خدمت ِوالدین (۱)
والدین کی خدمت بہت بڑی نیکی اور سعادت کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ والدین اپنی اولاد کی خاطر دن رات محنت کرتے اور بہت سی قربانیاں دیتے ہیں کہ ان کا مستقبل سنور جائے اور وہ معاشرے کے بہترین فرد بن کر اپنی زندگی بسر کر سکیں۔ لیکن بعض لوگ والدین کی خدمت کو بھی ایک مسئلہ سمجھتے ہیں اور اس سے اکتاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ لیکن والدین کی خدمت مسئلہ نہیں بلکہ مسائل کا حل ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ اپنے دوستوں ، بیوی بچوں اور والدین کے درمیان اعتدال کی راہ اپنائے تاکہ وہ سبھی کے حقوق کو احسن طریقے سے ادا کر سکے۔ والدین کی خدمت ایک اخلاقی عمل نہیں بلکہ ایک عظیم عبادت بھی ہے اس کا اندازہ سورۃ بنی اسرائیل کی آیت نمبر ۲۳ سے لگایا جا سکتا ہے۔
ارشادباری تعالیٰ ہے : ’’ اور تیرے رب نے حکم فرمایا کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اگر تیرے سامنے ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو ان کے سامنے اْف تک نہ کہنااور انہیں نا جھڑکنا۔ اور ان سے تعظیم سے بات کرنا‘‘۔
اللہ تعالیٰ نے اس آیتِ مبارکہ میں اپنی عبادت کا حکم دینے کے بعد یہ حکم فرمایا کہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرو۔ اس میں حکمت یہ ہے کہ انسان کے وجود کا حقیقی سبب اللہ تعالیٰ کی تخلیق اور ایجاد ہے اور اس کا ظاہری سبب اس کے ماں باپ ہیں اسی لیے اللہ تعالیٰ نے انسان کے حقیقی سبب کی تعظیم کا حکم دینے کے بعد اس کے ظاہری سبب کی تعظیم کا حکم دیا ہے۔جس طرح والدین کا بچوں پر احسان عظیم ہے کہ وہ انتہائی احسن اندازسے اپنی اولاد کی دیکھ بھال کرتے ہیں اسی طرح اولاد کا بھی فرض ہے کہ وہ بھی اپنے والدین کی اچھے طریقے سے دیکھ بھال کریں۔
بعض اوقات انسان دنیاوی معاملات اور الجھنوں میں اس قدر کھو جاتا ہے کہ والدین کی خدمت اس کی ترجیحات میں نہ ہونے کے برابر ہوتی ہے۔ لیکن انسان کے نزدیک جس چیز کی اہمیت ہوتی ہے وہ اس کے لیے وقت نکال ہی لیتا ہے اور جس کی اہمیت نہ ہو اس کے لیے سو حیلے بہانے تلاش کرتا ہے۔ لیکن وقت کوئی چیز نہیں سارے کے سارے معاملات آپ کی ترجیحات پر منحصر ہیں۔
ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ سب سے زیادہ حسن سلوک کا حق دار کون ہے آپؐ نے فرمایا تمہاری ماں ، اس صحابی کے تین بار پوچھنے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہاری ماں اور جب چوتھی بار پوچھا تو فرمایا تمہارا باپ۔ ( بخاری )۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں