عبادت اور تقویٰ
ابتداء سے کرتا ہے کوئی تربیت ورنہ
آدمی اذّیت کے موسموں میں مرجائے
جب ہم اسی کا دیا ہوا کھا رہے ہیں اور اسی کاعطاء کردہ اثاثہ استعمال کررہے ہیں تو پھر زندگی کے ایک ایک لمحے پر اس کا اختیار تسلیم کیوں نہیں کرتے۔ اور اس کی اطاعت کا قلادہ اپنی گردن میں کیوں نہیں ڈالتے؟
بیضاوی علیہ الرحمۃ نے یہ بڑی خوبصورت بات کی ہے۔ فرماتے ہیں اللہ نے اپنی عبادت کاحکم دیا تو اس کی علّت (وجہ)یہ بیان کی کہ وہ تمہارا خالق ہے اس نے تمہیں پیدا کیا ہے۔ گویا ہم اپنی عمر بھر کی عبادت اور اطاعت کا صلہ اسی وقت وصول کرچکے ہیں۔ جب اس نے ہمیں ’’انسان ‘‘بناکر تخلیق کردیا ،جو مزدور اپنا معاوضہ پیشگی وصول کرچکا ہو۔ وہ اپنا کام مکمل کرنے کا پابند ہو جاتا ہے۔ ہم بھی عمر بھر اس کا حکم ماننے کے پابند ہوچکے ہیں۔ تقویٰ قلب کی ایک ایسی کیفیت ہے جس سے برے کاموں سے اجتناب اورنیک کاموں کے انتخاب کا میلان پیدا ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺنے ایک اپنے سینہ مبارک کی طرف اشارہ کرکے فرمایا ۔تقویٰ کی جگہ یہ ہے(مسلم)جملہ عبادات سے مقصود اس کیفیت کاحصول ہے۔نماز،روزہ ،حج ،زکوٰۃتمام کی غرض وغایت لفظ تقویٰ سے بیان کی گئی اور ہر وہ کام جو خدا کی رضاء لیے ہیں چاہے وہ اسکے نام کی تسبیح پڑھنا ہو،جو چاہے اسکی ذات کی عبادت کرنا، چاہے اسکی خاطر اسکی مخلوق کی خدمت کرنا سب اسی منزل کی طرف لے جاتے ہیں۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں