جمالِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم(۱)
حضرت سعید الجریری کا بیان ہے کہ حضرت ابوالطفیل رضی اللہ عنہ نے ان سے ذکر کیا کہ انہوں نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی ہے۔ سعید نے عرض کی کہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کو تم نے کیسا پایا تو انہوں نے جواب دیا’’یعنی آپ کی رنگت سفیدتھی اورسفید بھی ایسی جس میں ملاحت اورخوبصورتی اپنے جوبن پر تھی‘‘۔(سنن ابی دائود) حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ کی تدفین کے بعد حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو ایک پتھر اٹھا کر لانے کا حکم دیا ۔وہ صحابی اس پتھر کو نہ اٹھا سکے،نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خودتشریف لے گئے ، بازوئوں سے کپڑا پیچھے کیا اور پتھر کوخود اٹھالائے ، جس صحابی نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اس عمل کو روایت کیا، اس کے الفاظ یہ ہیں :’’گویا میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بازوئوں کی سفیدی کو اب بھی دیکھ رہا ہوں‘‘۔ (سنن ابی دائود )حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام نے منبر پر خطبہ ارشادفرماتے ہوئے ہاتھوں کو بلند کیا، ایک صحابی نے اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’پھر آپ نے اپنے ہاتھ بلند کیے حتیٰ کہ ہم نے آپ کی بغلوں کی سفیدی کا مشاہدہ کیا‘‘۔(سنن ابی دائود)حضرت سعد رضی اللہ عنہ ، نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کو نماز پڑھتے ہوئے دیکھتے ،آپ کے دائیں بائیں سلام پھیرنے کی کیفیت کو وہ ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں: ’’میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو دائیں بائیں سلام پھیرتے ہوئے دیکھتا حتی کہ مجھے آپ کے رخ انور کی سفیدی نظر آتی‘‘۔(صحیح مسلم) حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے بھی آپ کے سلام پھیر نے کی کیفیت کو اسی سے ملتے جلتے الفاظ میں بیان کیا ہے ، فرماتے ہیں :’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم دائیں جانب سلام پھیرتے حتیٰ کہ آپ کے رخساروں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی اور آپ بائیں جانب سلام پھیرتے حتیٰ کہ آپ کے رخساروں کی سفیدی ظاہر ہوجاتی ‘‘۔(سنن النسائی)حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے حلیہ مبارک بیان کررہے تھے کہ ایک صحابی نے عرض کیا:’’ آپ کا رخ انور تلوار کی طرح چمک دار تھا‘‘۔حضرت جابر بن سمر ہ رضی اللہ عنہ نے فوراً ان سے اختلاف کیااور فرمایا: ’’نہیں بلکہ آپ کا رخ انور شمس وقمر کی طرح روشن تھا‘‘۔ (صحیح مسلم)حضرت ابوہریرہ ؓ، حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے جمال جہاں آراکا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: ’’میں نے حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام سے حسین ترکوئی چہر ہ نہیں دیکھا۔ یوں محسوس ہوتا تھا گویا سورج آپکے رخ انور میں رواں دواں ہے‘‘۔(جامع ترمذی)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں