پیر، 28 نومبر، 2022

شیوئہ صبرو تحمل

 

شیوئہ صبرو تحمل

حضرت اسامہ بن زید رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم فدک کی بنی ہوئی ایک موٹی چادرزیب تن فرمائے ہوئے ایک دراز گوش پر سوارتھے ۔ آپ بنو خزرج کے امیر حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے تشریف لے جارہے تھے ، یہ واقعہ جنگ بدر سے پہلے کا ہے، آپ ایک مجلس کے قریب سے گزرے جس میں عبداللہ ابن ابی بھی موجود تھا، یہ اس وقت تک (ظاہر اً بھی)اسلام نہیں لایا تھا، اس مجلس میں مسلم، یہود اورمشرکین کے بہت سے افراد تھے اورحضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ بھی وہیں تھے، آپ کی سواری کے گزرنے سے گرد اڑی توابن ابی نے اپنی ناک پر چادر رکھ لی اورکہا ہم پر گرد نہ ڈالو، حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام وہاں ٹھہر گئے ، سلام ارشادفرمایااور(سب کو)اللہ تعالیٰ کی بندگی کی دعوت دی اورقرآن پاک کی آیات پڑھیں عبداللہ بن ابی نے یہ سن کر کہا ، اے شخص اس کلام سے بہتر کوئی چیز بھی نہیں ہے ، اگریہ حق ہے تو آپ ہمیں ، ہماری مجلس میں ایذاء نہ دیں، اوراپنی سواری پر واپس تشریف لے جائیں ،اورجو خود آپ کے پاس حاضر ہو، اسے سنائیے ۔حضرت عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ نے عرض کی ، یا رسول اللہ ! آپ ہماری مجلس میں ٹھہریں ،ہم تو اس بات کو بہت مرغوب رکھتے ہیں ، اس پر مسلمان ، یہود اورمشرک ایک دوسرے سے تکرار کرنے لگے، حتیٰ کہ لڑائی کے آثار نظر آنے لگے ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی تاکید کی، سب لوگ خاموش ہوگئے ، توحضور علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنی سواری پر تشریف فرماہوکر وہاں سے روانہ ہوگئے ، جب آپ حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے تو فرمایا، اے سعد! کیا تم نے بھی سنا کہ ابو حباب (عبداللہ ابن ابی)نے کیا کہا ہے، اس نے یہ ،یہ کہا ہے ، حضرت سعد نے عرض کی یا رسول اللہ !اس کو معاف فرمادیجئے ، اوراس سے درگزر فرمائیے اس ذات والا تبار کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی ہے، بے شک اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ پر جو کتاب نازل فرمائی ہے، وہ حق ہے ،(بات یہ ہے کہ )اس شہر کے باسیوں نے اس فیصلے سے اتفاق کرلیا تھا کہ وہ عبداللہ بن ابی کو سرداری کا تاج پہنائیں گے ، لیکن جب اللہ تبارک وتعالیٰ نے آپ کو حق دے کر بھیج دیا، تویہ بات درمیان میں ہی رہ گئی، اوراسے شہر کی حکمرانی کا موقع نہیں ملا، تو وہ غصے میں ہے ، اسی وجہ سے وہ اس حرکت کا مرتکب ہواہے جو آپ نے ملاحظہ فرمائی ، اس پر آپ نے اسے معاف کردیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اورآپ کے اصحاب ، اللہ کے حکم کے مطابق اہل کتاب اوریہودیوں کو معاف کردیتے اوران کی ایذاء پر صبر کرتے تھے۔ (بخاری ، مسلم ، احمدبن حنبل)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں