جمعرات، 28 مئی، 2020

عبادت، اعترافِ عجز

عبادت، اعترافِ عجز


کتاب اللہ میں لفظ عبادت ’’تکبر‘‘کے متضاد کے طور پر استعمال ہواہے۔ ٭(ملائکہ ) جو اس کے پاس ہیں ،وہ اُ سکی عبادت سے غرور نہیں کرتے ۔(الا نبیائ۔ ۲۰) ٭میری آیتوں پر وہی ایمان لاتے ہیں جن کو ان آیات سے سمجھایا جائے تو وہ سجدہ ریز ہوجاتے ہیں،اور اپنے پروردگار کی تسبیح بیان کرتے ہیں اور غرور نہیں کرتے ۔(السجدہ)٭غرور ،تکبر اور استکبار کے معنی اپنے آپ کو بڑا سمجھنا ،احساس ذات ، خدا کے سامنے سرکشی ، اوراسکی بارگاہِ جلالت میں گردن جھکانے سے عاروانکار کے ہیں۔تو اسکے مقابلے میں عبادت اللہ کے سامنے سرجھکانے اور عاجزی اور بندگی کا اعتراف کرنے اور اسکے احکام کے سامنے اظہار اطاعت کے ہیں ۔ اسی طرح کسی شخص سے بظاہر اچھے کام کا صدور تو لیکن اس اچھے کام سے اس مقصد اظہارِ عبودیت یا اطاعتِ خداوندی نہ ہو تو وہ کام عبادت میں شمار نہیں ہوگا۔ کسی بھی اچھے کام کو عبادت میں شمار ہونے کیلئے اسکی نیت کا خالص اور پاک ہونا بے حد ضروری ہے اور یہی وہ نشانِ امتیاز ہے جو عبادت اور غیر عبادت کے درمیان فرق کرتا ہے۔  ارشاد اتِ خداوندی ملاحظہ فرمائیے۔

٭اس پرہیز گار کو دوزخ سے بچا لیاجائے گا جو اپنا مال دل کی پاکیزگی (حاصل کرنے ) کیلئے دیتا ہے۔ اس پر کسی کا احسان باقی نہیں،جس کا بدلہ اس کو دینا ہو،بلکہ صرف خدائے برتر کی ذات اسکا مقصود ہے۔وہ عنقریب خوش ہوجائیگا۔ (اللیل ۔۱۰) ٭پس خرابی ہے ایسے نمازیوں کیلئے جو اپنی نماز (کی ادائیگی )سے غافل ہیں،وہ جو ریا کاری کرتے ہیں،اور (مانگے بھی)نہیں دیتے روز مرّہ استعمال کی چیزیں۔(الماعون )

’’آنحضرت ﷺنے عبادت کا جو مفہوم دنیا کے سامنے پیش کیا اس میں پہلی چیز دل کی نیت اور اخلاص ہے۔ اس میں کسی خاص کام اور طرزوطریقہ کی تخصیص نہیں ہے، بلکہ انسان کا ہر وہ جائز کام جس سے مقصود خدا کی خوشنودی اور اسکے احکام کی اطاعت ہے۔ وہ ’’عبادت‘‘ ہے۔

اگر تم اپنی شہرت کیلئے کسی کو لاکھوں دے ڈالو،تو وہ عبادت نہیں لیکن خدا کی رضا جو ئی اور اسکے حکم کی بجا آوری کیلئے چند کوڑیا ں بھی کسی کو دو تو یہ بڑی عبادت ہے۔ تعلیم محمد ی کی اس نکتہ رسی نے عبادت کو درحقیقت دل کی پاکیزگی، روح کی صفائی اور عمل کے اخلاص کی غرض وغایت بنادیا ہے اور یہی عبادت سے اسلام کا اصلی مقصود ہے۔‘‘ (سیرت النبی )

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں