جمعہ، 28 مئی، 2021

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا (۱)

 

ام المومنین حضرت حفصہ رضی اللہ عنہا (۱)

جن عالی مرتبت ہستیوں کو نبی محتشم صلی اللہ علیہ وسلم کی رفاقت وزوجیت کا شرف حاصل ہوا اوروہ ام المومنین کہلائیں، ان میں حضرت سیدہ حفصہ بنت عمر رضی اللہ عنہا بھی شامل ہیں۔ آپکا سلسلہ نسب اس طرح ہے ، حفصہ بنت عمر بن خطاب بن نفیل بن عبدالعزی بن رباع بن عبداللہ بن قرط بن زراع بن کعب بن لوی، آپکی والدہ ماجدہ کا اسم گرامی زینب بنت مظعون ہے جو خود بھی بہت عظیم المرتبت صحابیہ ہیں،نامور صحابی حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ ، آپکی والدہ کے حقیقی بھائی ہیں ۔وہ اپنے زہدء ورع اورتقویٰ پارسائی کے حوالے سے ایک نمایاں مقام کے حامل ہیں اور پہلے صحابی ہیں جو جنت البقیع میں مدفون ہوئے ، نبی کریم ﷺانکے فراق میں بہت آزردہ رہے ۔آپکا تولّد بعثت نبوی سے پانچ سال قبل ہوا، سن شباب میں پہنچنے سے پہلے ہی حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کے حوالے سے آپ بھی اسلام کے نورء تجلی سے بہرہ ور ہوگئیں۔آپکا پہلا نکاح حضرت خنیس بن خذافہ رضی اللہ عنہ سے ہوا، حضرت خنیس ؓاسلام کی خاطر شدت وصعوبت برداشت کرنیوالے ، صاحبانِ عزم واستقامت میں سے ایک ہیں، انھیں ہجرت حبشہ کی سعادت حاصل ہوئی اوروہ حضور اکرم ﷺکے دیگر صحابہ کرام کی طرح ہجرت مدینہ سے بھی شرف یاب ہوئے ، عزوہ بدر میں معرکہ آزما ہوئے اوربڑھ چڑھ کر راہ شجاعت دی،بے خوف وخطر دشمنوںپر حملہ آور ہوتے رہے ، انکے بدن پر بہت سے زخم آگئے ، غز وہ بدر سے واپس تو لوٹے ،لیکن انھیں زخموں کی وجہ سے شہادت سے سرخرو ہوگئے ۔انکے وصال کے بعد جب حضرت حفصہ ؓکی عدت گزرگئی توحضرت عمر ؓ  کو انکے نکاح کی فکر وامن گیر ہوئی ، حضور اکرم ﷺکی لخت جگر حضرت رقیہ ؓ  بھی غزوہ بدر کے ایام میں دنیا سے رحلت فرماگئیں تھیں ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان غنی ؓسے اس خواہش کا اظہار کیا کہ آپ حضرت حفصہؓ سے نکاح کرلیں انھوں نے جواب دینے میں تامل کیا اورغوروفکر کا وعدہ کیا، پھر کچھ دنوں کے بعد معذرت کرلی ، حضرت عمر ؓنے حضرت ابوبکر صدیق ؓکی خدمت میں یہی تجویز پیش کی، لیکن انھوں نے سکوت اختیار کیا، حضرت عمر نے رنجیدہ خاطر ہوکر اپنے دوستوں کا معاملہ حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کی خدمت میں پیش کیا توآپ نے فرمایا: حفصہ کا نکاح اس شخص سے ہوگا جو عثمان سے بہتر ہے اورعثمان کا نکاح اس ہستی سے ہوگا جو حفصہ سے بہتر ہے ۔یوں اللہ کے حکم سے آپ مومنوں کی ماں بن گئیں ، حضرت صدیق اکبر نے کچھ عرصہ بعد اپنے سکوت کی بھی وضاحت کردی کہ میں حضور علیہ الصلوٰۃ والسلام کے فیصلے سے مطلع تھا لیکن میں نے آپ کا راز افشاء کرنا مناسب نہ سمجھا ۔(بخاری)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں