ہفتہ، 6 فروری، 2021

انوکھا سخی۔۔۔

 

انوکھا سخی۔۔۔

 ایک دفعہ دو بادیہ نشین مدینہ منورہ آکر یہ سوال کرنے لگے :کہ کون ہے جو ہمیں فی سبیل اللہ سواری عطاکرے؟لوگوں نے حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کانام لیا ،وہ دونوں اُن کے گھر چلے آئے ۔آپ نے اُن سے پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔ انھوں نے اپنی احتیاج کے بارے میں بتا دیا،آپ نے فرمایا:کچھ دیر ٹھہرو ، میں ابھی تمہارے پاس آتا ہوں ۔واپس آئے تو مصر کا بنا ہواہلکے اورپتلے کپڑے کا ایک سستا سا لباس پہنے ہوئے تھے جس کی قیمت محض چار درہم تھی۔ہاتھ میں ایک لاٹھی لیے ہوئے تھے،اوران کے غلام بھی ان کے ساتھ تھے ۔وہ دونوں سوالیوں کو لے کر بازار کی طرف روانہ ہوئے ،راستے میں جب کسی کوڑا کرکٹ کے پاس سے گزرتے اوراس میں ان کو کوئی کپڑا نظر آتا جو اونٹوں کے سامان کی مرمت میں کام آسکتا تو اسے اپنی لاٹھی کے کنارے سے اٹھا لیتے ،اسے جھاڑتے ،پھر اپنے غلاموں سے کہتے اسے اونٹوں کے سامان کی مرمت کے لیے رکھ لو۔ حضرت حکیم بن حزام اسی طرح ایک کپڑے کا ٹکڑا اٹھا رہے تھے کہ ان میں سے ایک دیہاتی نے اپنے ساتھی سے کہا ،تیرا ناس ہو،ان سے جان چھڑائو اوریہاں سے کھسکو، اللہ کی قسم !ان کے پاس تو صرف کوڑے سے اٹھائے ہوئے چیتھڑے ہی ہیں،یہ ہمیں سواری کے جانور کیسے دے سکیں گے۔اس کے ساتھی نے کہا :میاں !عجلت نہ کرو، تھوڑی دیر توقف کرو،دیکھتے ہیں کہ یہ کیا کرتے ہیں۔حضرت حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ ان دونوں کو لے کر بازار پہنچے ، وہاں انھیں دو بڑی صحت مند ، موٹی تازی گابھن اونٹنیاں نظر آئیں ،انھوںنے دواونٹنیاں خرید لیں اورساتھ ہی ان کا متعلقہ سامان بھی خرید لیا ،پھر اپنے غلاموں سے کہا جس سامان کی مرمت درکار ہو اس کی مرمت کپڑوں کے ان ٹکڑوں سے کرلو۔اس کے بعد دونوں اونٹنیوں پر کھانا ، گندم اورچربی خرید کر لدوادی ، ان دونوں دیہاتیوں کو اخراجات کے لیے رقم بھی دی اورکہا کہ یہ دونوں اونٹنیاں اپنے ساتھ لے جائو ۔اس پر اس دیہاتی نے بڑی حیرت سے اپنے ساتھی سے کہا میں نے آج تک کوئی کپڑے اُٹھانے والا ایسا سخی نہیں دیکھا۔(طبرانی ،مجمع الزوائد)

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں