خلقِ رسالت
حضرت جابر رضی اللہ عنہ ایک واقعہ کی روداد بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : میں ایک غزوہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا۔ غزوہ کے اختتام پر میں اپنے اونٹ پر سوار ہوا۔ میں نے محسو س کیا کہ یہ بہت زیادہ تھک چکا ہے اور چند قدم بھی چلنے کے قابل نہیں ہے۔ جناب رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی یہ بات محسوس کی، آپ میرے قریب تشریف لائے اور مجھ سے استفسار فرمایا تمہارے اونٹ کو کیا ہوا؟میں نے عرض کیا کہ یہ تھک گیا ہے ۔ یہ سن کر آپ قدرے پیچھے ہٹے اور میرے اونٹ کو ڈانٹا اور پھر اس کیلئے دعا فرمائی ۔اس اونٹ کے رگ و پے میں ایک توانا ئی سی دوڑ گئی۔ اور بہت چستی اور طاقت سے چلنے لگا بلکہ ’’ دوسرے تمام اونٹوں سے آگے آگے چلنے لگا۔ اثنائے راہ آپ نے مجھ سے دریافت فرمایا: اب تمہارے اونٹ کا کیا حال ہے۔ میں نے عرض کیا ، یارسول اللہ بہت ہی اچھا ، اور یہ یقیناً آپکی دعا اور برکت کا اثر ہے کہ اس میں اتنی طاقت و توانائی آگئی ہے۔ آپ نے ارشافرمایا : تم اسے میر ے ہاتھ فروخت کردو میں نے عرض کیا جو آپکی منشائ، اسے آپ خرید لیجئے ۔لیکن ازراہِ کرم مجھے اس پر مدینہ منورہ تک سوار رہنے دیجئے اور یہ بھی کہ مجھے دوسروں سے ذرا پہلے جا نے کی اجازت مرحمت فرمادیجئے ۔کیونکہ ابھی حال ہی میں میری شادی ہوئی ہے ۔ چنانچہ آپ نے میری دونوں درخواستیں قبول فرمالیں اور مجھے اجازت عطا فرمادی ۔میں دوسرے لوگوںسے پہلے مدینہ منورہ پہنچ گیا ۔ مدینہ پہنچ کر میری ملاقا ت میر ے ماموں سے ہوئی ۔ انھوں نے مجھ سے اونٹ کے بارے میں سوال کیا ،میں نے ساری روداد ان کے گوش گزار کردی ۔اور انھیں اس بات سے بھی مطلع کر دیا کہ میں نے یہ اونٹ جناب رسالت مآب ﷺکے ہاتھ فروخت کردیا ہے ۔ انھوں نے مجھے بڑی ملامت کی اور کہا کہ ہمارے پاس ایک ہی اونٹ تھا۔ تو نے وہ بھی فروخت کردیا ۔اب ہم سواری اور بار برداری کیلئے کیا انتظام کر ینگے۔ جب رسول اللہ ﷺمدینہ منورہ تشریف لائے۔ تو میں صبح کے وقت وہ اونٹ لے کر آپ کی خدمتِ عالیہ میں حاضر ہوا۔ آپ نے مجھے اس اونٹ کی قیمت ادا فرمادی۔ جب میں نے وہ قیمت وصول کر لی تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ اونٹ بھی مجھے واپس فرمادیا۔ (گویا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصود ہی انکی اعانت اور دستگیر ی تھا) ۔(بخای)
وہ ؐ ابرِ کرم ہیں تو برستے ہی رہیں گے
تبدیل کسی طور بھی فطرت نہیں ہوتی
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں