قرآن مجید اور تربیتِ اولاد
تربیتِ اولاد ایک نہایت اہم اور نازک معاملہ ہے جس کی بنیاد قرآن مجید فرقان حمید میں واضح انداز میں رکھی گئی ہے۔قرآن مجید معاشرے کی تشکیل اور معاشرے کی بہتری کے لیے ایک جامع ہدایت نامہ ہے۔والدین کی ذمہ داری صرف اولاد کی جسمانی نشو و نما کر نا نہیں بلکہ روحانی ، اخلاقی ، فکری اور سماجی تربیت بھی شامل ہے تا کہ اولاد نیک سیرت اور صالح ہو۔
قرآن مجید میں حضرت لقمان علیہ السلام کی اپنے بیٹے کو کی گئی نصیحتیں والدین کے لیے ایک روشن مثال ہیں۔ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو سب سے پہلے توحید پر ایمان رکھنے اور شرک سے بچنے کی تلقین کی۔سورۃ القمان میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اے میرے بیٹے اللہ کا کسی کو شریک نہ کرنا بیشک شرک بڑا ظلم ہے‘‘۔(آیت:۱۳)۔
اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اولاد کی سب سے پہلی اور بنیادی تربیت عقیدہ توحید پر ہونی چاہیے تاکہ بچے کے دل میں اللہ کی معرفت ، محبت اور خوف پیداہو۔
سورۃ القمان کی آیت نمبر ۱۷ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اے میرے بیٹے نماز قائم رکھ اور اچھی بات کا حکم دے اور بْری بات سے منع کر اور جو مصیبت تجھ پر آئے اس پر صبر کر بیشک یہ ہمت کا کام ہے ‘‘۔
تربیت اولاد میں دوسری ضروری اور اہم بات یہ ہے کہ بچے کو نماز پنجگانہ کا عادی بنائے اور اسے نیک کام کرنے اور بْرے کاموں سے باز رہنے اور اگر کبھی کوئی مشکل وقت آجائے تو اس پر صبر کرنے کی تلقین کرے۔تا کہ بچے میں عبادات کی پابندی کے ساتھ ساتھ اخلاقی جرأت‘ سماجی فلاح اور صبر و برداشت پیدا ہو۔ اسکے بعد حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی کہ ’’اور کسی سے بات کرتے وقت اپنا رخسار ٹیڑھا نہ کر اور زمین پر اکڑتے ہوئے نہ چل بیشک اللہ کو ہر اکڑ نے والا ، تکبر کرنے والا نا پسند ہے ‘‘۔( سورۃ لقمان آیت : ۱۸)۔
اولاد کو یہ بات سمجھائیں کہ جب تم کسی سے بات کرو تو تکبر کرنے والوں کی طرح انہیں حقیر جان کر ان سے رْخ نہ پھیرو بلکہ مالدا ر اور فقیر سب کے ساتھ عاجزی سے پیش آنا کیونکہ تکبر اللہ کو پسند نہیں۔ اس کے بعد اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے حضرت لقمان علیہ السلام نے کہا :’’ اور میانہ چل اور اپنی آواز کچھ پست کر بیشک سب آوازوں میں بْری آواز گدھے کی آواز ہے ‘‘۔ ( سورۃ لقمان آیت : ۱۹)۔
اپنی اولاد کو نصیحت کریں کہ جب چلیں تو نہ زیادہ تیز چلیں اور نہ ہی زیادہ سست بلکہ درمیانی چال میں چلیں اور کسی سے بھی زیادہ اونچی آواز سے بات نہ کریں کیونکہ شور مچانا اور آواز بلند کرنا ایک مکروہ عمل ہے۔اگر قرآنی تعلیمات کی روشنی میں اولاد کی پرورش کی جائے تو نہ صرف ایک فرد بلکہ پورا معاشرے سنور جائے گا اور ہر طرف امن و سکون نظر آئے گا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں