بدھ، 30 جون، 2021

رَمْزِ اطاعت

 

رَمْزِ اطاعت

ہجرت کے چھٹے سال نبی کریم ﷺنے احرام باندھا اورچودہ سو زائدصحابہ کرام کی معیت میں عمرہ کی نیت سے سفر کا آغاز کیا،کفار مکہ کو اس سفر کی اطلاع ہوئی تو انھوں نے حضور اکرم ﷺکے مکہ میں تشریف فرما ہونے کے بارے میں بڑے رد وکد کا اظہار کیا ،آپ نے حضرت عمر ؓ  کو حکم فرمایا کہ اہل مکہ سے مذکرات کیلئے جائیں لیکن انھوں نے مشورہ عرض کیا کہ موجودہ صورتحال میں حضرت عثمانؓ موزوں شخصیت ہیں، سو آپ نے حضرت عثمان غنی ؓ کو اپنا نمائندہ بنا کر اہل مکہ کی طرف بھیجا تاکہ وہ انھیں اطمینان دلائیں کہ مسلمانوں کا ارادہ محض بیت اللہ شریف کی حاضری اورعمرہ کی ادائیگی کا ہے۔’’اہل مکہ نے حضرت عثمان ؓ کو اپنے پاس روک لیا تاکہ بات چیت کا سلسلہ جاری رہے ، اس اثناء میں کفار نے حضرت عثمان ؓ  کو کہا کہ کسی دوسرے مسلمان کو تو نہ ہم مکہ میں داخل ہونے کی اجازت دینگے اورنہ وہ کعبہ کا طواف کرسکیں گے البتہ آپ ہمارے مہمان ہیں، آپ کو اجازت ہے کہ آپ خانہ کعبہ کاطواف کرلیں، وہ تو سمجھتے تھے کہ عثمان ؓہماری اس اجازت کو بصد تشکر قبول کرینگے اورفوراً طواف کعبہ میں مشغول ہوجائینگے لیکن اس عاشق صادق کا جواب سن کر انکی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔آپ نے انہیں فرمایا کہ ’’میں اس وقت تک کعبہ کا طواف نہیں کروں گا جب تک میرا محبوب میرے اللہ کا رسول(ﷺ) طواف نہیں کریگا۔‘‘ حضرت عثمان ؓکے مکہ روانہ ہونے کے بعد بعض صحابہ کے دل میں رہ رہ کر یہ خیال چٹکیاں لینے لگا کہ کتنے خوش نصیب ہیں عثمان انہیں مکہ مکرمہ جانے کا موقع مل گیا ہے ۔وہ بیت اللہ کی زیارت کرکے اپنی آنکھوں کو ٹھنڈا کرینگے،  معلوم نہیں ہمیں یہ سعادت نصیب ہوتی ہے یا نہیں ۔اپنے ان جذبات کا اظہار انہوںنے بارگاہ رسالت میں بھی کردیا۔ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا : ’’میرا خیال ہے کہ وہ کعبہ کا طواف ہر گز نہیں کرینگے جبکہ ہم محصور ہیں اورہمیں مکہ میں داخلہ کی اجازت بھی نہیں‘‘۔ حضرت عثمان ؓجب واپس آئے تو صحابہ نے پوچھا کہ آپ نے بیت اللہ شریف کا طواف کیا، اس مومن صادق نے جواب دیا: ’’اس ذات پاک کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے۔ اگر میں احرام کی حالت میں کئی سال بھی مکہ میں رہتا۔ تو میں ہرگز طواف نہ کرتا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کا پیارا رسول طواف نہ فرماتا‘‘۔ علامہ ابن قیم نے حضرت عثمان ؓ کا جواب یوں رقم کیا ہے آپ نے فرمایا:’’تم نے میرے بارے میں سوئے زن سے کام لیا۔ اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے، اگر میں مکہ میں ایک سال بھی رہتا اورحضور علیہ الصلوٰۃ والتسلیم حدیبیہ میں تشریف فرمارہتے تو میں ہر گزکعبہ کا طواف نہ کرتا جب تک کہ میرے آقاعلیہ السلام طواف نہ کرتے ۔‘‘(زاد المعاد)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں