سیّد جیلان کی مجلس وعظ
حضرت سیّدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ نے جن حالات میں عوام وخواص کی تربیت کا آغاز کیا ان حالات کے بارے میں تاریخ دعوت وعزیمت کے مصنف رقم طراز ہیں۔مسلمانوں کی بڑی تعداد علمی شبہات کی بجائے عام اخلاقی کمزوریوں ،عملی کوتاہیوں اور غفلت وجہالت کاشکار تھی۔اور اس کا جلد مداوا ضروری تھا،اس لیے فوری طور پر ایک سحر بیان خطیب اور ایک ایسی بلند روحانی شخصیت کی ضرورت تھی جس کا عوام سے زیادہ رابطہ ہو۔اور جو اپنی دعوت ،مواعظ ،تزکیہ واصلاح سے جمہور اہل اسلام میں دینی روح اور نئی ایمانی زندگی پیدا کردے، مطلق العنان حکومت نے چارسو برسوں تک مسلمانوں کے اخلاق کو متاثر کیا تھا اور بڑی تعداد میں ایک ایسا طبقہ پید اہوگیا تھا جس کا مقصد زندگی حصولِ دولت یا جاہ وعزت تھا ۔ جو اگرچہ اعتقادی طور پر خدا اور آخرت کامنکر نہ تھا مگر عملاً خدا فراموش ،آخرت سے غافل اور عیش میں مست تھا ۔ عجمی تہذیب و معاشرت نے اسلامی زندگی میں اپنے پنجے گاڑھ رکھے تھے۔ا ور عمجی عادات اور جاہلی رسوم جزوزندگی بن گئی تھیں ۔زندگی کا معیار بہت بلند ہوگیا تھا۔ حکام رس ،مزاج شناس موقع پر ست لوگوں کی ایک مستقل قوم پیدا ہوگئی تھی۔ متوسط طبقہ امراء کے نقشِ قدم پر تھا۔ اور عوام اور محنت کش انکے اخلاق وعادات سے متاثر ہورہے تھے۔ اہل دولت ایثار و ہمدردی ،اور جذبہء شکر سے خالی اور تنگ حال اور محنت کش ،صبر وقناعت اور یقین وخود داری سے محروم ہوتے جارہے تھے۔ اس طرح زندگی ایک بحرانی کیفیت میں مبتلا تھی اس وقت ایک ایسی دعوت کی ضرورت تھی جو دنیا طلبی کے بحران کو کم کرے ،ایمان کو بیدار کرے اور آخرت کے یقین کو ابھارے ،خداطلبی کا ذوق پیدا کرے۔اللہ تعالیٰ کی سچی معرفت ،اسکی بندگی اور رضا مندی میں عالی ہمتی اور بلند حوصلگی سے کام لے، توحید کامل کو واشگاف بیان کیا جائے۔اہل دنیا اور اربابِ دولت کی بے وقعتی اور اسباب کی کمزوری کو طاقت اور وضاحت سے بیان کیا جائے۔جناب شیخ نے وعظ واصلاح کی مجلس آراستہ کی جو جلد ہی پر ہجوم اجتماع میں تبدیل ہوگئی۔ایک ایک وعظ میں سترستر ہزار افراد شریک ہوئے۔ چا ر چار سو دواتوں کا شمار کیا گیا۔ جن کے ذریعے لوگ آپکے ارشادات عالیہ قلم بند کرتے، لاکھوں مردہ دلوں کی مسیحائی ہوئی۔پانچ ہزار سے زیادہ غیر مسلموں نے ان مجالس سے متاثر ہوکر ایمان قبول کیا، ایک لاکھ سے زیادہ جرائم پیشہ حضرات اپنے گناہوں سے تائب ہوئے۔ بغدادکی آبادی کا بڑا حصہ آپ کے ہاتھ پر توبہ سے مشرف ہوا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں