منگل، 15 ستمبر، 2020

اسوئہ کی صفت حسنہ

 

اسوئہ کی صفت حسنہ

اللہ تبارک وتعالیٰ نے انبیائے کرام اور رسولانِ ذی احتشام کو اس لیے مبعوث فرمایا کہ انسان ہدایت سے آشنا ہوجائے اور اس کی اصلاح ہوجائے۔ تاکہ وہ عبادت وعرفان کے راستوں پر گامزن ہوسکے،اور اپنی منزل مقصود تک رسائی حاصل کرلے۔

اصلاح سے مراد یہ نہیں کہ غریب کو دولت مل جائے تو اسلام کی اصلاح ہوجائے گی۔ایک بے اختیار کو اقتدار مل جائے تو اس کی اصلاح ہوجائے۔ایک بے رنگ ونام کو شہرت کی بلندیوں سے ہم کنار کردیا جائے تو اس کی اصلاح ہوجائے ۔عین ممکن ہے کہ دولت ،شہرت ،اختیار واقتدار کسی شخص کو نمرود وفرعون بنادے۔

اصلاح کی ایک ہی صورت ہے انسان کا دل سنور جائے اس کی روح کا تزکیہ ہوجائے اس کے باطن کی دنیا آباد ہوجائے۔پیغمبر علم وآگہی حضور رسالت پناہی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے۔

’’بے شک انسان کے جسم میں گوشت کا ایک پارہ ہے اگر وہ درست ہوجائے تو سارا جسم درست ہوجاتا اور اگر وہ بگڑ جائے تو سارا جسم بگڑ جاتا ہے اور ذرا غور سے سنو کہ وہ دل ہے۔‘‘

اگر انسان کا دل سنور جائے توغربت وافلا س اس کے کردار اور عزت نفس کو مجروح نہیں کرسکتا اور اختیار واقتدار اسے مغرور ومتکبر نہیں کرسکتا ہے۔

اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اصلاح قلب کیسے ممکن ہے۔ کیوں کہ دل کی دنیا کی فتح یابی کو ئی آسان  نہیں ہے ۔ انسان کی تاریخ اس حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے کہ انسانوں کے دل حقیقت میں صرف حسنِ عمل ہی سے متاثر ہوتے ہیں۔محض باتیں کتنی ہی دلکش کیوں نہ ہوں دلائل کتنے ہی معیاری کیوں نہ ہوں۔جب تک دائمی کا کردار وعمل اس کے قول کی تصدیق نہ کرے اسے دل کی دنیا تک اثر پذیر ی حاصل نہیں ہوسکتی ۔

اللہ تبارک وتعالیٰ نے اپنے محبوب کی ذات کو ایک کامل اور مکمل نمونہ بنا کر انسانوں میں بھیجا اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ’’اسوئہ‘‘کو لفظ ’’حسنۃ‘‘سے متصف فرمایا حسن کا معنی ہے ذَاتَ حُسنٍ یعنی حسن وجمال والا جس صاحبِ جمال کو حسن کے خمیر سے گوندھ کر بھیجا گیا ہے۔اس کو صاحب ’’اسوئہ حسنہ‘‘کہا گیا ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ(۲)

  حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ(۲)  آپ نے اسلام کی حالت ضعف میں کل مال و متاع ، قوت قابلیت اور جان و اولاد اور جو کچھ پاس تھاسب کچھ انف...