اتوار، 20 جون، 2021

درگذر کرنے والے(۵)

 


درگذر کرنے والے(۵)


وحشی وہ شخص تھا جس نے رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچاحضرت حمزہ ابن عبدالمطلب رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، بعد میں ہند نے ان کے جسد مبارک کا مثلہ کردیا ،آپ کو اس قتل اوربہیمانہ حرکت سے بہت ہی اذیت پہنچی تھی، مکہ فتح ہوا تو وحشی جان کے خوف سے بھاگ کر طائف چلا گیا۔ پھر ایک وفد کے ساتھ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت عالیہ میں حاضر ہوااوراسلام قبول کرلیا۔ سیرت نگاروں نے وحشی کے قبول اسلام کا بڑا ہی اثر انگیز واقعہ نقل کیا ہے، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وحشی کو طلب فرمایا اوراسلام کی دعوت دی، وحشی نے کہا : اے محمد (صلی اللہ علیہ وسلم)آپ مجھے کس طرح اپنے دین کی دعوت دے رہے ہیں حالانکہ میں نے شرک کیا ہے ، قتل کیا ہے اوربدکاری کا بھی مرتکب ہوا ہوں ، اوریہ بھی پڑھتے ہیں ’’اورجو لوگ اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کی عبادت نہیں کرتے اورجس شخص کے قتل کو اللہ نے حرام کیا ہے اس کو قتل نہیں کرتے مگر حق کے ساتھ اوربدکاری نہیں کرتے جو شخص ایسا کرے گا سزاپائے گا‘‘(الفرقان ۶۹/۶۸)وحشی نے یہ کہا تو اللہ رب العزت نے آپ پر یہ آیت نازل فرمائی ’’لیکن جو (موت سے پہلے)توبہ کرلے اورایمان لے آئے اورنیک کام کرے تو اللہ ان لوگوں کی برائیوں کو نیکیوں سے بدل دے گا اوراللہ بہت بخشنے والا بے حدرحم والا ہے۔ ‘‘ (الفرقان ۷۰)

وحشی نے کہا یہ بھی بہت سخت شرط ہے کیونکہ اس میں ایمان لانے سے پہلے کے گناہوں کا ذکر ہے ، ہوسکتا ہے مجھ سے ایما ن لانے کے بعد گناہ سرزد ہوجائیں ، اگرایمان لاکر بھی میری بخشش نہ ہوتو پھر میرے ایمان لانے کا فائدہ ؟تب اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی ’’بے شک اللہ اپنے ساتھ شرک کیے جانے کو نہیں بخشتا اوراس کے علاوہ جو گناہ ہو اسے جس کیلئے چاہتا ہے بخش دیتا ہے ۔(النساء ۴۸)وحشی نے کہا : اے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اس آیت میں تو مغفرت اللہ کے چاہنے پر موقوف ہے، ہوسکتا ہے اللہ تعالیٰ مجھے بخشنا ہی نہ چاہے تو پھر ایما ن لانے کا کیا فائدہ ۔اس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے یہ آیت مبارکہ نازل فرمائی ’’آپ کہیے کہ اے میرے بندو! جوا پنی جانوں پر (گناہوں کا ارتکاب کرکے)ظلم کرچکے ہو، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوبے شک وہی بہت بخشنے والا بے حدرحم فرمانے والا ہے ‘‘۔(الزمر۵۳)اس پر وحشی نے کہا، اب مجھے اطمینان ہوا، پھر اس نے کلمہ پڑھا اوراسلام قبول کرلیا، صحابہ کرام نے جناب رسالت مآب ﷺسے استفسار کیا، یارسول اللہ(صلی اللہ علیک وسلم)یہ بشارت آیا کہ صرف وحشی کیلئے ہے یا سب کیلئے ہے ، آپ نے فرمایا: سب کے لیے ۔

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ پہلے وحشی آپ سے امان طلب کرکے آیا تھا ، پھر آپ کی طرف سے دعوت اسلام پر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے قبول اسلام کی شرائط پیش کیں اورآپ نے یہی جوابات ارشاد فرمائے ، (ابن عساکر : تاریخ دمشق )یوں وحشی بھی صحابہ میں شامل ہوگئے رضی اللہ عنہم ، سبحان اللہ رحمۃ اللعالمین علیہ الصلوٰۃ والتسلیم نے وحشی جیسے شخس کا بھی گویا کہ ناز اٹھایا اوران کی شرائط تسلیم کرکے انھیں کلمہ پڑھایا ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں