اتوار، 21 جون، 2020

Namaz Ki Farziat

نماز کی فرضیت


نماز جو ایمان اور کفر کے درمیان نشان امتیاز ہے۔ ابتدائے دعوت ہی سے مسلمانوں کا معمول رہی ۔لیکن اس کا حکم پانچ نمازوں کے حوالے سے حضور اکرم ﷺ کے سفر معراج کے دوران ہوا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ابتداء ہی سے نماز اداء فرماتے تھے۔اکثر سیرت نگاروں نے طلوع فجر سے پہلے اور غروب آفتاب سے قبل کا ذکر کیا ہے۔ کبھی آپ صحن حرم میں نماز ادا فرماتے تو قریش آپ کو ایزاء دینے کی کو شش کرتے ۔ کبھی آپ کی ہنسی اڑاتے،کبھی آپ کی گردن مبارک میں پھندا ڈال دیتے کبھی تو یہاں تک جسارت کرتے کہ عین حالت سجدہ میں آپ کی پشت مبارک پر نجاست ڈال دیتے اور جب آپ اس بار نجاست کی وجہ سے اٹھنے میں دقت محسوس کرتے تو قہقے لگاتے ۔عام مسلمان رات کے سائے میں نماز پڑھتے یا دن میں ادھر اُدھر چھپ کر نماز پڑھتے ۔ ایک بار حضرت سعد ابن ابی وقاص چند مسلمانوں کے ساتھ مکہ کی ایک گھاٹی میں نماز پڑھ رہے تھے کہ مشرکین کی ایک جماعت وہاں آگئی۔ اس نے اس نماز کو اچھا نہ سمجھا اور مسلمانوں کو برا بھلا کہااور ان سے لڑنے پر آمادہ ہوگئی۔(سیرت ابن ہشام) ۔معراج کا سفر گویا کہ ظلم وتشدد کے ایک دور کے خاتمے کی نوید تھا اور عروج وکامرانی کی بشارت بھی اس سفر میں تعلق بااللہ کے اس مستقل عمل کو حتمی شکل دے دی گئی اور عروج بندگی کا راستہ متعین کردیا گیا۔ حضرت انس بن مالک جناب رسالت مآب ﷺسے روایت کرتے ہیں ۔’’اللہ تعالیٰ نے میری امت پر پچاس نمازیں فرض کردیں میں اسکے ساتھ واپس لوٹا جب حضرت موسیٰ علیہ السلام کے پاس سے گزرا تو انھوں نے پوچھا اللہ تعالیٰ نے آپ کے لئے آپکی امت پر کیا فرض کیا ہے؟میں نے کہا پچاس نمازیں کہنے لگے اپنے رب کے پاس واپس جائیے اس لئے کہ آپکی امت انکی طاقت نہیں پائے گی ۔ سومیں نے مراجعت کی رب تعالیٰ نے ان کا ایک حصہ کم کردیا میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا اور کہا کہ پروردگار نے ان کا ایک حصہ کم کردیا ہے۔وہ کہنے لگے آپ اپنے رب کے ہاں پھر واپس جائیے کیوں کہ آپکی امت اسکی طاقت بھی نہیں پائے گی۔ میں نے رب کی بارگاہ میں حاضری دی اللہ نے ان کا ایک حصہ بھی معاف فرمادیا۔ لیکن میں حضرت موسیٰ کے پاس آیا تو انھوں نے پھر اللہ رب العزت کی بارگاہ میں جانے کا مشورہ دیا ۔اب پروردگار نے فرمایا یہ پانچ نمازیں ہیں اور یہ (دراصل) پچاس ہی ہیں میرے پاس فیصلہ تبدیل نہیں ہوتا(یعنی پانچ نمازیں اپنے ضمن میں پچاس نمازوں کا اجر اور ثواب رکھیں گی) (صحیح بخاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں