پیر، 15 فروری، 2021

توبہ کیا ہے؟

 

توبہ کیا ہے؟

امام غزالی ؒرقم طراز ہیں : جاننا چاہیے کہ توبہ کی ابتداء اس طرح ہوتی ہے کہ دل میں معرفت اور شناسائی کا ایک نور پیدا ہوتا ہے اوراس نور کی روشنی میں انسان کو یہ دکھائی دیتا ہے کہ گناہ ایک زہر قتل ہے جو اس کے رگ وپے میں سرایت کرچکا ہے اورجب اسے یہ ادراک ہوتا ہے کہ اس نے تو یہ زہر بہت ہی بڑی مقدار میں کھا لیا ہے اوراب ہلاکت اورتباہی سامنے دکھائی دے رہی ہے تو یقینا خوف وندامت اس پر غالب آجاتی ہے جس طرح زہر کھانے والا انسان پشیمانی اورخوف کی حالت میں حلق میں انگلی ڈال کر خوراک کو باہر نکالنے کی کوشش کرتا ہے تاکہ قے آجائے اوروہ زہر کو اگل دے  اسکا یہ اقدام زہر کے خوف اورہراس کی وجہ سے ہوتا ہے، اسکی خواہش یہی ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طرح زہر کا اثر زائل ہوجائے ، اسی طرح توبہ کی طرف مائل ہونیوالا جب محسوس کرتا ہے کہ میری تمام شہوانی اورنفسانی خواہشات دراصل اس شہد کی مانند تھیں جس میں زہر ملا ہوا تھا، جو نوش جاں کرتے وقت تو بہت ہی لذیذ اورشیریں معلوم ہوتا رہا لیکن انجام کار سانپ کے ڈنک کی طرح زہر سے بھرپور نکلا یہ جان کر اس گنہگار کی پشیمانی اسے مضطرب کردیتی ہے اوراسکے اندر بے قراری کی ایک آگ سے بھڑک اٹھتی ہے ، گناہ کی خواہش توبہ کی حسرت کی صورت اختیار کرلیتی ہے اور اپنے کیے ہوئے گناہوں کی معافی اورتلافی کا ارادہ دل میں بیدار ہوجاتا ہے اوراسکی زبان سے باربار یہی الفاظ نکلتے ہیں کہ اے اللہ کریم ! مجھے معاف فرمادے ، میں آئندہ کبھی گناہ کے قریب بھی نہیں پھٹکوں گا ،یہ کہتے ہوئے وہ جور وجفا کے لبادے کو تار تار کردیتا ہے اورخلوص ووفا کی بساط بچھا دیتا ہے، اسکی تمام حرکات وسکنات میں ایک انقلاب برپا ہوجاتا ہے ۔ پہلے وہ فخرو تکبر اورغفلت و تساہل کا پتلا تھا تو اب اشک ندامت اسے حسرت وارمان اورغم اندوہ کا مجسمہ بنا دیتے ہیں ، پہلے اہل غفلت کی صحبت اسے بہت مرغوب تھی تو اب اہل علم ومعرفت اورصاحبانِ تقویٰ و طہارت کی صحبت اس کیلئے مایہ ء سرور اورراحت جاں بن جاتی ہے اورصحبت بد سے اسے وحشت ہونے لگتی ہے ۔پس یہی پشیمانی ، یہی ندامت اوریہی بے قراری حقیقت میں ’’توبہ‘‘ ہے ، یعنی احساس ندامت ، اپنے کیے پرپچھتاوا اوراصلاح کی طرف میلان ’’توبہ ‘‘ کہلاتا ہے، اسکی جڑ وہ نور ہے جسے نورِ ایمان یا نورِ معرفت سے تعبیر کیا جاتا ہے اوراسکی شاخیں وہ حالات ہیں جو بدل چکے ہیں ، وہ مخالفت ہے جو بندئہ مومن کے دل میں گناہ اور سرکشی کے بارے میں جنم لیتی ہے اوروہ جذبہ ہے جو بدن کے تمام اعضاء کو گناہ اوربدی سے بازرہنے کی تلقین کرتا ہے اوراسے حق تعالیٰ کے حکم کی موافقت ،مطابعت اورعبادت و اطاعت پر مجبور کردیتا ہے۔ (کیمیائے سعادت)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں