جمعہ، 25 اگست، 2023

دعوت دین (۱)


 

دعوت دین (۱)

اللہ تعالی نے انسانی فطرت میں نیکی اور بدی کی پہچان اور نیکی اختیار کرنے اور بدی سے بچنے کی خواہش ودیعت فرما دی ہے۔ اس اعتبار سے انسان ایک اعلی خلقت اور ایک بلند فطرت لے کر دنیا میں آیا ہے۔ انسان اس بات کا اہل ہے کہ اپنی سمجھ بوجھ سے نیکی کو قبول اور بدی کو رد کر کے اللہ تعالی کے ہاں انعام کا،  اور خیر کی جگہ شر کا راستہ اختیار کر کے اپنے اس خلاف فطرت کام پر سزا کا مستوجب قرار پائے۔ لیکن اگر ایک طرف انسان میں یہ پہلو خوبی اور کمال کا ہے تو بعض اعتبارات سے خلا اور نقص بھی ہے۔ اس وجہ سے اللہ تعالی نے نہ دنیا میں انسان کی ہدایت و ضلالت کے معاملہ کو تنہا اس کی فطرت پر چھوڑا ہے ، نہ صرف آخرت میں اس کو جزا اور سزا دینے کے لیے اس کی فطری رہنمائی کو کافی قرار دیا ہے۔ بلکہ فطرت کے تقاضوں کے مطابق اس کی مخفی قابلیتوں کو آشکار کرنے اور خلق پر اپنی حجت تمام کرنے کے لیے اللہ نے اپنے نبیوں اور رسولوں کو بھیجا تا کہ لوگوں کو دین کی دعوت دیں اور قیامت کے دن لوگ یہ عذر پیش نہ کر سکیں کہ ان کو نیکی اور سچائی کا راستہ بتانے والا کوئی نہیں تھا۔ اس وجہ سے وہ گمراہی کی راہوں میں بھٹکتے رہے۔ 
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالی ہے۔"رسول جو خوشخبری دینے والے اور ڈر سنانے والے تھے ( اس لیے بھیجے گئے ) تا کہ (ان) پیغمبروں (کے آ جانے) کے بعد لوگوں کے لیے اللہ پر کوئی عذر باقی نہ رہے ، اور اللہ بڑا غالب حکمت والا ہے ‘‘۔(سورۃ النسائ) ایک اور جگہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :
’’ اے اہل کتاب ! بیشک تمہارے پاس ہمارے رسول ﷺ پیغمبروں کی آمد (کے سلسلے ) کے منقطع ہونے (کے موقع) پر تشریف لائے ہیں۔ جو تمہارے لیے (ہمارے احکام )خوب واضح کرتے ہیں ، (اس لیے) کہ تم کہہ دو گے کہ ہمارے پاس نہ کوئی خوشخبری سنانے والا آیا ہے اور نہ ہی ڈر سنانے والا۔ بلا شبہ تمہارے پاس خوشخبری سنانے والا اور ڈرسنانے والا آگیا ہے ، اور اللہ ہر چیز پر بڑا قادر ہے ‘‘۔ (سورۃ المائدہ)
 اللہ تعالی نے ہر قوم کی ہدایت کے لیے رسول اور انبیاء بھیجے تا کہ لوگوں پر حق کو اچھی طرح واضح کر دیں اور کوئی عذر باقی نہ رہے۔ انبیاء کرام نے اپنی ذمہ داریوں میں سے جس ذمہ داری پر سب سے زیادہ زور دیا وہ دعوت کی ذمہ داری تھی۔ یہ دعوت انفرادی بھی ہے اور معاشرتی بھی ، قومی بھی اور بین الاقوامی بھی ہے۔ اصلاح معاشرہ اور ریاست کا آغاز فرد سے ہوتا ہے اس لیے دعوت دین کا پہلا ہدف بھی فرد ہے۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں