ہفتہ، 18 جون، 2022

اخلاص نیت (۱)

 

اخلاص نیت (۱)

فرمان خداوندی ہے۔ (۱) اللہ تعالیٰ کے حضور (قربانیوں) کے گوشت اور انکے خون نہیں پہنچتے البتہ اسکے حضور تمہاری طرف سے تقویٰ پہنچ جاتاہے۔ (الحج ۳۷)  (اے پیغمبر) کہہ دیجئے جوکچھ تمہارے سینوں میں ہے تم اسے چھپائو یا ظاہرکرو‘ اللہ تعالیٰ اسے (اچھی طرح) جانتا ہے۔ (آل عمران ۲۹) حالانکہ نہیں حکم دیا گیا تھا انہیں مگر یہ کہ دین کواس کیلئے خالص کرتے ہوئے بالکل یک سو ہوکر اللہ تعالیٰ کی عبادت کریں اورنماز قائم کرتے رہیں اور زکوۃ ادا کرتے رہیں اور یہی دین نہایت سچاہے (البینہ آیۃ۵) امیرالمومنین حضرت عمر ابن خطاب سے مروی ہے‘ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا۔ آپ نے فرمایا ’’اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ہر شخص کو وہی کچھ ملے گا جس کی اس نے نیت کی۔ پس جوشخص اللہ اور اسکے رسول کیلئے ہجرت کی نیت کرے تو اسکی ہجرت اللہ اور اسکے رسول کی طرف ہوگی اور جس شخص کی ہجرت دنیاکی طرف ہوکہ اسے حاصل کرے یا کسی عورت کی نیت سے ہو کہ اس سے نکاح کرے تو اسکی ہجرت اسی طرف ہے جہاں کی اس نے نیت کی ہے۔ (بخاری ومسلم) مذکورہ بالا حدیث مبارکہ تعلیمات اسلامیہ میں بڑی اہمیت کی حامل حدیث ہے۔ بہت سے محدثین نے مجموعہ احادیث کا آغاز حصول ِ برکت کیلئے اس حدیث پاک سے کیا ہے تاکہ انکے کام میں اخلاص پیدا ہو اور انکی تمام محنت و مشقت کا قبلہ درست سمت میں رہے۔ اس حدیث مبارکہ کا پسِ منظر یہ ہے کہ حضور اکرم  ﷺ اور آپکے صحابہ کرام کو مکہ معظمہ سے ہجرت کاحکم ہوگیا سب نے نہایت اخلاص و آمادگی سے اپنے جنم بھومی کو چھوڑ دیا، اپنے عزیزو اقارب کو خیر آباد کہہ دیا، اپنے اپنے کاروبار اور دیگر مفادات سے دست کش ہوگئے اور محض اللہ پر توکل کرتے ہوئے ایک دوسرے شہر کی طرف چل پڑے جہاں امکانات کی ایک نئی دنیا انکی منتظر تھی، اسی زمانے میں مکہ کے مسلمانوں میں ایک صاحب ایسے تھے جن کے رشتے کی بات چیت مدینہ منورہ (اُس وقت یثرب) میں قیام پذیر ایک خاتون سے چل رہی تھی جس کانام اُ مِ قُبیس تھا۔ اُ مِ قُبیس نے یہ شرط عائد کردی کہ آپ ہجرت کرکے یہاں آجائیں تو میں آپ سے شادی کرلوں گی۔ انہوں نے اس شرط کو قبول کرلیا اور مدینہ منورہ منتقل ہو گئے اور وہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہوگئے۔ صحابہ کرام ازرہ خوش طبعی انہیں ’’مہاجرام قبیس‘‘ کہہ کر پکارتے اور کہتے ہماری ہجرت تو اللہ تعالیٰ اور اسکے رسول کیلئے تھی جبکہ آپ کی ہجرت اُمِ قبیس کیلئے، اس لیے آپ تو ٹھہرے ’’مہاجرام قبیس‘‘ انہیں یہ بات پسند نہ آتی۔ معاملہ جناب رسول اللہ  ﷺ کی خدمت اقدس میں پیش ہوا آپ نے تمام احوال سن کر جو تاریخی ارشاد فرمایا وہ مدار دین و ایمان بن گیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ(۲)

  حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ(۲)  آپ نے اسلام کی حالت ضعف میں کل مال و متاع ، قوت قابلیت اور جان و اولاد اور جو کچھ پاس تھاسب کچھ انف...