دوستی
امام غزالی ارشاد فرماتے ہیں: انسان تین طرح کے ہوتے ہیں۔ بعض غذا کی طرح جن کے بغیر چارہ نہیں، بعض دوا کی طرح ہوتے ہیں۔ جن کی ضرورت خاص اوقات میں پڑتی ہے۔ بعض بیماری کی طرح ہوتے ہیں، جن کی ضرورت کبھی محسوس نہیں ہوتی۔ شعورو آگہی کے ساتھ روشناسِ خلق رہنے میں بھی بڑی افادیت ہے۔ مختلف اشخاص میں جو برائیاں نظر آئیں انسان ان سے بچے۔ نیک وہی ہے جو دوسروں سے نصیحت پکڑے۔ کیونکہ مومن مومن کا آئینہ ہوتا ہے۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے استفسار کیا گیا ہے کہ آپ نے ادب کس سے سیکھا، آپ نے فرمایا، مجھے کسی نے ادب نہیں سکھایا، صرف جاہل کی جہالت دیکھ کر میں نے اسے ترک کردیا۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کافرمان ہے کہ اگر آدمی اس بات کو ترک کر دے جو دوسروں سے اسے بری محسوس ہوتی ہے تو اسے کسی ادب سکھانے والے کی ضرورت نہیں رہتی اور اسکے اخلاق خودبخود سنور جاتے ہیں۔ حقوق صحبت اور دوستی کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جب تم کسی معاملے میں کسی کو شریکِ کار بنائو تو صحبت کے حقوق کو ملحوظ ِخاطر رکھو۔ جنابِ سرورکا ئنات صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں: بھائی ہاتھوں کی طرح ہوتے ہیں جو ایک دوسرے کو دھوتے ہیں۔ ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے جنگل میں دومسواک لیے جن میں ایک ٹیرھا اور دوسرا سیدھا تھا۔ آپؐ کے ساتھ اس وقت ایک صحابی تھے۔ آپؐ نے سیدھا مسواک اُس صحابی کو عنایت فرمایا اور ٹیرھا اپنے لیے رکھ لیا۔ انھوں نے خدمت اقدس میں گزارش کی، یارسول اللہ سیدھا مسواک آپ کا ہی حق تھا۔ آپؐ نے فرمایا جو ایک لمحہ کا بھی ساتھی بنے تو اس سے پوچھا جائیگاکہ اس ایک لمحہ میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقرر کردہ صحبت کے حقوق اداکیے ہیں یا نہیں۔ آپ ؐنے ارشاد فرمایا کہ دو ساتھی کبھی ایک دوسرے کے دوست نہیں کہلا سکتے۔ جب تک انکی صحبت اللہ تعالیٰ کیلئے نہ ہو یا وہ باہم نرمی سے پیش نہ آئیں۔ آج ہمارے معاشرے میں جنسِ سے ایثارو محبت کم ہوتی جا رہی ہے۔ خودغرضی کا چلن عام ہو رہا ہے۔ بالعموم دیکھا جاتاہے کہ کاروبار میں باہمی اشتراک وتعاون زیادہ عرصہ تک چلتا نہیں اور اسکی وجہ بھی عام طور پر یہی ہوتی ہے کہ کہ ایک شراکت دار دوسرے کو دھوکہ دیتا ہے اور جب بھی اسے موقع ملتا ہے ایثار سے کام لینے کے بجائے خود غرضی سے کام لیتا ہے۔ ایسے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات ہمارے رہنما ہیں۔ پہلے تو یہ کہ رفاقت کا انتخاب کر تے ہوئے احتیاط ودانش سے کام لینا چاہیے اور پھر اعتماد وایثار کو اپنا شعار بنانا چاہیے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں