احساس
سن۹ ہجری میں جب رومیوں کی جانب سے یہ اندیشہ لاحق ہوا کہ وہ سلطنتِ مدینہ پر یورش کرنا چاہتے ہیں تو رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فیصلہ فرمایاکہ آگے بڑھ کر حالات کا جائزہ لینا چاہیے ۔ مسلمانوں نے اس لشکر کی تیاری میں بے سروسامانی کے باوجود بہت بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔جو لوگ جنگی مہم میں شریک ہوسکتے تھے سب کو ساتھ چلنے کا حکم ہوا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوہ تبوک کے لیے روانہ ہوئے تو حضرت ابو خثیمہ رضی اللہ عنہ کسی وجہ سے ان کے ساتھ شامل نہ ہوسکے ۔
ایک روز شدید گرمی کا عالم تھا ،حضرت ابوخثیمہ اپنے اہل خانہ کے پاس آئے ، انھوں نے دیکھا کہ ان کی دونوں بیویاں ان کے باغ میں اپنے اپنے چھپڑ میں ہیں، انھوں نے چھپڑ میں ٹھنڈے پانی کا چھڑکائو کر رکھا ہے، لذیذ کھانے تیار کیے ہوئے ہیں اورپینے کے لیے ٹھنڈا پانی بھی فراہم کررکھا ہے۔ حضرت خثیمہ چھپڑوں کے پاس آکر رک گئے، اپنی بیویوں کودیکھا انھوں نے انکی آرام و آسائش کا جو اہتمام کیا ہوا تھااسے بھی ملاحظہ فرمایاتو ان کی زبان سے بے اختیار نکلا’’اللہ تبارک وتعالیٰ کا پیارا حبیب تو اس وقت دُھوپ اورلو کے عالم میں ہے اورابو خثیمہ اس خنک سائے میں ہے جہاں ٹھنڈا پانی موجود ہے ،لذیذ اوراشتہا ء انگیز کھانا تیار ہے ، خیال رکھنے والی خوبرو بیویاں ہیں یہ تو کوئی انصاف نہیں ہے‘‘پھر اپنی خواتین خانہ کو مخاطب کیا اورفرمایا :میں تم میں سے کسی کے چھپڑکھٹ میں قدم نہیں رکھوں گا بلکہ اپنے پیارے آقا کے پاس جائوں گا،میرے لیے فوراً زادِ سفر تیارکرو‘‘۔ان نیک بخت خواتین نے فوراً اہتمام کیا اورآپ اپنی اونٹنی پر سوار ہوکر لشکر اسلام کی جستجو میں نکل کھڑے ہوگئے ۔ جس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تبوک کے مقام پر پہنچے تو یہ بھی پہنچ گئے ۔حضرت عمیر بن وہب رضی اللہ عنہ بھی پیچھے رہ گئے تھے ۔راستے میں ان سے بھی ملاقات ہوگئی تھی ، جب دونوں ایک ساتھ لشکر کے قریب پہنچے تو ابو خثیمہ نے حضرت عمیر سے کہاکہ مجھ سے ایک بڑی کوتاہی سر زد ہوگئی ہے اگر آپ کچھ دیر توقف کرلیں تو میں آپ سے پہلے بارگاہِ رسالت مآب میں حاضری لگوالوں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں