اتوار، 17 جنوری، 2021

ایک روحانی انقلاب

 

ایک روحانی انقلاب

حضرت بابافرید الدین گنج شکر کے حسن تربیت سے بہرہ ور ہونے کے بعد خواجہ نظام الدین اولیاء دلی میں فروکش ہوئے ،دلی کی فضا میں انکی تعلیم وتربیت سے کیسا خوش گوار انقلاب آگیا۔اسکی ایک جھلک اس دور کے نامور مؤرخ ضیاء الدین برنی کے بیان سے مشاہدہ کی جاسکتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ :۔’’شیخ الاسلام حضرت خواجہ نظام الدین اولیاء نے اصلاح عوام وخواص اوربیعت عام کا دروازہ کھول رکھا تھا۔ گناہ گار لوگ ان کے سامنے گناہوں کا اقبال کرتے،توبہ کرتے ۔شیخ ان کو اپنے حلقہ ارادت میں شامل کرلیتے ۔خواص وعوام ، مفلس ،امیر ،فقیر عالم جاہل شریف ،رذیل ،شہر ی دیہاتی ،غازی ،مجاہد، غلام شیخ سب سے توبہ کراتے ، طاقیہ (ٹوپی)عطاء فرماتے صفائی کیلئے مسواک دیتے۔ ان لوگوں میں سے کثیر تعداد بہت سے ایسے کاموں سے پرہیز کرنے لگی تھی،جو نامناسب تھے۔ شیخ کی خانقاہ میں حاضر ہونے والوں میں سے اگر کسی سے کوئی لغزش ہوجاتی تو اس کو بیعت کی تجدید کرنے پڑتی۔شیخ اس سے ازسرنو اقبال گناہ کرواتے اورتوبہ کراتے‘‘۔
آپکے حلقہ تربیت میں شامل ہونے کی وجہ سے بہت سے لوگ ظاہری اورباطنی گناہوں سے باز رہتے عام لوگ اپنے اعتقاد کی وجہ سے یا دوسروں کی اتباع میں عبادت اوربندگی کی طرف راغب ہوچکے تھے۔ مرد، عورتیں ،بوڑھے ،جوان سوداگر ،عام لوگ ،غلام نوکر کم عمر بچے سب نمازی ہوگئے تھے۔ آپ کے ارادت مندوں کی اکثریت نماز چاشت اوراشراق کی پابندہوگئی تھی۔مخیر حضرات نے دلی شہر سے قصبہ غیاث پور (جہاں شیخ کا قیام تھا)جا بجا لکڑیوں کے چبوترے بنوادیے تھے، چھپر ڈالوادئیے تھے۔کنویں کھدوادیے تھے،یہاں مٹکے ،کھڑے اور لوٹے رکھے رہتے تھے۔ چھپروں میں بوریے بچھے رہتے ۔چبوتروں اورچھروں میں حفاظ اورخدام مقر ر تھے۔ یہ سب اس لیے تھا کہ شیخ کے مرید، تائبوں اوردوسرے نیک لوگوں کو شیخ کے آستانے پر جاتے اورآتے ،وقت پر وضو کرنے اور بروقت نماز ادا کرنے میں کوئی دقت نہ ہو۔ ان چبوتروں اورچھپروں میں نفل پڑھنے والوں کا ہجوم رہتا۔گناہوں کے ارتکاب اورانکے متعلق کوئی بات چیت نہیں ہوتی تھی بلکہ اکثر وبیشتر جو گفتگو ہوتی ،وہ چاشت اوراشراق کی نماز وں کے بارے میں ہوتی۔ لوگ یہی دریافت کرتے رہتے کہ زوال،اوابین اورتہجد کی نمازوں میں کتنی رکعتیں پڑھی جاتی ہیں ۔ہر رکعت میں قرآن مجید کی کون سی سورت پڑھنی چاہیے۔پانچوں وقت نمازوں میں نفلوں کے بعد کون سی دعائیں ہیں ۔(تاریخ فیروز شاہی بحوالہ دبستانِ نظام)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں