سادہ لوح دیہاتیوں سے محبت
دیہا ت میں رہنے والے افراد اکثر اوقات سادہ مزاج اور سادہ لوح ہوتے ہیں۔ انھیں شہر کے تمدن ، آداب روایات کازیادہ ادراک نہیں ہوتا۔ اکثر اوقات وہ اپنی سادہ لوحی کی وجہ سے شہریوں کے مذاق بلکہ طنزوتمسخر کا نشانہ بھی بنتے ہیں۔ لیکن حضور رحمت عالم صلی اللہ علیہ وسلم دیہات سے آنے والے ان بادیہ نشینوں کے لیے سراپا رحمت اورسراپا شفقت تھے۔ انھیں بڑی بشاشت اورکشادہ روئی سے ملتے، بڑی خندہ پیشانی سے ان کا استقبال کرتے، تحمل سے ان کی بات سنتے اورمسکراتے ہوئے بڑی وضاحت سے انکا جواب مرحمت فرماتے تھے۔ یہی وجہ ہے صحرانشین بھی آپ سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔
حضرت انس بن مالک روایت کرتے ہیں کہ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک صحابی زاہر بن حرام الاشجی تھے ،جو ایک صحرا میں قیام پذیر تھے۔ ان کا معمول تھا کہ جب بھی بارگاہ رسالت میں حاضری کے لئے آتے ،اپنے ہمراہ صحرا کی عمدہ سبزیاں اور لذیذ پھل لے کرآتے اورآپ کی خدمت میں ہدیہ خلوص پیش کرتے ۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جو اب میں انھیں شہر کی مرغوب اورقیمتی اشیاء بطور تحفہ عنایت فرماتے ۔ حضور بڑی خوش طبعی سے فرمایا کرتے تھے کہ زاہر ہمارا صحرا ہے اورہم اس کے شہر ہیں۔ حضور زاہر سے اورزاہر حضور سے بڑی محبت کیا کرتے تھے۔ ایک روز حضور بازار تشریف لے گئے۔ دیکھا کہ زاہر اپنا سامان فروخت کررہے ہیں،حضور ان کی پشت کی طرف سے آئے،ان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور خوب بھینچا۔زاہر نے مشام جاں کی خوشبو سے پہچان لیا کہ یہ اللہ کے محبوب ہیں۔ فرماتے ہیں کہ میں حصولِ برکت کے لیے اپنی پشت کو دیر تک آپ کے صدرمبارک سے مس کرتا رہا۔ (ترمذی)دوسری روایت میں ہے کہ حضور نے انھیں عقب سے اپنے بازوئوں میں کس لیا، اس نے کہا مجھے چھوڑ دوتم کون ہو، پھر توجہ ہوئی کہ یہ تو اس کے آقاء ہیں، جو اس پر لطف وکرم فرمارہے ہیں۔ یہ ادراک ہونے کے بعد وہ بڑی دیر تک آپ کے مبارک لمس سے شاد کام ہوتے رہے ۔آپ نے ان کے ساتھ خوش طبعی فرماتے ہوئے کہا :ہے کوئی جو اس غلام کو خرید لے؟زاہر نے عرض کیا حضور اگر آپ مجھے فروخت کریں گے تو مجھے کھوٹا پائیں گے ۔ قدرشنا س رسول نے ارشاد فرمایا :نہیں تم کھوٹے نہیں ہو بلکہ اللہ کی بارگاہ میں بڑے گراں قیمت ہو۔(السیرۃ النبویہ)
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں