اسوئہ حسنہ
’’نظریات جب تک نظریات ہوں نہ ان کے حسن وقبح کا صحیح اندازا لگایا جاسکتا ہے اور نہ ان میں یہ کشش اور جاذبیت پائی جاسکتی ہے کہ وہ کسی کو عمل پر ابھار سکیں۔دلائل کے آپ انبار لگادیجئے، فضاحت وبلاغت کے دریا بہا دیجئے ۔لوگ تحسین وآفرین ضرور کریں گے۔لیکن ان نظریات کو اپنائے اور اس اپنانے کی جو ذمہ داریاں ہیں،اور ان ذمہ داریوں کو نباہنے کی راہ میں جو خطرات ہیں ان کو وہ اٹھا نے کے لیے آمادہ نہیں ہوں گے۔اسلام فلسفیانہ نظریات کا مجموعہ نہیں کہ آپ ڈرائینگ روم میں آرام دہ صوفوں پر بیٹھ کر انہیں موضوع بحث بنائیں۔اپنے ذہن رسا سے طرح طرح کی ترمیمیں پیش کریں ۔مجلسِ مذاکرہ منعقد کرکے مقالے پڑھیں،اور پھر یہ سمجھ لیں کہ ہم نے اپنا فرض اداکردیا ہے۔ بلکہ یہ تو ایک نظامِ حیات ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر راہنمائی کرتا ہے اور ہر مرحلہ پر پیغام دیتا ہے۔ اس پر عمل کرنا اور اس کی تعلیمات پر کا ربندہونا ،اس وقت تک آسان نہیں جب تک ایک عملی نمونہ ہمارے پاس نہ ہو اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی مخلوق کے لیے صرف قرآن نازل کرنے پر اکتفا نہیں کیا۔ بلکہ اس کی تبلیغ کرنے کے لیے اپنے محبوب کو منتخب فرمایاتاکہ وہ ارشادات خداوندی پر خود عمل کرکے دکھائے اور ان پر عمل کرنے سے زندگی میں جو زیبائی اور نکھار پیدا ہوتا ہے اس کا عملی نمونہ پیش کرے تاکہ جو حق کے متلاشی ہیں وہ قرآنی تعلیمات کی عملی تصویر دیکھ کر اس کو اپنے سینہ سے لگائیں۔‘‘(ضیا ء القرآن)۔ اللہ رب العزت ارشادفرماتے ہیں:۔
٭بے شک تمہاری رہنمائی کے لیے اللہ کے رسول (کی زندگی )میں بہترین نمونہ ہے۔ (یہ نمونہ)اس کے لیے ہے جو اللہ تعالیٰ سے ملنے اور قیامت کے آنے کی امید رکھتاہے ،اور کثرت سے اللہ کو یاد کرتا ہے۔ (۲۱/۳۳)۔ اسوئہ کے لفظ کی تحقیق کرتے ہوئے علامہ ابن منظور لکھتے ہیں۔الاسوہ والاسوہ ۔القدوۃ یعنی پیشوا ،راہنما ،امام ۔اس کا دسرا معنی یوں رقم فرمایا ہے۔جس سے کوئی غمزدہ اور شکسۃ دل تسلی حاصل کرسکے یعنی غمگسار ۔یعنی حضور کی ذات اقدس میں تمہارے لیے شان غمگساری ہے۔علامہ جوھری نے صحاح میں بھی یہی معنی کیا ہے۔ علامہ قرطبی لکھتے ہیں:۔’’اسوہ کا ایک معنی راہنما ہے اور اس کو بھی اسوہ کہتے ہیں جو غمزدہ دل کی تسلی کا باعث ہو۔حضور صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کا رخ انور زخمی کیا گیا ۔دندان مبارک توڑے گئے۔حضور کے چچا کو شہید کیا گیا ۔ بھوک برداشت کی،لیکن ان تمام حالات میں صابر وشاکر رہے۔اللہ تعالیٰ کی رضا کے طلب گار اور اسکی قضا پر راضی‘‘۔(ضیاء القرآن)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں