پیر، 21 نومبر، 2022

بے جا سوال کرنا


 

بے جا سوال کرنا

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادگرامی ہے ، جو شخص اپنے مال میں اضافہ کرنے کیلئے لوگوں سے سے سوال کرتا ہے وہ (حقیقت میں جہنم کے )انگاروں کا سوال کرتا ہے، خواہ کم سوال کرے یا زیادہ ۔(صحیح مسلم) حضرت قبیصہ بن مخارق ہلالی رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا، تین افراد کے علاوہ اورکسی بھی شخص کیلئے دستِ سوال دراز کرنا جائز نہیں ہے، ایک وہ شخص جو مقروض ہو ، اس کیلئے اتنی مقدار کا سوال کرنا جائز ہے ، جس سے اس کا قرض اداہوجائے اس کے بعد اس کو سوال سے رک جانا چاہیے ، دوسرا وہ شخص جس کا مال کسی ایسے ناگہانی حادثے کا شکار ہوگیاہو، جس کی وجہ سے اس کا مال اسباب تباہ ہوگیا ہو، اس کیلئے اس مقدارکا سوال کرنا جائز ہے جس سے اس کا گزارہ ہوجائے، تیسرا وہ شخص جو فاقہ زدہ ہواوراس کے قبیلہ کے تین سمجھ دار(اور معتبر) افراد شہادت دیں کہ واقعی یہ فاقہ زدہ ہے ، تواس کیلئے بھی اتنی مقدار کا سوال کرنا جائز ہے، جس سے اس کی گزراوقات ہو جائے اوراے قبیصہ ! ان تین اشخاص کے علاوہ باقی کسی اور کیلئے سوال کرنا حرام ہے،اوران افراد کے علاوہ جو فرد بھی سوال کرتا ہے وہ حرام کھاتا ہے۔(صحیح مسلم)

رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ، جس شخص نے سوال کیا جبکہ صورت حال یہ تھی کہ اس کے پاس اتنا مال موجود تھا ، جو اس کو سوال سے مستغنی کرسکتا تھا ، وہ جہنم کے انگارے جمع کرتا ہے ، راوی نے استفسارکیا مال کی کتنی مقدار انسان کے پاس موجود ہوتو اس کو سوال سے گریز کرنا چاہیے؟ آپ نے وضاحت فرمائی جس کے پاس صبح اورشام (دو وقت)کا کھانا ہو، وہ سوال نہ کرے ایک اورروایت میں ہے، جس کے پاس اتنا کھانا ہو کہ وہ ایک دن اورایک رات سیر ہو کر کھاسکے وہ سوال نہ کرے۔(ابودائود)

حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے ، رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشادفرمایا ، مال دار کیلئے صدقہ لینا جائز ہے ، اورنہ صحیح الاعضاء اورطاقتِ (کسب ومحنت)رکھنے والے کیلئے ۔(سنن ابودائود)

اسلام نے اغنیاء کو صدقہ وخیرات کی بڑی ترغیب دی ہے بلکہ عام انسان کو بھی اللہ کے راستے میں خرچ کرنے کی فضیلت سے آشناکیا ہے ، لیکن اسکے ساتھ مسلمان کو غیرت اوروقار کی تعلیم بھی دی ہے ، بے جاء سوال کرنے اورہر کس وناکس کے سامنے ہاتھ پھیلانے  سے انسان کی شخصیت مجروح ہوتی ہے ، لیکن ہم دیکھتے ہیں ہمارے معاشرے میں پیشہ ورانہ گداگری اپنے عروج پر ہے، اورزندگی کے بے شمار شعبے ایسے ہیں جہاں متعین تنخواہ دار لوگ بھی آنے جانے والوں سے بڑی لجاجت سے سوال کرتے ہیں۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں