اتوار، 20 ستمبر، 2020

پروردئہ لطف وکرم کی گواہی

 

پروردئہ لطف وکرم کی گواہی

حضرت علی المرتضیٰ وہ خوش نصیب انسان ہیں جنہیں نبی کریم ﷺ کی آغوشِ تربیت اور نگاہ لطف وکرم نصیب ہوئی۔آپکی والدہ ماجدہ فاطمہ بنت اسد رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: جب میرا یہ بچہ تو لد ہوا تو حضور اکرم ﷺ نے اس کا نام علی رکھا اور اسکے منہ میں اپنا لعاب دَہن ڈالا۔اور اپنی مبارک زبان اسکے منہ میں ڈالی جسے یہ مولود مسعود چوستا رہا یہاں تک کہ سوگیا۔(السیرۃ البنویہ ۔ زینی دحلان) آپکے والد گرامی جناب ابو طالب مالی اعتبار سے زیادہ آسودہ نہ تھے۔ ایک بار مکہ میں قحط پڑا توانکے مالی حالات مزید کمزور ہوگئے۔حضور رحمت عالم ﷺنے انکے معاملات ملاحظہ فرمائے تو اپنے چچا حضرت عباس کے پاس گئے اور انھیں ترغیب دی کہ ہمیں مل جل کر جناب ابو طالب کا ہاتھ بٹانا چاہیے۔ان کا ایک بیٹا کفالت کیلئے میں لے لیتا ہوں اور ایک کا ذمہ آپ اٹھا لیں۔چنانچہ حضرت علی المرتضیٰ ؓکی کفالت ،آپ نے اپنے ذمہ کرم پر لے لی۔اس طرح قدرت کے حسنِ انتظام نے ’’حضرت علیؓ کو اعلان نبوت سے پہلے ہی آغوش رسالت میں پہنچا دیا۔اللہ تبارک وتعالیٰ نے جس وقت آپ کو اسلام کی سعادت عطاء فرمائی ۔اس وقت آپکی عمر عزیز آٹھ برس تھی۔جب نماز کا وقت قریب آجاتا تو حضور اکرم ﷺ مکہ کی کسی وادی میں تشریف لے جاتے ۔حضرت علی ؓ بھی عموماً آپکے ساتھ ہوتے اور وہاں مل کر نماز ادا کرتے اور شام کے وقت واپس آجاتے۔ ابتدائی تین سال تک تبلیغ اسلا م کا سلسلہ خاموشی سے جاری رکھا۔اور مخصوص افراد تک اسکی دعوت پہنچائی گئی۔پھر اسکے بعد اعلان عام کا حکم ہوا، اور اپنے خاندان کے قریبی لوگوں تک پیغام اسلام پہنچانے کو کہا گیاہے۔ حکمِ ربانی کی تعمیل میں حضور اکرم ﷺنے اپنے خاندان کے لوگوں کو جمع کیا لیکن ابو لہب کی بدتہذیبی اور ناشائستہ گفتگو کی وجہ سے وہ محفل منتشر ہوگئی۔دوسرے دن آپ نے ایک مرتبہ پھر اپنے قریبی عزیزوں کوجمع کیا اور فرمایا کہ اے بنوعبد المطلب ! میں تمہارے سامنے دنیا اور آخرت کی بہترین نعمتیں پیش کرتا ہوں بتائو۔اس معاملے میں کون میرا ساتھ دیگا  آپکی یہ بات سن کر جملہ حاضرین خاموش رہے۔ فقط علی اسد اللہ رسولہ کی آواز ابھری ،انہوں نے عزم وثبات سے بھرپور لہجے میں کہا۔’’اگر چہ میں اس مجلس میں سب سے کم سن ہوں۔آشوب چشم میں مبتلارہتا ہوں،میری ٹانگیں بھی ناتواں ہیں، لیکن میں اسلام کے راستے میں آپ کا ساتھ دوں گا‘‘۔اور چشم فلک پیر نے دیکھا کہ اللہ نے علی کی عمرِ عزیز کو بابرکت کیا، انھیں دیدئہ بیناعطا ء کیا۔اور انکے قدموں کو وہ عزم وثبات عطاء کیا جو جرأت وپامردی کا استعار ہ بن گیا۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

حقیقت ِدین

  حقیقت ِدین انسانی زندگی میں اصل حاکم اس کی سوچ اور فکر ہوتی ہے ۔ انسان کے تمام اعمال اس کی سوچ اور فکر کے گرد گھومتے ہیں ۔ اگر انسان کی سو...