جمعرات، 23 جون، 2022

انقلابِ فکر و عمل (۲)

 

انقلابِ فکر و عمل (۲) 

حضور اکرم ﷺ کی دعوت عرب کے اطراف واکناف میں پھیل گئی، خنساء بنت عمرو بھی اس پیغام سے آشناء ہوئیں۔ اللہ نے انہیں فطرت سلیم عطاء کی تھی‘ وہ فہم وفراست اور ذوق لطیف سے آراستہ تھیں۔ یہ پیغام سنتے ہی اسکی حقانیت ان پر واضح ہوگئی۔ انہوں نے اپنے قبیلہ کے چند افراد کو ساتھ لیا اور حضور انورؐ کی خدمت میں مدینہ منورہ حاضر ہوگئیں اور اسلام کی دولت سے مشرف ہوئیں۔ اس موقع پر حضوراکرم  ﷺ نے بڑی دیر تک ان کا درد و سوز سے لبریز کلام بھی سماعت فرمایا‘ حضورؐ کلام سنتے اور فرماتے جاتے، شاباش! اے خنسائ، شاباش! اے خنسائ۔ قبول اسلام کے بعد اپنے قبیلے میں واپس آگئیں۔ انکے لہجے کی تاثیر اور خلوص نے بڑا اثر دکھایا اور بے شمار لوگ انکی تبلیغ سے متاثر ہوکر دائرہ اسلام میں داخل ہوئے۔ خنساء اسکے بعد بھی کئی بار مدینہ منورہ حاضر ہوئیں اور نبی کریم  ﷺ  سے اکتسابِ فیض کیا۔ 
سیّدنا عمر ابن خطاب کے زمانے میں قادسیہ کا تاریخی معرکہ برپا ہوا۔ حضرت خنساء ؓعنہا بھی اپنے چاروں بیٹوں کیساتھ اس معرکہ میں شریک تھیں۔ معرکے کی شب انہوں نے اپنے بیٹوں سے کہا، اے میر ے بچو! تم نے اپنی خوشی سے اسلام قبول کیا اور ہجرت کی سعادت حاصل کی‘ خوب سمجھ لو کہ جہاد فی سبیل اللہ سے بڑھ کر کوئی کارِ ثواب نہیں۔ آخرت کی زندگی دنیا کی فانی زندگی سے کہیں بہتر ہے۔ کل جب تم میدانِ کارزار میں اترو تو اللہ سے فتح ونصرت اور کامیابی کی دعا مانگتے ہوئے دشمن پر ٹوٹ پڑنا۔ جب تم محسوس کرو کہ لڑائی کا تنور خوب بھڑک اٹھا ہے، تو تم خاص آتش دان میں جا گھسنا۔ راہ حق میں دیوانہ وار تلوار چلانا‘ ہوسکے تو دشمن کے سپہ سالار پر ٹوٹ پڑنا‘ اگر کامیاب رہے تو کیا کہنے اور اگر شہادت نصیب ہوگئی تو آخرت کی فضلیت سے بڑھ کر اور کیا بات ہوسکتی ہے۔ چاروں بیٹوں نے ثابت قدم رہنے کا وعدہ کیا۔ صبح جب یہ شیرجوان میدانِ کارزار میں اترے توضعیف وناتواں خنساء نے بارگاہِ الٰہی میں عرض کی الٰہی! میری متاعِ عزیز یہی کچھ تھی‘ اب تیرے سپرد ہے۔ ہوا یوں کہ چاروں بیٹے ایک ایک کرکے اللہ کے راستے میں قربان ہوگئے۔ خنساء کو خبر ملی تو کہا مجھے انکے لاشوں کے پاس لے جائو۔ ٹٹول ٹٹول کر چاروں کی پشتوں کو دیکھا‘ وہا ں کوئی نشان زخم نہیں تھا۔ جتنے زخم تھے، سینے پر تھے، بے ساختہ زبان سے نکلا الحمدللہ الذٰی شرّفَنی بشہادۃ ھؤلائ۔ اللہ کی حمد جس نے مجھے ان چاروں کی شہادت سے مشرف کیا۔ اللہ اللہ یہ انقلاب فکر و عمل وہ خاتون جس نے اپنے بھائی کے غم میں رو رو کر وجود کو کھوکھلا کرلیا اور اپنی بینائی تک زائل کرلی۔ اپنے چاروں بیٹوں کی شہادت کو کس حوصلے سے برداشت کررہی ہے اور موت کے پردے میں حیات کی کونسی روشنی دیکھ رہی ہے ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں