جمعرات، 27 مئی، 2021

اللہ کی عدالت

 

اللہ کی عدالت

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے میں نے آنحضرت ﷺ کویہ فرماتے سنا کہ قیامت کے دن سب سے پہلے ایک ایسے شخص کیخلاف فیصلہ سنایا جائیگا ، جس نے شہادت پائی ہوگی ، اسے اللہ تبارک وتعالیٰ کی بارگاہ میں حاضرکیاجائیگا ۔ خدا اسے اپنی تمام نعمتیں یاد دلائے گا ۔ وہ انہیں تسلیم کریگا ۔ تب اللہ تعالیٰ پوچھے گا کہ تونے میری نعمت کے بدلے کیا کام کیا ؟ وہ عرض کریگا میں نے تیری خوشنودی کی خاطر جہاد کیا ، یہاں تک اپنی جان قربان کردی ۔ خدا اس سے کہے گا تو نے یہ بات غلط کہی کہ میری خاطر جنگ کی ، تونے صرف اس لیے لڑائی میں حصہ لیاکہ لوگ تجھے بہادر اورشجاع تسلیم کرلیں ۔ سو دنیامیں تجھے اس کاصلہ مل گیا ۔ پھر حکم ہو گا اس (نامراد ) کو منہ کے بل گھسیٹے لے جائو اور جہنم میں ڈال دو ۔ پھر ایک اورشخص کوخدا کی عدالت میں پیش کیاجائیگا جو دین کا عالم ومتعلم ہوگا ۔ خدا اسے اپنے انعامات یاد دلائے گا ۔ وہ انہیں تسلیم کریگا ۔ تب اس سے کہے گا ان نعمتوں کویاد کرکے تونے کیاعمل کیے ۔وہ عرض کریگا اے پروردگار ، میں نے تیری خاطر دین سیکھا اورتیری خاطر دوسروں کواسکی تعلیم دی اور تیری خاطر درس قرآن دیااللہ فرمائے گا تم نے جھوٹ کہا تم نے تو اس لیے علم سیکھاتھاکہ لوگ تمہیں عالم کہیں اور قرآن مجید کادرس محض اس لیے دیتے رہے کہ یہ قرآن کاقاری ہے (اوراسکے رموز سے آشنا ہے ) سو تمہیں دنیامیں اس کا صلہ مل گیا ۔ پھر حکم ہوگا کہ اسے چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو جہنم میں پھینک دو ۔ تیسرا آدمی وہ ہوگا جسے اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مال ومنال اور آسودگی سے شاد کام کیاہوگا ۔
 ایسے شخص کو بارگاہ ربوبیت میں پیش کیا جائیگا ۔ اللہ اسے اپنی عطا کردہ نعمتوں سے مطلع کریگا وہ اقرار کریگا کہ یہ سب نعمتیں اسے دی گئیں ۔ تب اس سے سوال ہو گا کہ تو نے ان نعمتوں کا کیاکیا ۔ وہ جواب میں کہے گا ۔ وہ تمام راستے جن پر خرچ کرنا تجھے پسند تھامیں نے ان سب راستوں پر تیری خوشنودی کی خاطرخرچ کرنا (کبھی ) ترک نہیں کیا اللہ تعالیٰ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا ، یہ سارا مال تونے اس لیے لٹادیا کہ لوگ سخی کہیں سو تجھے دنیامیں یہ لقب مل گیا ( اب آخرت میں تیرا کوئی حصہ نہیں ) پھرحکم ہوگا کہ اسے ( بھی)چہرے کے بل گھسیٹتے ہوئے لے جائو اور آگ میں ڈال دو سو اسے بھی جہنم رسید کردیا جائیگا (مسلم شریف) ۔ بیان کردہ روایات اسلامی ماحول اور معاشرے میں حسن نیت اور اخلاص کی فضاء پیدا کرنے کی تلقین کرتی ہیں بلکہ اس امر کا تقاضا کرتی ہیں کہ مومن جہاں بھی ہواسکے ہر کام کی غرض محض اورمحض اللہ کی رضاء کا حصول ہوناچاہیے ۔ دنیاکی شہرت ، نیک نامی ، صلہ و ستائش عارضی اورفانی چیزیں ہیں جن کی بازار ِ آخرت میں کوئی قدروقیمت نہیں ۔ 

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں