جمعہ، 10 جون، 2022

رفاقت اور دوستی کے معیار

 

رفاقت اور دوستی کے معیار

کہتے ہیں کہ صحبت صالح ترا صالح کند، صحبت طالع ترا طالع کند۔ نیک اور صالح فرد کی صحبت اور دوستی صالحیت اور پر ہیز گاری کا باعث بنتی ہے اور برے افراد کی صحبت بھی برائی کی طرف لے جاتی ہے۔ عر ب کہتے ہیں المرء علی دین خلیلہٖ انسان اپنے دوست کے مسلک ومشرب پر ہوتا ہے۔ اگر انسان کو ایسی رفاقت کی تلاش ہو جو اس کیلئے دین اور دنیا دونوں میں معاونت کا سبب بنے ، تو اس کا معیا ر کیا ہونا چاہیے، امام غزالی کہتے ہیں اپنے رفیقِ کار (پارٹنر) اور دوست کا انتخاب کرتے ہوئے اس میں پانچ خصلتیں ضرور دیکھو۔ (۱) عقل (۲)حسن خلق(۳) خیر کی صلاحیت (۴)سخاوت  (۵)سچائی۔
(۱) عقل مند شخص کو اپنا دوست بنائو کیونکہ احمق کی دوستی کا کوئی فائدہ نہیں۔ احمق کی دوستی کا انجام تنہائی اور قطع تعلقی پر ہوتا ہے۔ وہ چاہتا ہے کہ تمہیں فائدہ ہو لیکن جہالت کی وجہ سے نقصان پہنچاتا ہے‘ اسی لیے کہا گیا ہے کہ بے وقوف دوست سے عقل مند دشمن بہتر ہے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں۔ ’’جاہل سے دوستی مت رکھو اور اپنے آپ کو اس سے بچائو پس کتنے جاہل ہیں جنہوں نے حلیم شخص کو ہلاک کر دیا‘‘۔ (۲) بدخو اور بدخلق کی پہچان یہ کہ غصے کے وقت اسکا نفس اسکے قابو میں نہیں رہتا۔ حضرت علقمہ عطاروی رحمتہ اللہ علیہ نے وفات کے وقت اپنے بیٹے کو وصیت کی کہ بیٹا اگر کسی کے دوست بننا چاہتے ہو تو ایسے شخص کی سنگت اختیار کرو کہ اگر تم اسکی خدمت کرو تو وہ تمہیں محفوظ رکھے اور بچائے گا، اگر اس سے مِلو، تو تمہارے اخلاق سنوریں۔ تم اس سے نیکی کرو تو اسے شمار کرے اور یا درکھے اگر تم سے کو ئی فروِ گذاشت ہو جائے تو وہ تم سے در گزر کرے۔ (۳) ایسے شخص کا انتخا ب کرنا چاہیے۔ جس کا رحجان طبع خیر کی طرف ہو۔ یاد رکھو جو شخص اللہ سے نہیں ڈرتا حوادثات زمانہ بھی اسکی اصلاح نہیں کر سکتے۔ یعنی وہ عبرت پکڑنے کی بجائے مزید فسق وفجور میں مبتلا ہوجاتا ہے اور گنا ہوںپر دلیر ہو جاتا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کا ارشاد ہے۔ ’’اس شخص کی پیروی نہ کر و جس کا دل ہم نے اپنی یا د سے غافل کردیا اور وہ اپنی خواہشات کا پیر وکار ہے۔‘‘ (۴) حریص اور لالچی کی دوستی سے بھی اجتنا ب کر نا چاہیے کیونکہ انسانی طبائع ایک دوسرے سے غیر محسوس طور پر متاثر ہوتے ہیں۔ (۵) جھوٹا شخص سراب کی طرح ہوتا ہے جس سے دور کی چیز یں نزدیک اور نزدیک کی اشیاء دور نظر آتی ہیں۔ جھوٹ کا عادی شخص تمہارے وہ خصائل بیان کریگا جن سے تم خالی ہو اور تمہاری جن غلطیوں کی نشاندہی ضروری ہے محض تمہیں خوش کرنے کیلئے ان سے پہلوتہی کر ے گا۔ ہماری روشن اور تابندہ اخلا قی قدروں نے ایک عام دوستی کیلئے کتنے معیار قائم کیے ہیں اور ہم اپنے ماحول معاشرے اور ملت کی ذمہ داریوں کیلئے بھی کسی معیا ر کے قائل نہیں رہے ۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں