اتوار، 27 ستمبر، 2020

صاحبِ خلقِ عظیم

 

 صاحبِ خلقِ عظیم

حضورنبی رحمت ﷺ ارشاد فرماتے ہیں: اللہ تعالیٰ نے مجھے مبعوث فرمایاتاکہ میں اخلاق حسنہ کودرجہ کمال تک پہنچادوں۔ آپ نے یہ بھی ارشاد فرمایااللہ نے مجھے ادب سکھایااورمیں نے بطریق احسن ادب سیکھ لیا۔ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا جنہیں مشکوۃ نبوت سے براہ راست فیض یاب ہونے کاموقع میسر آیا ۔ آپکے خلق کے بارے میں کتنی معنی خیز اور گہری بات کرتی ہیں ’’ حضور کا خلق قرآن تھا، اس کے امر ونہی کی تعمیل حضور کی فطرت کاتقاضا تھا۔ اس بارے میں حضور کو غور وفکر اور سوچ بچار کی قطعاً ضرورت محسوس نہیں ہوئی تھی ۔ ایک اور حدیث مبارکہ میں حضرت ام المومنین نے حضوراکرم  ﷺ کے خلق کو مزید تفصیل اور وضاحت سے بیان کیا ’’ اللہ کے پیارے رسولؐ سے زیادہ کوئی شخص بھی اخلاق حسنہ سے متصف نہیں تھا۔ حضورؐ کاخلق قرآن تھاجس سے قرآن راضی ہوتااس سے حضورؐ راضی ہوتے جس سے قرآن ناراض ہوتاحضور اس سے ناراض ہوتے حضور فحش کلام نہ تھے اور نہ بازاروں میں شورکرنیوالے تھے۔نہ برائی کا بدلہ برائی سے دیتے تھے بلکہ حضور کاشیوہ عفوودرگزر تھا۔ان ارشادات کے بعد آپ نے سائل کوبتایاکہ وہ سورۃ المومنون کی پہلی دس آیتیں تلاوت کرے جس میں اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنی زبان قدرت سے اپنے حبیب لبیب کے اخلاق مبارکہ کاذکر فرمایاہے ‘‘ شیخ الشیوخ حضرت شہاب الدین سہروردی ؒارشاد فرماتے ہیں ’’ ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہانے جب حضور ؐکے خلق کی وضاحت کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا کان خلقہ القرآن آپ کامقصدیہ تھاکہ حضور ؐکے اخلاق ، اخلاق ربانیہ کاعکس جمیل ہیں ۔لیکن بارگاہ خداوندی کاادب ملحوظ رکھتے ہوئے یہ تو نہیں کہا کہ حضورؐ اخلاق ِ خداوندی سے متصف ہیں بلکہ فرمایاحضورؐ کاخلق قرآن کریم کے اوامرو نواہی کے عین مطابق تھا۔ آپ نے انوار الٰہی کی چمک دمک سے خجالت محسوس کرتے ہوئے یہ تعبیر اختیار کی۔‘‘ حضور اکرم  ﷺ کے خاص خدمت گزار حضرت انس بن مالک فرماتے ہیں ۔ میں نے اللہ کے پیارے رسول کی دس سال خدمت کی (اس وقت ان کی عمر آٹھ سال تھی اور وہ سفر حضر میں حضورؐ کی خدمت میں رہا کرتے تھے )اس طویل عرصہ میں رحمت عالم نے کبھی مجھے اُف تک نہیں کہا ۔ جو کام میں کرتااس کے بارے میں کبھی نھیں فرمایاکہ تم نے ایسا کیوں کیا،جو کام نہ کرتااسکے بارے میں کبھی نہیں فرمایا کہ یہ کام تم نے کیوں نہیں کیا۔ آپ نے کبھی میرے کسی کام میں نقص نہیں نکالا(بخاری ومسلم )۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں