معاف کرنے کی عادت
اللہ تعالیٰ کا ارشادہے : ’’اورجب وہ غضب ناک ہوں تو معاف کردیتے ہیں ، اوربرائی کا بدلہ اس کی مثل برائی ہے ، پھر جس نے معاف کردیا اوراصلاح کرلی تو اس کا اجر اللہ (کے ذمہء کرم )پر ہے‘‘۔(الشوریٰ:۴۰)’’اورجس نے صبر کیا اور معاف کردیا تو یقینا یہ ضرور ہمت کے کاموں میں سے ہے‘‘۔(الشوریٰ : ۴۳)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بے حیائی کی باتیں طبعاً کرتے تھے نہ تکلفاً اورنہ بازار میں بلند آواز سے باتیں کرتے تھے ، اوربرائی کا جواب برائی سے نہیں دیتے تھے لیکن معاف کردیتے تھے اور درگذر فرماتے تھے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جو زیادتی بھی کی گئی میں نے کبھی آپ کو اس زیادتی کا بدلہ لیتے ہوئے نہیں دیکھا بہ شرطیکہ اللہ کی حدود نہ پامال کی جائیں اورجب اللہ کی حد پامال کی جاتی تو آپ اس پر سب سے زیادہ غضب فرماتے، اورآپ کو جب بھی دوچیزوں کا اختیار دیاگیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو۔(جامع الترمذی)
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ جب بھی حضور الصلوٰۃ والسلام کو دوچیزوں کا اختیار دیا گیا تو آپ ان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بہ شرطیکہ وہ گناہ نہ ہو، اگر وہ گناہ ہوتی تو آپ سب سے زیادہ اس سے دور رہتے ، رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی اپنی ذات کا انتقام نہیں لیا، ہاں اگر اللہ کی حد پامال کی جاتیں تو آپ ان کا انتقام لیتے تھے۔ (سنن ابودائود)
میمون بن مہران روایت کرتے ہیں کہ ایک دن ان کی باندی ایک پیالہ لے کر آئی جس میں گرم گرم سالن تھا ، ان کے پاس اس وقت مہمان بیٹھے ہوئے تھے، وہ باندی لڑکھڑائی اوران پر وہ شوربا گرگیا، میمون نے اس باندی کو مارنے کا ارادہ کیا، تو باندی نے کہا اے میرے آقا، اللہ تعالیٰ کے اس قول پر عمل کیجئے ، والکاظمین الغیظ ، میمون نے کہا:میں نے اس پر عمل کرلیا (غصہ ضبط کرلیا)اس نے کہا :اس کے بعد کی آیت پر عمل کیجئے والعافین عن الناس میمون نے کہا :میں نے تمہیں معاف کردیا، باندی نے اس پر اس حصہ کی تلاوت کی: واللّٰہ یحب المحسنین میمون نے کہا :میں تمہارے ساتھ نیک سلوک کرتا ہوں اورتم کو آزاد کردیتا ہوں۔(الجامع الاحکام :تبیان القرآن)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں