جمعہ، 11 نومبر، 2022

سورۃ بقرہ کے مضامین (23)

 

سورۃ بقرہ کے مضامین (23)

قصاص کہتے ہیں بدلے میں برابر ی یعنی کسی جرم کا بدلہ لینے میں برابری مساوات سے کام لینا، شریعت مطہرہ کی اصطلاح میں قتل کے بدلے میں قتل کرنا یا زخم کے بدلہ میں برابر کا بدلہ لینا قصاص کہلاتا ہے، اسلام کے ظہور سے پہلے عربوں میں قصاص کے معاملات میں بہت سے ظالمانہ اورناانصافی پر مبنی طریقے رائج تھے ،کسی طاقتور قبیلہ کا کوئی فرد قتل ہوجاتا تو وہ صرف قاتل کے قتل پراکتفا ء نہ کرتے بلکہ اسکے قبیلہ کے دس بیس افراد کو اپنے خون آشام انتقام کی بھینٹ چڑھا دیتے ، کوئی غلام کسی آزاد کو قتل کردیتا تو کمزور قبیلے کے کسی آزاد فرد کوبھی قتل کردیا جاتا، کوئی عورت ارتکاب کرتی تو اس کی جگہ مرد سے انتقام لیاجاتا۔ اسلام نے اس نسلی امتیاز کو ختم کیااورقتل کا بدلہ صرف قاتل سے لینے کاحکم دیا اوریہ بدلہ بھی کسی فرد کا انفرادی عمل نہیں ہوگا بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہوگی، اورضروری نہیں کہ قتل کا بدلہ قتل ہی ہواگر مقتول کے ورثاء ، دیت لے کر صلح کرنا چاہیں تو اس کی بھی اجازت دی گئی ، لیکن دیت کا مطالبہ کرنیوالوں کو بھی تلقین کی گئی کہ وہ بھی صلح وصفائی کے معاملات دستور کیمطابق خوش اسلوبی سے سرانجام دیں، اوراحسن طریقہ سے دیت طلب کریں اوراس میں زیادتی کی کوشش نہ کریں صلح کی رعایت دیتے ہوئے قرآن پاک نے کہا کہ اگر چہ قاتل قصور وار ہے سزاکامستحق ہے لیکن اسکے باوجود تمہارا اسلامی بھائی بھی تو ہے ، اگر بخش دو،معاف کردو تو بڑی بات نہیں ، یہ اسلوب اس لیے اختیار کیا گیا تاکہ معاشرے میں انتقام کی رو، وحشت کارخ اختیار نہ کرے ، قاتل کو بھی کہا تھا کہ دیت کی یہ رعایت محض تمہارے رب کا احسان ہے ،تم بھی اس معاملے میں احسان فراموش نہ بننا، حیلے بہانے  سے اس کام کو تعطل میں نہ ڈالنا بلکہ خوشی خوشی جلدی خون بہا اداکرنا۔قانون قصاص بیان کرنے کے بعد قرآن پاک نے عقل وشعور اوردانش وتدبر رکھنے والوں کو مخاطب کرکے ارشادفرمایا کہ تمہارے لیے قصاص میں زندگی ہے، قرآن کے اس مختصر سے جملہ میں بلاغت اورمعانی کا ایک سمندر موجزن ہے، یہ اس پروردگار کا اعلان ہے جو رحمن ، رحیم اورارحم الراحمین ہے ،اوراپنے بندوں پر ماں سے بھی ستر گنا زیادہ شفیق ہے، انسان اگرشعور کی آنکھ کھول کردیکھے تو انسانیت فلاح اللہ اوراسکے رسول کے پیروی ہی میں ممکن ہے۔
وصیت کے معاملات کی اصلاح:جس طرح زمانہ جاہلیت میں قصاص کے معاملات ظالمانہ تھے اسی طرف وصیت کے اسالیب بھی ظلم وزیادتی پر مبنی تھے، اہل عرب مرتے وقت بعض اوقات اپنے مال کی وصیت  ایسے لوگوں کے نام کرجاتے جن سے ان کادور کا بھی واسطہ نہ ہوتا، اوروہ اپنے گمان کے مطابق اسے بڑا کارنامہ سمجھتے اورسخاوت سے تعبیر کرتے اسی طرح اگر کوئی اچانک فوت ہوجاتا تواسکی وصیت سے بھی کئی جائز وارث محروم رہ جاتے ، اسلام نے وصیت کا ایسا خوبصورت ضابطہ عطاء فرمایا جس سے بہتر نظام ممکن ہی نہیں ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں