرغنہ تھا، ابو سفیان کی معافی کے بارے میں امام ابو الحسن علی بن ابی الکرم الشیبانی رقم طراز ہیں ’’جب جناب رسالت مآب ﷺنے مکہ فتح کرلیا تو ابو سفیان بن الحارث اورعبدبن ابی امیہ نے حضور اکرم ﷺکی خدمت اقدس میں حاضر ہونے کی اجازت طلب کی ، ام المومنین حضرت ام سلمہ ؓنے انکی باریابی کی سفارش کی ، ابو سفیان نے کہا اگرمجھے آپکی بارگاہ میں باریا ب ہونے کی اجازت نہ ملی تو میں اپنے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر دوردراز علاقوں کی طرف نکل جائوں گا، اوربھوکا پیاسا مرجائوں گا ، جناب رحمت اللعالمین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے یہ بات سنی تو آپ کا دل پسیج گیا ، اورآپ نے انکو حاضر ی کی اجازت عطاء فرمادی ، اورانھوںنے آپکی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر اسلام قبول کرلیا، ایک روایت یہ بھی ہے کہ حضرت علی ؓنے ابو سفیان کو مشورہ دیا کہ تم سامنے کی طرف سے جانااور آپ سے وہی بات کہنا جو حضرت یوسف ؑکے بھائیوںنے حضرت یوسف ؑکی خدمت عالیہ میں کہی تھی ، خدا کی قسم اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو ہم پر فضیلت عطاء فرمائی اوربے شک ہم بھی قصور وار تھے، انھوںنے اس مشورہ پر عمل کیا اوراسی طرح کہا تو جناب رسالت مآب ﷺنے ارشاد فرمایا:آج کے دن تم پر کوئی ملامت نہیں ، اللہ تعالیٰ تم کو معاف فرمائے اوروہ سب سے زیادہ رحم فرمانے والا ہے ، آپ نے ان کو اپنے قریب بٹھایا ، انھوںنے اسلام قبول کرلیا اور ابوسفیان نے اپنی پچھلی زیادتیوں اور فروگذاشتوں پر معافی طلب کی ۔ایک اورروایت میں ہے کہ حضرت عباس ؓنے حضور اقدس علیہ الصلوٰۃ والسلام سے عرض کی ، یارسول اللہ ! ابوسفیان تفاخر کو پسند کرتا ہے اسکو کوئی ایسی چیز عنایت فرمادیجئے جسکی وجہ سے یہ اپنی قوم کے درمیان فخر کرے ، آپ نے فرمایا: ٹھیک ہے ،جو شخص ابو سفیان کے گھر میں داخل ہوگا ، اسکو امان ہے ، اورجو شخص حکیم بن حزام کے گھر میں داخل ہو گا اس کو امان ہے ، جو شخص مسجد میں داخل ہوگیا اس کو امان ہے اور جس نے اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیا اس کیلئے بھی امان ہے ، اسی طرح ابوسفیان کی بیوی ہند کو پیش کیاگیا، آپ نے فرمایا : کیا یہ ہند ہے ، اس نے کہا ، میں ہند ہوں ، اللہ آپکو معاف فرمائے ، آپ میری پچھلی خطائوں کو معاف فرما دیجئے ، ہند کے ساتھ اور عورتیں بھی تھیں آپ نے ان سے عہد لیا کہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کرینگے ، قتل سے اجتناب کریں، کسی نیک کام میں آپکی نافرمانی نہیں کرینگی ، پھر آپ نے حضرت عمر ؓسے فرمایا: ان سے بیعت لو اورانکی مغفرت کی دعاء فرمائی۔(الکامل فی التاریخ)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں