جمعہ، 7 مئی، 2021

روزہ اورتربیت

 

روزہ اورتربیت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے حضور اکرم ﷺ سے روایت کیا کہ : ’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ابن آدم نے روزے کے سواہر عمل اپنے لیے کیا ہے مگر روزہ ۔کیونکہ وہ یقینامیرے لیے ہی ہے اسکی جزا میں ہی دوں گا اورروزہ ڈھا ل ہے جب تم میں سے کوئی شخص روزہ دار ہوتو وہ بے ہودہ گوئی اورفحش گوئی سے اجتناب کرے اگرکوئی شخص اسے گالی دے یا اس سے جھگڑا کرے تو وہ کہہ دے میں روزہ دار ہوں اس ذات کی قسم جس کے قبضہ قدرت میں محمد (ﷺ ) کی جان ہے روزہ دار کے منہ کی بو اللہ تعالیٰ کے نزدیک قیامت کے دن مشک کی خوشبو سے زیادہ خوشبو دار ہوگی۔ روزہ دارکو دوخوشیاں حاصل ہوں گی جن سے وہ خوش ہوگاجب وہ روزہ افطار کرتا ہے تو افطار سے خوش ہوتا ہے اورجب وہ اپنے رب سے ملاقات کریگا تو روزے سے خوش ہوگا۔‘‘(صحیح مسلم)روزہ ، تربیت اخلاق کا وسیلہ ہے ، اس میں بعض حلال اشیاء سے اور بعض جائز اعمال سے رکنے کی شعوری مشق کرائی جاتی ہے ، ایک ماہ کے مسلسل عمل سے انسان اس قابل ہوجاتا ہے کہ وہ خود محسوس کرنے لگے کہ جب جائز خواہشات واشیاء سے رکنے کا کہاگیا ہے اوراس نے اس ممانعت کو اپنا لیا ہے تو پھر وہ ان خواہشات واشیاء کو کیوں کر اپنائے گا جن سے ہمیشہ کیلئے رکنے کا حکم دیا گیا ہے ، وہ سوچتا ہے کہ حکم دینے والی ذات تو ایک ہے کبھی اورکسی وقت اس کا حکم مان لیا جائے اور کبھی انکار کردیا جائے، یہ کیسی بے ترتیبی ہے، وہ خالق ومالک ہے اورہر وقت ہر جگہ اورہر آن ہے تو اسکے احکام کو جزوی طور پر ماننا کیسے مناسب ہے؟سچی بات یہ ہے کہ جب حکم کی عظمت دل پر نقش ہوجاتی ہے تو خواہشات کیسی شدید بھی ہوں، اطاعت پسندی اور نیک نفسی کے مضبوط حصار کو نہیں توڑ سکتیں ، بدی کی پسپائی کا عمل جو روزہ سے شروع ہوتا ہے آہستہ آہستہ انسانی طبیعت کا مستقل عمل بن جاتا ہے، اس سے باطنی استحکام ہی نہیں ظاہری استقامت بھی پیدا ہوجاتی ہے ، پھر زندگی میں متانت ، جذبوں میں ٹھہرائو اوراعمال میں نظم پیدا ہوتا ہے، روزہ دراصل تربیت کردار کا سالانہ ریفریشر کورس ہے جس سے بے راہ روی کی گرد دھل جاتی ہے، جسم پاک وتوانا اور روح تابندہ وبیدار ہو جاتی ہے۔ روزہ کا جوہر داخلی انقیاد ہے، اس سے اطاعت کے جذبوں کو فروغ ملتا ہے اور خالق پر اعتماد کا عملی اظہار ہوتاہے۔ یہ ایمان باللہ کی نمایاں ترصورت ہے، بے پناہ اعتماد ، بھر پور یقین اورکامل ایمانی رویے روزے کے مظاہر ہیں، روزہ دار اپنے خالق سے وفاشعاری اورپر خلوص بندگی کا عہد باندھتا ہے، ایسا عہد جس میں پورے وجود کی شرکت ہوتی ہے، یہ ہمہ گیر تو انائیوں کو سلیقہ مندی کے ساتھ بروئے کار لاکر عبدیت کا اعلان ہے۔ یہ عہد کی عملی پاسداری ہے جو ہر سال تجدید عہد کے اجلے پن سے مضبوط ہوتی ہے۔(عقائد وارکان)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں