درگذر کرنے والے(۵)
وحشی نے کہا یہ بھی بہت سخت شرط ہے کیونکہ اس میں ایمان لانے سے پہلے کے گناہوں کا ذکر ہے ، ہوسکتا ہے مجھ سے ایما ن لانے کے بعد گناہ سرزد ہوجائیں ، اگرایمان لاکر بھی میری بخشش نہ ہوتو پھر میرے ایمان لانے کا فائدہ ؟تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک کیے جانے کو نہیں بخشتا اوراس کے علاوہ جو گناہ ہو اسے جس کیلئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے ۔(النساء ۴۸)وحشی نے کہا : اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اس آیت میں تو مغفرت اللہ کے چاہنے پر موقوف ہے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے بخشنا ہی نہ چاہے تو پھر ایما ن لانے کا کیا فائدہ ۔اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ’’آپ کہیے کہ اے میرے بندو! جوا پنی جانوں پر (گناہوں کا ارتکاب کرکے)ظلم کرچکے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوبے شک وہی بہت بخشنے والا بے حدرحم فرمانے والا ہے ‘‘۔(الزمر۵۳)اس پر وحشی نے کہا، اب مجھے اطمینان ہوا، پھر اس نے کلمہ پڑھا اوراسلام قبول کرلیا، صحابہ کرام نے جناب رسالت مآب ﷺسے استفسار کیا، یارسول اللہ(صلی اللہ علیک وسلم)یہ بشارت آیا کہ صرف وحشی کیلئے ہے یا سب کیلئے ہے ، آپ نے فرمایا: سب کے لیے ۔
حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے وحشی آپ سے امان طلب کرکے آیا تھا ، پھر آپ کی طرف سے دعوت اسلام پر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبول اسلام کی شرائط پیش کیں اورآپ نے یہی جوابات ارشاد فرمائے ، (ابن عساکر : تاریخ دمشق )یوں وحشی بھی صحابہ میں شامل ہوگئے رضی اللہ عنہم ، سبحان اللہ رحمۃ اللعالمین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے وحشی جیسے شخس کا بھی گویا کہ ناز اٹھایا اوران کی شرائط تسلیم کرکے انھیں کلمہ پڑھایا ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں