دعوت اور مزاحمت
،نبی کریم ﷺ کی دعوت کا آغاز ہوا تو مخالفت کا ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا۔ ایسا نہیں تھا کہ مکہ میں اہل نقل کی پہچان کرنیوالے لوگ نہیں تھے۔عرب قیافہ شناسی میں یدِ طولیٰ رکھتے تھے۔ چہرہ دیکھ کر کسی انسان کے کردار کی پوری تصویر کشی کردیتے تھے۔بلکہ اسکے حسب نسب کے بارے میں تقریباً صحیح اندازا قائم کر لیتے تھے۔کسی انسان یا جانور کا نشان قدم دیکھ لیتے تو ان پر حالات وواقعات بڑی حد منکشف ہو جاتے۔ حضور اکرم ﷺکی دعوت جہاں عام لوگوں کو اپنی دیر بند روایات سے انحراف نظرآرہی تھی۔وہیں پر اجارہ داروں کا ()وعیار ذہن اسے اپنی بالادستی کیلئے خطرہ سمجھ رہا ہے۔ ایک دن اخنس بن شریق نامی ایک کافر نے ابو جہل سے پوچھا اے ابو الحکم تم نے محمد (ﷺ) سے جو (کلام)سنا ہے اسکے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے۔ ابو جہل نے کہا ’’میں نے کیا خاک سنا ہے؟ حقیقت تو یہ ہے کہ ہمارا اور بنو عبدمناف کا اس با ت پر دیرینہ جھگڑا تھا کہ قوم کا سردار کون بنے گا۔اس شرف اور منصب کو حاصل کرنے کیلئے انہوں نے بھی دستر خوان آراستہ کرلیا اور ہر غریب ومسکین کو کھانا کھلایا اور ہم نے بھی اس سے سبقت لے جانے کیلئے غربا کی ضیافت کا اہتمام کیا ۔انہوں نے بھی لوگوں کے بوجھ اٹھائے اور ہم نے بھی ، انھوں نے بھی فیاضی سے کام لیا اور ہم نے بھی سخاوت سے کام لیا۔اور جب ہم مقابلہ کے دوگھوڑوں کی طرح ہوگئے ہیں۔تو انھوں نے اچانک اعلان کردیا ہے کہ ہم میں سے ایک شخص کو نبوت مل گئی ہے۔اور اسکے پاس آسمان سے وحی آتی ہے۔ (اب ہم کیا کریں؟)ہم یہ دعویٰ کیسے کرسکتے ۔ قسم بخدا ہم تو اس پر ہر گز ایمان نہیں لائیں گے اور نہ اسکی تصدیق کرینگے۔(سیر ت ابن ہشام)اسی طرح کی ضد،ہٹ دھرمی اور تعصب کا دوسرے سرداران قریش بھی شکارتھے۔ایسے میں جبکہ پوری قوم ایک طرف تھی اور حضور اکرم ﷺتنہا، ایک طرف،کارِ دعوت کا آگے بڑھنا کوئی آسان کام نہ تھا۔ اللہ رب العزت نے اپنے پیارے محبوب کو تین ایسے موثر ہتھیاروں سے نوازا تھا جن کا آپکے مخالفین کے پاس کوئی جواب نہ تھا۔ ٭آپکے پاکیزہ بے مثال اور بے داغ کرداروعمل کا معجزہ ٭آپکے قلبِ منیر پر نازل ہونی والی بے مثال ولازوال کتاب ٭آپکے لب انور سے اداء ہونیوالے، دل کی گہرائیوں میں اترنے والے پاکیزہ کلمات جو ،سادگی ،سلاست ،بلاغت اور معنویت سے بھر پور ہوتے تھے۔اور جن سے جھلکتا ہوا خلوص آپکے مخاطب کو اپنی تاثیر کی گرفت میں لے لیتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں