جمعہ، 27 اگست، 2021

خیر خواہی کی عملی مثال

 

خیر خواہی کی عملی مثال

۵۰
؁ہجری میں حضرت مغیرہ بن شعبہ کوفہ کے گورنر تھے۔ان کا انتقال ہوگیا۔ یہ اندیشہ پیدا ہوا کہ ایک امیر کی عدم موجودگی کی وجہ سے شہر میں انتشار اور بدامنی پیدا ہوجائے گی ۔ایسے میں صحابی رسول حضرت جریر بن عبداللہ آگے بڑھے ، منبر پر کھڑے ہوکر اللہ کی حمد وثنا کی اور لوگوں سے یوںمخاطب ہوئے۔’’ اے لوگو ! اللہ وحدہٗ لاشریک سے ڈرو ، باوقار اور پُر سکون رہو۔ یہاں تک کہ نیا امیر آجائے ،سو وہ آنے ہی والا ہے۔ پھر فرمایا : اپنے اس (مرحوم ) امیر کیلئے عفوودرگذر اور مغفرت کی دعا کرو کیونکہ وہ خود بھی عفوودرگذر کو بہت پسند کرتے تھے ۔ پھرآپ نے اپنے ایمان لانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرمایا : اما بعد! میں رسول اللہ ﷺکی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا اور عرض کیا میں اسلام پر بیعت کرنا چاہتا ہوں، آپ نے اسکے ساتھ ہر مسلمان کے ساتھ خلوص برتنے کی (اور خیر خواہی سے پیش آنے کی) شرط بھی لگا دی ۔چنانچہ میں نے یہ شر ط قبول کی اور بیعت کرلی۔ اس مسجد کے رب کی قسم میں تمھارے لئے قطعی ناصح، مخلص اور خیر خواہ ہوں۔پھر انھوں نے دعائے مغفرت کی اور منبر سے نیچے اُتر آئے۔‘‘ (بخاری) مقصود یہ تھا کہ میری یہ نصیحت کسی لالچ یا حرص پر مبنی نہیں نہ ہی میں اہل اقتدار سے کسی صلہ وستائش کا تمنائی ہوں بلکہ محض یہ چاہتا ہوں کہ مسلم معاشرے میں انتشار ، افتراق اور بدامنی نہ ہو،کیونکہ میں نے جناب رسالت مآب سے یہ وعدہ کیا ہے کہ ہر مسلمان کی خیر خواہی چاہوں گا۔حضرت جریر بن عبداللہ ؓبڑی حسین وجمیل اور دل آویز شخصیت کے مالک تھے۔ جو بھی انکے حسن وجمال کو دیکھتا انگشت بدنداں رہ جاتا۔ لوگ آپ کو ’’یوسف امت‘‘کہا کرتے تھے۔ جب رسول اللہ ﷺ نے آپ سے بیعت اسلام لی تواس میں نماز ،زکوۃ کے ساتھ ساتھ یہ شرط بھی عائد کی کہ حضرت جریر ہر مسلمان کے ساتھ خلوص اور خیر خواہی برتیں گے۔(بخاری)شاید اس میں انکے جمال ظاہری کی وجہ سے ان کی روحانی اور نفسیاتی تربیت کا پہلو تھا۔ بہر حال آپ نے ساری زندگی اس عہد کو نبھایا ۔اپنا نقصان کر لیتے ،لیکن کسی مسلمان کے مفاد پر کوئی آنچ نہ آنے دیتے۔ایک مرتبہ آپ کا غلام ایک نہایت خوبصورت اور قیمتی اصیل عربی گھوڑا تین سودرہم میں خرید لایا۔ یوں محسوس ہوتا تھا کہ اسکے مالک نے کسی مجبوری کی بنا پر اسے اونے پونے داموں فروخت کردیاہے۔ آپ نے گھوڑے کا قد کاٹھ اور خوبصورتی کو دیکھا تو خوش ہونے کی بجائے پر یشان ہوگئے ۔ گھوڑے کے مالک کا پتہ پوچھا ، اس کے گھر تشریف لے گئے اور اسے پانچ سودرہم مزید عطا کیے اور فرمایا : تیرا گھوڑا کسی طرح آٹھ سو درہم سے کم قیمت کانہیں ہے اس لیے میں تیری مجبوری سے فائدہ نہیں اُٹھانا چاہتا۔ کیونکہ یہ جذبہ خیرخواہی کے منافی ہے۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں