جمعرات، 26 دسمبر، 2024

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ(۲)

 

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ(۲)

 آپ نے اسلام کی حالت ضعف میں کل مال و متاع ، قوت قابلیت اور جان و اولاد اور جو کچھ پاس تھاسب کچھ انفاق فی سبیل اللہ کے لیے وقف کر رکھا تھا۔غزوہ تبوک کے موقع پر نہایت عسرت و تنگی کی حالت کے دور میں آپ نے مالی خدمت میں بھی کوئی کسر نہ چھوڑی۔اور جہاد فی سبیل اللہ کے اس موقع پر بھی جانثاری میں سب سے سبقت لے گئے۔ اور گھر کا سارا مال حضور نبی کریمؐ کے قدموں میں لا کر رکھ دیااور گھر میں ایک سوئی بھی نہ چھوڑی۔ حضور نبی کریم ﷺنے صدیق اکبر ؓ سے پوچھا تم نے اپنے اہل و عیال کے لیے باقی کیا رکھا ہے۔ حضرت سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کی یارسول اللہ ؐان کے لیے اللہ اور اس کا رسولؐ کافی ہے۔ 
جب دوبارہ حضور نبی کریم ﷺنے جہاد کے لیے مال جمع کرنے کا حکم دیا تو حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو گھر میں تلاش کرنے کے باوجود کچھ نہ ملا۔ ساری رات بے چینی میں گزری اور پریشانی کی حالت میں کروٹ بدلتے رہے۔ جب صبح ہوئی تو اٹھ کر بازار جا کر اپنا زیب تن پوشاک بھی فروخت کر دیااور ٹاٹ کا لباس پہن کر اور بٹنوں کی جگہ کانٹے لگا کر حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں رقم لے کر حاضر ہوئے۔ادھر جبرائیل علیہ السلام حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہوئے اور عرض کی اللہ تعالیٰ کو یہ عظیم قربانی اور جذبہ اتنا محبوب ہوا کہ آج تمام فرشتوں نے یہ پوشاک پہن رکھی ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے حضرت ابو بکر صدیق ؓ کو سلام بھیجا ہے اور پوچھا ہے کہ کیا ابو بکر ؓ اس حال میں مجھ سے راضی ہے۔ آپ کی آنکھوں سے آنسوجاری ہو گئے اور عرض کی یارسول اللہﷺ میں راضی ہوں۔ 
آپ نے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں جو دعا کہ اللہ تعالیٰ نے نہ صرف اس کو قبول فرمایابلکہ اس کو قرآن کی آیت بنا دیا۔
 آپ نے اللہ تعالیٰ سے عرض کی : ’’اے میرے پروردگار مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر بجا لائوں جو تو نے مجھے اور میرے والدین کو عطا فرمائی اور میں ایسا صالح عمل کرو جس سے تو راضی ہو اور میرے لیے میری اولاد میں نیکی رکھ میں تیری طرف تائب ہوتا ہوں اور تیرے مطیع فرماں بندوں سے ہو جائوں ‘‘۔
آپکی دعا کا یہ ثمر ملا کہ آپ کے خاندان کی چار پشتیں صحابی ہو گزریں اور یہ شرف کسی اور صحابی کے حصہ میں نہ آیا۔

کیا ہم سیدھے راستے پر ہیں؟

منگل، 24 دسمبر، 2024

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 100-102.کیا ہماری شفاعت ہوگی

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 94-99.کیا اصل مجرم ہم مسلمان...

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ(۱)

 

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالی عنہ(۱)

حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کا پہلا نام عبد الکعبہ تھا ۔ پھر حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کا نام عبد اللہ رکھا ۔ آپ کی ولادت باسعادت عام الفیل سے تقریبا ً اڑھائی سال بعد ہوئی ۔ آپ کے والدماجد کا نام ابی قحافہ عثمان ؓ بن عامر تھا ۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے جس ماحول میں آنکھ کھولی وہ کفر و شرک کا ماحول تھا ۔ شراب نوشی اور زنا کاری کو کوئی عیب نہیں سمجھا جاتا تھا ۔اس دور میں بھی آپ فطری طور پر ان برائیوں سے دور رہے ۔ کبھی کسی بت کے سامنے سجدہ ریز نہیں ہوئے ۔ آپ رضی اللہ تعالی عنہ کبھی بھی جھوٹ نہیں بولا کرتے تھے ۔آپ ؓ کی عمر مبارک تقریبا اڑتیس برس تھی جب حضور نبی کریم ﷺ نے اعلان نبوت فرمایا ۔ آزاد مردوں میں آپؓ کو سب سے پہلے اسلام قبول کرنے کی سعادت نصیب ہوئی ۔ نبی کریم رؤف الرحیم ﷺ کی صحبت سے فیضیاب ہوئے اور تعلیم و تربیت سے آپؓکے محاسن کو مزید جلا اور تقویت ملی اور آپ ؓ کی شخصیت میں وہ نکھار پیدا ہواکہ آپ افضل البشر بعد الانبیاءقرار پائے ۔اسلام قبول کرنے کے بعدحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنا تن من دھن ہر چیز اسلام کی اشاعت و ترویج کے لیے وقف کر دیا ۔ حضرت ابو بکر صدیق ؓ نے جب اسلام قبول کیا تو آپ کے پاس پچاس ہزار درہم تھے آپ نے خوب دل کھول کر انہیں خرچ فرمایا ۔تقریباً ۹ غلام اور لونڈیاں جو مسلمان ہو چکے تھے انہیں خرید کر آزاد فرمایا ۔ جن میں حضرت بلال رضی اللہ تعالی عنہ بھی شامل تھے ۔آپ رضی اللہ تعالی عنہ کی تبلیغ سے بہت سے صحابہ کرام حلقہ بگوش اسلام ہوئے ۔ جن میں حضرت عثمان بن عوف ؓ ، حضرت عبدالرحمن بن عوف ؓ ، حضرت طلحہ بن عبید اللہ ؓ ، حضرت زبیر بن العوام ، سعد بن ابی وقاص ، ابو عبیدہ بن الجراحؓ جیسی ہستیاں شامل ہیں ۔ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالی عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات آسمان پر ان گنت ستارے چمک رہے تھے ۔ آپ فرماتی ہیں کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا کہ آپ کے کسی امتی کی اتنی نیکیاں ہیں جتنے آسمان کے ستارے ہیں ۔ آپﷺنے فرمایا!ہاں اتنی نیکیاں حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ کی ہیں ۔ آپ فرماتی ہیں میں نے عرض کی میرے والد ماجد ابو بکر صدیقؓ کی نیکیاں کتنی ہیں ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایاحضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ کی ایک غار ثور والی نیکی حضرت عمر ؓ کی سب نیکیوں سے بڑھ کر ہے ۔ (مشکوۃ شریف)۔

پیر، 23 دسمبر، 2024

Surah Al-Shuara Ayat 90-91 Part-03.کیا ہم نے جنت کی بجائے دوزخ کا انتخا...

Surah Al-Shuara Ayat 90-91 Part-02 .کیا ہم خالص اللہ تعالی کی بندگی کرن...

خلقِ خدا کے لیے آسانی پیدا کرنا

 

خلقِ خدا کے لیے آسانی پیدا کرنا

حضور نبی کریمﷺ کے فرامین سے یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کے ساتھ ویسا ہی سلوک کرتا ہے جیسا بندہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے ساتھ کرتا ہے ۔ جو شخص مخلوق خدا کے ساتھ نرمی سے پیش آئے گا مخلوق خدا کے لیے آسانیا ں پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ اس شخص کے ساتھ بھی نرمی والا معاملہ فرمائے گا اور اس کے لیے آسانیاں پیدا کرے گا ۔ اس کے برعکس جوشخص مخلوق خدا کے ساتھ سختی سے پیش آئے گا اور لوگوں کے لیے مشکلات پیدا کرے گا اللہ تعالیٰ بھی اس کے ساتھ سختی فرمائے گا ۔ جو بندہ مخلوق خدا کو کسی غلطی کی وجہ سے معاف کرتا ہے اللہ تعالی اسے معاف فرمائے گا اور جو بندہ اللہ تعالی کے بندوں کو معاف نہیں کرتا اللہ تعالیٰ اسے بھی معاف نہیں کرے گا ۔ معاف کرنااللہ تعالی کی صفت مبارکہ ہے اس لیے اللہ تعالی معاف کرنے کو پسند فرماتا ہے ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا : اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا ۔ (المعجم الکبیر ) 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالہ عنہ سے مروی ہے کہ رحم کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ رحم فرماتا ہے تم زمین والوں پر رحم کرو آسمان والا تم پر رحم کرے
گا ۔ ( السنن الکبری ) 
ان احادیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جس بندے کی یہ خواہش ہو کہ اللہ تعالیٰ اس پر رحم کرے اور اس کی غلطیوں کو معاف فرما دے تو وہ بھی لوگوں کی غلطیوں کو اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر معاف کر نا شروع کردے اللہ تعالی اسے معاف فرما دے گا ۔ حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضور نبی کریم ﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا اے لوگو جو زبان سے تو اسلام کا اقرار کر چکے ہیں لیکن ابھی ایمان ان کے دلوں میں نہیں اترا پھر آپ ﷺ نے فرمایا : مسلمانوں کو اذیت نہ دواور انہیں عار نہ دلائو اور ان کے عیب تلاش نہ کرو کیونکہ جو کسی مسلمان بھائی کے عیب تلاش کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے عیبوں کا پیچھا کرے گا اور جس کے عیبوں کا اللہ تعالیٰ پیچھا کرے گا اسے رسوا کر دے گا ۔ اگرچہ وہ اپنے گھر میں لوگوں سے چھپا ہو اہو۔ ( المعجم الکبیر )
بخاری شریف کی روایت ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا ایک آدمی لوگوں کو قرض دیا کرتا تھا جب کوئی مقروض اس کے پاس آتا تو وہ اپنے غلاموں سے کہتا کہ اس سے در گزر کرو شاید اللہ تعالیٰ اس وجہ سے ہمیں معاف فرما دے ۔ جب وہ بندہ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں پیش ہوا تواللہ تعالیٰ نے اسی عمل کے سبب اس کی بخشش فرما دی ۔ 

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 88-89 Part-02 .ہم اپنے دل کو...

اتوار، 22 دسمبر، 2024

قناعت و استغنا ترک کرنا

 

قناعت و استغنا ترک کرنا

جب انسان حرص و لالچ میں مبتلا ہو جاتا ہے اور قناعت و استغنا کا راستہ چھوڑ دیتا ہے تو وہ مختلف مصائب و پریشانیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ انسان کو جب اتنا مال مل جائے جس میں اس کا گزارا ہو جائے اور جو اسے عزت و وقار کے ساتھ حاصل ہو جائے جس کے لیے نا جھوٹ بولنا پڑے اور نہ ہی کوئی غیر اخلاقی راستہ اختیار کرنا پڑے۔ جب انسان اسی پر صبر نہیں کرتا اور مال جمع کرنے لیے ساری زندگی لگا دیتا ہے پھر اسے چاہے اپنا ضمیر بیچنا پڑے یا پھر کوئی حرام راستہ اختیار کرنا پڑے تو پھر انسان کی زندگی سے خوشحالی ختم ہو جاتی ہے اور وہ مختلف پریشانیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ ذہنی سکون کے لیے ضروری ہے کہ انسان اللہ تعالی کی رضا میں راضی ہو جائے اور جتنا مال اس کی ضرورت کے لیے کافی ہو اسی پر اکتفا کرے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اے لوگو اپنے رب کی طرف آئو اور وہ جو تھوڑا ہے لیکن ضروریات کے لیے کافی ہے وہ اس سے بہتر ہے جو زیادہ ہے لیکن حق سے غافل کر دے۔ (شعب الایمان )
ایک مرتبہ ایک شخص حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور کثرت مال کے لیے دعا کرنے کے لیے عرض کیا تو آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ تھوڑا مال جسے پا کر شکر گزار بندہ بنا رہے اس زیادہ مال سے بہتر ہوتا ہے جسے پا کر تو شکر کی نعمت سے محروم ہو جائے۔ ( درمنثور)۔
ضروریات کی کفایت کا کوئی بدل نہیں ہے۔ جو بندہ قناعت و استغنا کا راستہ چھوڑ دیتا ہے اور زیادہ مال جمع کرنے کے چکر میں اپنی زندگی کو طرح طرح کی مشکلات میں مبتلا کر دیتا ہے اور رات کو سکون سے سوتا بھی نہیں ہے اور وہ یہ سمجھتا ہے کہ ما ل جمع کرنا ہی انسان کا کمال ہے۔لیکن حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس کو اللہ تعالیٰ نے صحت والی زندگی دی اس کے پاس پیسہ کم ہی ہو وہ اس سے ہزار گنا بہتر ہے جسکے پاس دولت تو ہے لیکن زندگی میں سکون نہیں۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو انسان اس حال میں صبح کرے کہ اس کا دل پر سکون ہو ، اس کا جسم تندرست ہو اور اس کے پاس اس دن کا کھانا ہو تو گویا اسے پوری دنیا دے دی گئی ہے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا جس شخص نے حلال روزی اس لیے حاصل کی کہ گدا گری سے بچ سکے ، اپنے گھر والوں کی خدمت کرے اوراپنے پڑوسی سے تعاون کرے وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حالت میں ملے گا کہ اسکا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا اور جو روزی اس لیے کمائے کہ اس کا مال زیادہ ہو اور وہ اس وجہ سے فخر و تکبر اور دکھاو ے کا اظہار کرے تو وہ اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہو گا۔

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 86-87 .کیا ہم آخرت میں رسوائ...

ہفتہ، 21 دسمبر، 2024

والدین کی خدمت نہ کرنے کے نقصانات

 

والدین کی خدمت نہ کرنے کے نقصانات

والدین کی خدمت کرنا کوئی معمولی بات نہیں بلکہ انسان کے لیے بہت بڑی سعادت کی بات ہے۔ خوش قسمت ہے وہ اولاد جن کو یہ سعادت نصیب ہوتی ہے۔ حضور ﷺ کے ارشادات سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ جو شخص اپنے والدین کی خدمت نہیں کرتا بد بختی اس کا مقدر بن جاتی ہے۔ اس کی زندگی اور رزق سے برکت ختم ہو جاتی ہے۔ آپ نے فرمایا کہ جو بندہ والدین کی خدمت کر تا ہے اللہ تعالی اس کی عمر میں برکت فرماتا ہے۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جو چاہتا ہے کہ اس کی زندگی لمبی ہو اور اس کے رزق میں برکت ہو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرے اور ان سے صلہ رحمی کرے۔ (مسند احمد ) 
جو بندہ اس بات کی خواہش رکھتا ہو کہ اس کی اولاد اس کی خدمت کرے اور فرمانبردار بن جائے اسے چاہیے کہ وہ خود بھی اپنے والدین کی خدمت کرے، اس کی اولاد اس کے ساتھ بھی حسن سلوک سے پیش آئے گی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اپنے والدین سے بھلائی کے ساتھ پیش آﺅ۔ تمہاری اولاد تمہارے ساتھ بھلائی کے ساتھ پیش آئے گی۔ ( المعجم الاوسط ) 
والدین کو ایذا دینا اور ان کی نافرمانی کرنا ایسا گناہ ہے جس کی سزا دنیا میں ہی مل جاتی ہے۔ فرمان مصطفی ﷺہے کہ ہر گناہ کی سزا اللہ تعالی جسے چاہے قیامت تک موخر کر دے مگر والدین کی نا فرمانی ایسا گناہ ہے کہ اللہ تعالی بندے کے مرنے سے پہلے ہی اسے دنیا میں اس کی سزا دے دیتاہے۔ ( المستدرک للحاکم ) 
جو بندہ والدین کا نا فرمان ہو وہ مرتے وقت کلمہ پڑھنے سے بھی محروم ہو سکتا ہے۔ حضرت عبد اللہ فرماتے ہیں ایک شخص حضور کی بارگاہ میں حاضر ہوا اور عرض کی ایک بندہ مرنے کے قریب ہے لیکن جب اسے کلمہ پڑھنے کی تلقین کی گئی تو وہ نہیں پڑھتا۔ آپ اس کے پاس تشریف لے گئے اور کلمہ نہ پڑھنے کی وجہ پوچھی تو اس نے جواب دیا کہ میں اپنی والدہ کا گستاخ ہوں۔ آپ نے اس کی والدہ کو بلایا اور فرمایا کہ اگر آگ جلا کر تمہیں کہا جائے کہ اسے معاف کر دو نہیں تو اسے اس آگ میں پھینک دیا جائے گا تو تم کیا کرو گی۔ ماں نے عرض کی کہ میں سفارش کروں گی۔ تو آپ نے فرمایا اللہ تعالیٰ اور مجھے گواہ بنا کر کہہ دو کہ تو نے اپنے بیٹے کو معاف کر دیا ہے۔ جب ماں نے بیٹے کو معاف کر دیا تو آپ نے اسے کہا پڑھو :
”لاالہ اللہ وحدہ لا شریک لہ و اشھد ان محمد اعبدہ ورسولہ فقالھا فقال رسو ل اللہ (ﷺ) الحمد للہ الذی انقدہ من النار “
جب اس شخص نے یہ کلمات پڑھے تو آپ نے فرمایا اس اللہ کی حمد ہے جس نے اس نوجوان کو آگ سے بچا لیا۔

جمعہ، 20 دسمبر، 2024

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 85 .کیا ہم دنیا دار لوگ ہیں؟

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 84.کیا جنت صرف دعا سے مل جات...

فضائل قرآن مجید

 

فضائل قرآن مجید

قرآن مجید ایک ایسی کتاب ہے جو نا صرف ہدایت کا ذریعہ ہے بلکہ شفاءکا بھی ذریعہ ہے۔
قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ” لوگو ! تمہارے پاس رب کی طرف سے نصیحت آ گئی ہے۔ یہ وہ چیز ہے جو دلوں کے امراض کی شفاء ہے اور جو اسے قبول کر لیں ان کے لیے رہنمائی اور رحمت ہے۔ اے نبی کہہ دو کہ یہ اللہ کا فضل اور مہربانی ہے کہ یہ خبر اس نے بھیجی۔ اس پر تو لوگوں کو خوش ہونا چاہیے “۔
قرآن مجید مردہ لوگوں کے لیے آب حیات اور پڑ مردہ دلوں کے لیے طمانیت بخش ہے۔ لوگوں کو ان کے رب کے حکم سے تاریکی سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے اور صراط مستقیم پر گامزن کرتا ہے۔ جس کا قول قرآن مجید کے مطابق ہے وہ صادق ہے اور جو اس کے احکامات پر عمل پیرا ہوتا ہے وہ کامیاب ہے۔ 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا طرہ امتیاز تھا کہ وہ دنیا میں ایسے زندگی بسر کرتے تھے گویا کہ جیتا جاگتا قرآن ہوں وہ قرآنی آیات میں غورو فکر کرتے تھے اور حقیقی معنوں میں اس کی تلاوت کرتے تھے۔اس کے مطابق اپنی زندگی بسر کرتے تھے ، اور اس ہی کی طرف دعوت دیتے تھے ،عذاب کی آیتوں سے ان کے دل دہل جاتے تھے ، اور رحمت کی آیتوں سے ان کے دل روشن اور معمور ہو جاتے تھے۔ 
صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین قدم قدم پر قرآن مجید سے ہدایت حاصل کرتے تھے اس لیے وہ دنیا میں باعزت ہوئے اور دنیا کی سیادت کے حقدار بنے۔ بلند درجات پر فائز ہوئے اور دونوں جہانوں کی کامیابیوں سے سر فراز ہو ئے۔ 
قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ” یقینا یہ قرآن وہ راستہ دکھاتا ہے جو بہت ہی سیدھا ہے اور ایمان والوں کو جو نیک اعمال کرتے ہیں اس بات کی خوشخبری دیتا ہے کہ ان کے لیے بہت بڑا اجر ہے “۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : ” تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرآن سیکھے اور دوسروں کوسکھائے“۔ حضرت عبداللہ بن مسعود سے روایت ہے کہ حضور نے فرمایا : ” جس نے قرآن مجید سے ایک حرف پڑھا اس کے لیے ایک نیکی ہے اور ایک نیکی دس نیکیوں کے برابر ہے میں یہ نہیں کہتا کہ ال م ایک حرف ہے بلکہ الف ایک حرف لام ایک حرف اور میم ایک حرف ہے“۔
حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا : ”صاحب قرآن سے کہا جائے گا قرآن پڑھتے جاﺅ اور درجات پرچڑھتے جاﺅاور اس ترتیل سے پڑھو جس طرح دنیا میں پڑھا کرتے تھے ، بیشک تمہارا مقام وہاں ہو گا جہاں پر تمہارا پڑھنا ختم ہو جائے گا “۔

کیا ہم گمراہ ہو چکے ہیں؟

جمعرات، 19 دسمبر، 2024

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 83 Part-02.کیا ہم باطل مقاصد...

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 83 Part-01.کیا ہم سب ذہنی مر...

قابل رشک لوگ

 

قابل رشک لوگ

اللہ کے کچھ بندے ایسے بھی ہیں جن پر قیامت کے دن انبیاء اور شہداء رشک کریں گے ۔ روایات میں آتا ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا میں تمھیں ایسے لوگوں کے بارے میں بتائوں جو نہ پیغمبر ہوں گے اور نہ ہی شہداء لیکن قیامت کے دن پیغمبر اور شہداء ان پر رشک کریں گے ۔ یہ سب ان کے اس مقام کی وجہ سے جو اللہ تعالیٰ انھیں عطا فرمائے گا ۔ وہ نور کے ممبروں پر بیٹھے ہوں گے ۔ عرض کی گئی، یا رسول اللہﷺ، وہ کون لوگ ہوں گے؟ آپؐ نے فرمایا، یہ وہ لوگ ہوں گے جو اللہ تعالیٰ کے بندوں کو اللہ سے محبت کرنے والا بنائیں اور ان کو اس قابل بنائیں کہ اللہ ان سے محبت کرے اور جب وہ زمین پر چلیں تو لوگوں کا ناصح بن کر ۔ (شعب الایمان) 
اللہ تعالیٰ کی ذات سے بڑی کسی کی ذات نہیں اسی طرح اللہ تعالیٰ کی محبت سے بڑھ کر کوئی عمل نہیں ہو سکتا ۔ جب اس بات کی کوشش کرتاہے کہ جو اعلیٰ چیز خود اس نے حاصل کی ہے باقی لوگ بھی اسے حاصل کریں اور وہ دوسرے لوگوں کو بھی اللہ تعالیٰ کی معرفت سے آشنا کروادے اور لوگ سب سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے محبت کرنے لگ جائیں اور اللہ جل شانہ کی ذات ان کے لیے وہ ہستی بن جائے جو ان کے قلبی سکون کا باعث ہو ۔ جب لوگ اس طرح اللہ تعالیٰ کو اپنا محبوب بنا لیں گے تو ایسے لوگ خود بھی اللہ تعالیٰ کے محبوب بن جاتے ہیں۔ 
بخاری شریف کی روایت ہے، حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے جب میرے کسی بندے کا یہ حال ہوتا ہے کہ مجھ سے ملنا اس کا سب سے محبوب عمل ہے تو میرے لیے بھی اس بندے سے ملاقات کرنا محبوب ہو جاتا ہے ۔ بندہ جب غورو فکر کرتا ہے اور اپنے رب کو پالیتا ہے اور اپنے رب کی دی ہوئی بے شمار نعمتوں کو یاد کرتا ہے تو اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ سے بے پناہ محبت کرنے لگ جاتا ہے ۔اور پھر اللہ تعالیٰ بھی اس بندے سے محبت کرنے لگ جاتا ہے اور پھر دنیا سے آخرت تک اللہ تعالیٰ کی رحمت اسے ڈھانپ لیتی ہے ۔
اللہ تعالیٰ سے محبت کاسر چشمہ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کی دریافت ہے ۔اسی دریافت کی وجہ سے انسان کے اوپر آخرت کی اعلیٰ نعمتوں کے دروازے کھل جاتے ہیں۔کسی بندے کے دل میں اللہ تعالیٰ سے محبت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب وہ اللہ تعالیٰ کو اپنے منعم حقیقی کی حیثیت سے پہچان لیتا ہے جب بندہ نعمتوں کے ساتھ منعم کی بھی معرفت دریافت کر لے یہی وہ بندہ ہوتا ہے جو اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہوتا ہے اور اسی کو ہی قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شر ف حاصل ہو گا۔ 

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 82.کیا ہمارا دوزخ پر یقین نہ...

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 75-81.مومنانہ صفات

بدھ، 18 دسمبر، 2024

کیا ہم بے ایمان لوگ ہیں؟

اللہ تعالیٰ کی رضا

 

اللہ تعالیٰ کی رضا 

اللہ تعالیٰ کسی انسان کے صرف ظاہری عمل کو کر دیکھ کر اس کے بارے میں فیصلہ نہیں کرتا بلکہ اللہ تعالیٰ بندے کی قلبی حالت کے لحاظ سے فیصلہ کرتا ہے ۔یعنی کوئی بھی کام سر انجام دینے سے پہلے اس کی نیت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو حاصل کرنا تھا یا پھر مخلوق کو راضی کرنا ۔
جو بندہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کا طالب ہو‘ اس کا رخ ہمیشہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف رہتا ہے ۔وہ ہر کام میں اللہ کی پسند اور نا پسند کا دھیان رکھتا ہے ۔ اور ہمیشہ حق کے لیے بولتا ہے اور وہی بولتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق ہو ۔ اور صرف اسی راستے پر چلتا ہے جو اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی طرف لے کر جاتا ہو۔ بیشک انسان اس کے مخالف ہی کیوں نہ ہو جائیں ۔اس کا اٹھنا ، بیٹھنا ، کھانا پینا سب کچھ اللہ تعالیٰ کی رضا کے گرد گھوم رہا ہوتاہے ۔ لیکن جو شخص دنیا کا طالب ہو تا ہے وہ ہمیشہ لوگوں کو خوش کرنے کی کوشش کرتا ہے اور اس کا مرکز اللہ تعالیٰ کی بجائے بندے ہوتے ہیں اور ایسا شخص لوگوں کو خوش کر نے کے لیے صحیح غلط کی بھی تمیز نہیں کرتا وہ ہر ایسا کام کرے گا جس سے وہ لوگوں میں مقبول ہو جائے۔
جو بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا کا طالب ہوتا ہے وہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں بہت زیادہ حساس ہوتا ہے وہ ہر طرح کے دوسرے پہلوﺅں کو نظر انداز کر سکتا ہے لیکن اللہ تعالیٰ کی خوشنودی والے پہلو کو نظر انداز نہیں کر سکتا لیکن جو بندہ جس کامطلوب صرف لوگوں کو خوش کرنا ہی ہو وہ انسانوں کے بارے میں حساس ہوتا ہے اور ہر لحاظ سے ان کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کرتا ہے ۔ 
جس بندے کا مطلوب اللہ تعالیٰ کی خوشنودی ہو گی اس کا ٹھکانہ جنت ہو گا اور جس کا مطلوب دنیا اور لوگوں کو خوش کرنا ہو گا اس کا ٹھکانہ جہنم ہو گا۔
خدا اور بندے کے درمیان جو نسبت ہے وہ دینے والے اور لینے والے کے لحاظ سے ہے ۔ بندے کے پاس اللہ تعالیٰ کو دینے کے لیے کچھ بھی نہیں ایک ہی چیز ہے جو بندہ اپنے رب کے حضور پیش کر سکتا ہے وہ ہے اللہ تعالیٰ کو ا س کی حیثیت واقعی سے دریافت کرلے۔ اسی کو پا لینے کا نام معرفت ہے ۔ جب بندہ اللہ تعالیٰ کے معاملے میں انتہائی گہرائی میں غورو فکر کرتا ہے تو اس وقت اللہ تعالیٰ کی توفیق سے بندے کو حقیقت خدا وندی کا انکشاف ہوتا ہے اور وہ کامل یقین کے درجے تک اللہ تعالیٰ کی معرفت حاصل کر لیتا ہے ۔خدا کی محبت میں جینے والے لوگ خدا کے مطلوب بندے ہیں اور انہیں آخرت میں ابدی جنت میں داخل کا جائے گا۔ 

اتوار، 15 دسمبر، 2024

اسلام اوراقتصادی تعلیمات (۲)

 

اسلام اوراقتصادی تعلیمات (۲)

اسلام کی اقتصادی تعلیمات میں بنی نوع انسان کی تمام فکری ، ذہنی ، جسمانی اور روحانی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اسلام میں دولت کو خرچ کرنے ، اس کو کمانے اور دولت کو تقسیم کرنے کے بے مثال اصول وضع کیے گئے ہیں ۔ یہ رہنما اصول اسلام کے اقتصادی نظام کی اساس ہیں ۔ اسلام کے اقتصادی نظام کی خصوصیات میں رضائے الٰہی کا اصول ، بنیادی ضروریات کی فراہمی ، ارتکازو دولت کی ممانعت ، معاشرتی فلاح و بہبود ، خود کفالت ، زکوة اور عشر کا نفاذ، سود کی حرمت ، میانہ روی ، قانون وراثت ، زاتی ملکیت کا تصور اور حلال و حرام کی تمیز وغیرہ شامل ہے ۔ 
اسلام میں معاشی ضابطوں کا دارو مدار عدل اور احسان پر ہے یہ دونوں اصطلاحات نہایت جامعیت اور کاملیت کی حامل ہیں ۔
ارشاد باری تعالی ہے :’ پس رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین و مسافر کو یہ طریقہ بہتر ہے اور ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوںاور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ اس اصول کو اپنانے سے مسلمانوں میں ہمدردی ، رحم ، شفقت ، ایثار و قربانی اور حقوق شناسی کے احساسات نمایا ں ہوتے ہیں جن کے تحت وہ دوسروں کے مشکل لمحات و اوقات میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے ہے اصول صرف اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کی نشاندہی فرما کر حقیقت حال کو بیان فرما دیا ہے ۔ پہلی یہ کہ باغ کھیت اور جانور اور تمھارا سارا مال و متا ع سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے ۔ دوسری یہ کہ جب یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے تو اسے اسی کے احکامات کے مطابق خرچ کرو اور تیسری یہ کہ جن اشیاءکو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے انھیں غیر شرعی طریقوں سے حرام نہ کر لیاجائے ۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’ اے ایمان والو،جو پاک چیزیں اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہیں انھیں حرام نہ کر لو اور حد سے نہ بڑھو بے شک اللہ حد سے بڑ ھنے والو ں کو پسند نہیں فرماتا ۔ اور کھاﺅ جو کچھ اللہ نے تمھیں روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ سے جس پر تمھیں ایمان ہے “۔ ( سورة المائدہ) 
اس کے بعد ہے اصول اعتدال : اسلامی نظام اصول یہ ہے کہ جو کچھ تمھیں اللہ تعالیٰ نے رزق دیا ہے اسے اسی کے متعین کردہ اصولو ں کے مطابق خرچ کرو اور کسی بھی قسم کی افراط و تفریط کی ممانعت کرتے ہوئے اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ‘۔( سورة الفرقان ) 
یعنی کے خرچ کرتے ہوئے نہ ہی حد سے بڑھیں کہ بعد میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑھے اور نہ ہی کنجوسی کریں ۔

ہفتہ، 14 دسمبر، 2024

ہمیں یقین کیسے آئے گا؟

اسلام اوراقتصادی تعلیمات (۱)

 

اسلام اوراقتصادی تعلیمات (۱)

انسان روح اور جسم کا مجموعہ ہے۔ اس لیے انسان کے لیے وہی دین ہوگا جو جسم اور روح دونوں کے تقاضوں کو پورا کرے۔ اسلام کے علاوہ کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جو انسان کے جسم اور روح دونوں کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ دنیا میں جتنے بھی معیشت کے نظام قائم ہیں وہ سب ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ کوئی بھی نظام انسان کے روحانی تقاضوں کو پورا نہیں کر سکا۔ اسلام کا اقتصادی نظام دنیا میں موجود تمام نظاموں سے بہترین ہے۔ اگر ہم اسلامی اقتصادی نظام کو مکمل طور پر لاگو کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کے فوائد اور برکات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔ 
اسلام کی اقتصادی تعلیمات انسانی فطرت سے مطابقت رکھتی ہے اس لیے یہ نظام انسان کی خوشحالی کا ضامن ہے۔ قرآن مجیدمیں بیان کی جانے والی اقتصادی تعلیمات میں انفاق فی سبیل اللہ اور صدقات و نافلہ کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : آپ ﷺ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔ فرمایا جو بھی ضرورت سے زائد ہو۔ ( سورۃ البقرۃ )۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی کوئی غم۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں رات کو اور دن کو خفیہ طور پر اعلانیہ طور پر۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین و پریشان ہوں گے۔ ( سورۃ البقرۃ )۔
سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ جنہوں نے اللہ کو قرض حسنہ دیا ان کے لیے کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور ان کے لیے عزت کا ثواب ہے۔ 
جو لوگ خود پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اور بخل نہیں کرتے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں ‘‘۔ ( سورۃ الحشر )۔ 
حضرت قتادہؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری طرف چند کلمات وحی کیے گئے جو میرے کان میں داخل ہو گئے اور میرے دل میں ٹھہر گئے ایک یہ کہ میں اس کے لیے مغفرت نہ چاہوں جو شرک کرتے ہوئے مرا اور دوسرا جس نے اپنا ضرورت سے زیادہ مال ضرورت مندوں کو دے دیا وہ اس کے لیے بہتر ہے اور جس نے روکے رکھا وہ اس کے لیے برا ہے یہ کہ بقدر کفاف رکھنے پر اللہ ملامت نہیں کرتا۔ 
حضرت علیؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا خوش بختی ہے اس کے لیے جس نے اپنا ضرورت سے زائد مال خرچ کیا اور جس نے فضول باتوں سے خود کو روکا۔

یقین کیوں ضروری ہے؟

جمعہ، 13 دسمبر، 2024

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 69-71 Part-02 .کیا ہم خالص د...

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 63-68 .کیا ہمارے دل دنیا کی ...

سیدہ خدیجة الکبری کے فضائل و مناقب (۲)

 

سیدہ خدیجة الکبری کے فضائل و مناقب (۲)

حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی جب حضور نبی کریم ﷺ سے شادی ہوئی اس وقت حضور نبی کریم ﷺ کی عمر مبارک 25 سال تھی اور جب تک حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور نبی کریم ﷺ کی رفاقت میں تھیں آپ نے دوسری شادی نہیں اور یہ اعزاز کسی اور ام المومنین کو حاصل نہیں۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا مردوں میں بہت سے لوگ بلند مقام و مرتبہ پر پہنچے ہیں مگر خواتین میں اس کما ل و مرتبہ پر پہنچنے والی صرف تین ہی ہیں۔ مریم صدیقہ ، حضرت آسیہ فرعون کی بیوی اور حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا۔ اور آپ نے فرمایا کہ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی دوسری عورتوں پر فضیلت ایسی ہے جیسے ثرید کی تمام کھانوں پر۔ (مسلم )۔
حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں ایک مرتبہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی بہن حضرت ہالہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا حضور نبی کریمﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئیں اور اندر آنے کی اجازت طلب کی۔ ان کا اجازت طلب کرنے کا انداز حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے ملتا تھا۔ حضور نبی کریم ﷺ کو حضرت خدیجہ ؓ کا اجازت طلب کرنا یاد آگیا۔ آپ نے نہایت ہی محبت سے فرمایا میرے اللہ یہ تو ہالہ ہے اور پھر حضرت ہالہ کو اندر آنے کی اجازت عطا فرما دی۔(بخاری )۔
ایک مرتبہ سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے عرض کی یارسول اللہ آپ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو اتنا کیوں یاد فرماتے ہیں تو آپ نے فرمایا : 
اے عائشہ مجھے خدیجہ سے بہترین عورت نہیں ملی جب لوگوں نے میری نبوت کا انکار کیا تو انہوں نے صدق دل سے میری نبوت کا اقرار کیا۔ جب لوگوں نے مجھے جھٹلایا تو اس وقت خدیجہ ؓ نے دل کھول کر میری تصدیق کی۔ جب لوگوں نے میرے ساتھ مالی تعاون روک دیا تو اس وقت حضرت خدیجہ ؓ نے اپنا ما ل و دولت سب کچھ میرے اوپر قربان کر دیا۔ باقی بیویوں سے اللہ تعالیٰ نے مجھے اولاد کی نعمت عطا نہیں فرمائی لیکن حضرت خدیجہؓ سے اولاد کی نعمت عطا فرمائی۔ ( بخاری )۔
حضور نبی کریم ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی وجہ سے ان کی سہلیوں کا بھی احترام کرتے تھے۔ نبی کریم ﷺ جب کوئی بکری ذبح کرتے تو حضرت خدیجہ ؓ کی سہلیوں کے گھر بھی گوشت بھیجا کرتے تھے۔
 اے ملیکة العرب حضرت خدیجہ السلام 
سارے نبیوں کا آقا تیرا دولہا السلام 
تیری عظمت کی گواہی دی ہے خود سرکار نے
سب خواتین جہان میں سب سے اعلی السلام

جمعرات، 12 دسمبر، 2024

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 51-62.کیا ہمیں اپنے رب پر با...

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 50 Part-02 .کیا ہم فقط طالب ...

سیدہ خدیجة الکبری کے فضائل و مناقب (۱)

 

سیدہ خدیجة الکبری کے فضائل و مناقب (۱)

حضور نبی کریم ﷺ کی پہلی زوجہ محترمہ ام المومنین سیدہ خدیجة الکبری بنت خویلد رضی اللہ تعالیٰ عنہا تھیں۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا قریش کے ایک ممتاز خاندان بنو اسد بن عبد العزی بن قصی سے تعلق رکھتی تھیں۔ اسلام میں داخل ہونے سے پہلے بھی اہل عرب میں طاہرہ کے لقب سے جانی جاتیں تھیں۔ مکہ والے آپ کے شرف و مرتبہ کو دیکھ کر سیدہ النساء قریش کے لقب سے پکارتے تھے ( تاریخ دمشق)۔ حضور نبی کریم ﷺ نے آپ کوافضل نساءاھل الجنہ کا لقب دیا۔ ( مسند احمد )۔
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ہر لحاظ سے کامل اور اکمل خاتون تھیں۔ نسب کے اعتبار سے ، شرافت کے اعتبار سے ، اخلاق کے لحاظ سے ،کردار کے لحاظ سے ، مال و دولت ، لوگوں کے ساتھ ہمدردی اور خیر خواہی کے اعتبار سے آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ایک یکتا شخصیت کی مالک تھیں۔ 
حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کو یہ شرف بھی حاصل ہے کہ جب حضور نبی کریمﷺ نے اعلان نبوت فرمایا اس وقت عورتوں میں سب سے پہلے آپ نے اسلام قبول کیا۔ جب لوگ حضور نبی کریم کو تکلیف پہنچاتے تو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا آپ کو تسلی دیتیں۔ آپ فرماتیں میرے آقا ہمارا رب ہمارے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہوتا ہے دنیا کی کوئی طاقت اسے شکست نہیں دے سکتی۔
زمانہ جاہلیت میں آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کفرو شرک ، شعر و شاعری ، گانا بجانا ، بتوں کی پوجا اور ہر طرح کی غیر اخلاقی سر گرمی سے دور رہیں۔ ایک مرتبہ حضرت جبریل امین حضور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوئے اور عرض کی یارسو ل اللہ حضرت خدیجہ ؓ آپ کے پاس سالن یا کھانے کا ایک برتن لے کر آ رہی ہیں جب وہ لے کر آئیں تو انہیں ان کے رب کی طرف سے سلام کہنا اور انہیں جنت میں موتی کےایک محل کی بشارت دیں جس میں نہ شور ہو گا اور نہ ہی کوئی تکلیف ہو گی۔ ( صحیح بخاری )۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ میں نے آپ  کی ازواج مطہرات میں سے کسی کے بارے میں اس قدر غیرت اور رشک کا اظہار نہیں کیا جس قدر سیدہ خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے بارے میں کرتی ہوں۔ کیونکہ حضور نبی کریم ﷺ انہیں بکثرت یاد فرمایا کرتے تھے۔ ام المومنین سیدہ خدیجہ حضور نبی کریم ﷺ کےساتھ جتنا عرصہ بھی رہیں۔ انہوں نے ہر مشکل وقت میں آپ کا ساتھ دیا۔ جب بھی کوئی حضورنبی کریمﷺ سے سختی سے پیش آتا آپ کو بہت تکلیف ہوتی۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا نے حضور نبی کریم ﷺ کی اپنی جان و مال کے ساتھ ہر مشکل وقت میں غم گساری اور خیر خواہی کی۔

یقین , شک

بدھ، 11 دسمبر، 2024

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 50 Part-01 .کیا ہمیں عذاب آخ...

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 12-49 .کیا کامیابی پیغمبرﷺ ک...

مومن کی مثال (۲)

 

مومن کی مثال (۲)

جو شخص گرمی سے بچنے کے لیے سایہ تلاش کرتا ہے درخت اسے سایہ مہیا کرتا ہے اور اپنے پاس سے گزرنے والوں کو اپنے خوشبو اور سر سبز و شاداب منظر کا تحفہ دیتا ہے ۔ جسے غذا کی ضرورت ہو درخت اسے مختلف اقسام کے لذیذ قسم کے پھل مہیا کرتا ہے اور جن کو ایندھن کی ضرورت ہوتی ہے وہ درخت کو کاٹ کر اپنی ایندھن کی ضروریات بھی حاصل کرتے ہیں ۔ اس کے علاوہ درخت کے ذریعے خوبصورت قسم کی گھریلو اشیاء اور فرنیچر بھی حاصل کیا جاتا ہے ۔ جس طرح کا بھی کوئی لمحہ آتا ہے درخت اسی طرح کا ثابت ہوتا ہے جس طرح اس سے امید کی جاتی ہے ۔ 
اس سب کے باوجود درخت ایک ایسا وجود ہے جو زمین میں اپنی جڑیں داخل کر کے خود اپنے بل بوتے پر کھڑا رہتا ہے اور زمین کی تہہ میں اس طرح گڑا ہوتا ہے کہ کوئی اسے اکھاڑ نہ سکے اور فضا میں اس طرح بلند ہوتا ہے کہ کائنات کی تما م چیزیں اس سے اپنی ضروریات حاصل کرتی ہیں ۔ 
قرآن مجید میں مومن کی مثال اس درخت سے دی گئی ہے اس سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ مومن کو کن خصوصیات کا حامل ہونا چاہیے ۔ مومن وہ ہے جس کے اندر وہی صفات انسانی سطح پر موجود ہوں جو درخت میں مادی سطح پر پائی جاتی ہیں ۔ مومن کو وہی کام اپنے شعور کے تحت کرنا ہے جو درخت طبعی قانون کے تحت سر انجام دے رہا ہے ۔ مومن کو خود اپنے ارادے سے اس طرح سر سبز دنیا کی تخلیق کرنی ہے جس کو ایک درخت قانون فطرت کی پابندی کے تحت وجود میں لاتا ہے ۔ 
درخت مٹی کے اندر سے نکلتا ہے ۔ مومن کا درخت روحانیت کی ربانی زمین پر اگتا ہے ۔ درخت دنیا کے مادی اجز ا سے بنتا ہے اور مومن عالم آخرت کے جنتی اجزا سے ۔ عام درخت مادی دنیا کا درخت ہے تو مومن انسانی دنیا کا درخت ہے ۔ درخت ایک نمو پذیر وجود ہے اسی طرح مومن بھی ایک نمو پذیر وجود ہے ۔ مومن وہ انسان ہے جو ربانی فکر کی بنا پر اس قابل ہو جاتا ہے کہ ساری کائنات اس کے لیے معرفت کا دترخوان بن جائے ۔ 
دنیا کی زندگی امتحان کی زندگی ہے یہاں کچھ مل جانا بھی آزمائش ہے اور کچھ نا ملنا بھی آزمائش ہے مومن وہ ہے جو دونوں حالتوں میں اللہ تعالی کی رضا پر راضی رہے وہ منفی تجربات کومثبت تجربات میں تبدیل کر سکے اور دنیا میں رہتے ہوئے مکمل طور پر آخرت کا طالب بن جائے ۔ 
ایسے لوگوں کے لیے ہی قرآن مجید میں نفس المطمئنہ کا ذکر آیا ہے ۔یہی وہ لوگ ہیں جنہیں جنت میں اللہ تعالی کی ہمسائیگی ملے گی اور انہیں جنت کے باغوں میں داخل کیا جائے گا ۔ اور وہ ہمیشہ راحتو ں اور خوشیوں میں زندگی گزاریں گے ۔ 

باطنی نتائج سے کیا مراد ہے؟

اچھے ارادے کے نتائج کب شروع ہوتے ہیں؟

منگل، 10 دسمبر، 2024

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayat 10-11 .کیا ہم ظالم لوگ ہیں

Surah Al-Shuara (سُوۡرَةُ الشُّعَرَاء) Ayt 07-09.کیا ہم اپنی حقیقت پر یق...

مومن کی مثال (۱)

 

مومن کی مثال (۱)

مسلمان ہونے کے ناطے ہمارا سب سے پہلا تعلق اپنے رب کریم سے ہے کیونکہ وہی ہمارا خالق و مالک ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :
” ایمان والے وہی ہیں کہ جب ان کے سامنے اللہ کا ذکر کیا جائے تو ان کے دل ڈر جاتے ہیں اور جب ان کے سامنے اس کی آیتیں پڑھی جائیں تو ان کا ایمان ترقی پائے اور اپنے رب ہی پر بھروسہ کریں “۔ (سورة الانفال )۔
مسلمان کے اعلی اوصاف میں سے یہ بھی ہے کہ وہ صرف اپنی ہی نہیں بلکہ دوسرے مسلمان کی بھی فکر کرتا ہے اسی لیے وہ ان کی دنیا وآخرت کی بھلائی کے لیے انہیں نیکی کا حکم دیتا ہے اور برائی سے منع کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :” مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں ایک دوسرے کے رفیق ہیں بھلائی کا حکم دیں اور برائی سے منع کریں “۔( سورة التوبہ )۔
مومن کی مثال ایک درخت کی طرح ہے۔ درخت کی تخلیق اللہ تعالیٰ کے حکم سے ایک چھوٹے سے بیج سے ہوتی ہے۔ بیج کے اندر وہ تمام امکانات نہایت کاریگری کے ساتھ سموئے ہوتے ہیں کہ جب بھی اس کو موافق حالات ملیں وہ ایک درخت کی صورت میں اپنے آپ کو ظاہر کرنا شروع کر دے۔ 
بیج کو جب مٹی کے اندر بویا جاتا ہے تو اچانک وہ پوری کائنات سے اس طرح جڑ جاتا ہے جیسے کہ ساری کی ساری کائنات صرف اسی کی پرورش کے لیے بنائی گئی ہو۔ مٹی نرم ہو کر اسے موقع دیتی ہے کہ وہ اس کے اندر اپنی جڑوں کو داخل کر سکے۔ پھر بیکٹیریا اس کی جڑوں میں جمع ہو جاتے ہیں تا کہ وہ فضا سے نائٹروجن الگ کر کے اس کی خوراک فراہم کرے۔ زمین کی تہیں اپنی معدنیات اور نمکیات کو پانی میں گھول کر اس کی جڑوں کو پہنچاتی ہیں تاکہ وہ ایک بڑے درخت کی شکل اختیار کر لے۔ اللہ تعالیٰ کے حکم سے کائنات کا پورا کارخانہ متحرک ہو جاتا ہے کہ اس کے لیے مختلف موسم پیدا کر کے اسے ایک مکمل درخت کی شکل میں کھڑا کر دے۔ یہ درخت کائنات سے اس طرح ہم آہنگ ہو جاتا ہے کہ کہیں بھی ماحول کی دوسری چیزوں سے اس کا ٹکراﺅنہیں ہوتا۔ درخت اگرزمین سے پانی لیتا ہے تو درخت زمین سے لی ہوئی رطوبت کو اپنے پتوں کے ذریعہ خارج کر کے بارش برسانے میں معاون بنتا ہے۔درخت اگر زمین سے اپنی خوراک حاصل کرتا ہے تو خود بھی اپنے پتوں اور پھلوں کو زمین پر گرا کر اس کی زرخیزی میں اضافہ کرتا ہے۔درخت اگر ہوا سے کاربن ڈائی اوکسائیڈ لیتا ہے تو وہ اس کے بدلے آکسیجن بھی دیتا ہے جس کے ذریعے ہم سانس لے سکتے ہیں۔درخت کائنات سے الگ ہو کر بھی کائنات سے اس طرح جڑا ہوتا ہے کہ کائنات کی کسی چیز سے اس کا ٹکراونہیں ہوتا۔

پیر، 9 دسمبر، 2024

Surah Al-Shuara Ayat 06 .کیا ہم قرآن پاک سے نصیحت حاصل کرنے کے لیے تیار...

Surah Al-Shuara Ayat 01-05 .کیا ہم اپنی غلط روش زندگی کو ترک کرنے پر آما...

تلاوت قرآن کی اہمیت

 

تلاوت قرآن کی اہمیت

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا قول ہے کہ جس نے قرآن مجید کو پڑھا وہ کبھی ناکارہ عمر تک نہیں پہنچے گا ۔ (الترغیب الترہیب) 
اس اثر میں قرآن مجید پڑھنے سے مراد قرآن مجید کا ترجمہ اور تفصیل کے ساتھ مطالعہ کرنا ہے ۔ جو شخص قرآن مجید کا گہرا مطالعہ کرتا ہے قرآن مجید سے اسے مسلسل فکری غذا ملتی رہتی ہے اور یہ فکری غذا آدمی کو مسلسل توانائی فراہم کرتی رہتی ہے ۔ اس کا اثر یہ ہو گا کہ وہ ناکارہ عمر تک نہیں پہنچے گا ایسے آدمی کا جسم بوڑھا ہو گا لیکن اس کا دماغ کبھی بھی بوڑھا نہیں ہو گا ۔ مادی غذا جس طرح جسم کو طاقت بخشتی ہے اسی طرح فکری دریافتیں انسان کو توانائی مہیا کرتی ہیں ۔ 
سورة بنی اسرائیل میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : نماز قائم رکھو سورج ڈھلنے سے رات کی اندھیری تک اور صبح کا قرآن بیشک صبح کے قرآن میں فرشتے حاضر ہوتے ہیں ۔ 
روایات میں ہے کہ صبح سویرے کا وقت ایک خصوصی وقت ہے ۔ اس وقت فرشتوں کا زیادہ بڑا اجتماع ہوتا ہے ۔ اس طرح فرشتوں کی زیادہ بڑی تعداد نمازی کی قرا ت کی گواہ بن جاتی ہے ۔ صبح کے وقت فرشتوں کا زیادہ بڑا اجتماع کوئی پر اسرار چیز نہیں ۔ فرشتوںکا خاص کام یہ ہے کہ وہ انسان کے اندر ربانی کیفیات پیدا کریں ۔ صبح کا پر سکون وقت اسی ملکوتی عمل میں خصوصی طور پر مدد گار ثابت ہوتا ہے ۔ 
جب بندہ فجر کی نماز میں قرآن مجید کی تلاوت سنتا ہے اور نماز کے بعد کھلی فضا میں جائے جہاں سر سبز و شاداب درخت ہو ں اور فطرت کا ماحول ہو اس وقت جب قرآن کے پیدا کردہ ذہن کو لے کر فطرت پر غور کرتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آپ کی قرآنی سوچ اور خارجی ماحول دونوں ایک ہو گئے ہیں ۔ فطرت کے مناظرخاموش زبان میں گواہی دے رہے ہیں کہ قرآنی فکر کے تحت جو کچھ آپ سوچ رہے ہیں وہ بغیر کسی شک و شبہ کے ایک حقیقت ہے ۔ 
قرآن کی تلاوت سادہ طور پر ایک کتاب کی تلاوت نہیں بلکہ یہ اللہ تعالیٰ کے کلام کا مطالعہ ہے یہ بالواسطہ خدا سے ہم کلام ہونا ہے  ایسی حالت میں قرآن مجید کے درمیان اس کے مطابق کیفیات کا ظہور ہو نا چاہیے اگر اس غیر معمولی کلام سے مطابقت رکھنے والی کیفیات انسان میں پیدا نہیں ہوتی تو اس کا مطلب ہے کہ وہ غفلت میں مبتلا ہے اور اس نے زندہ شعور کے ساتھ قرآن پڑا ہی نہیں
قرآن کو پڑھتے وقت کیفیت ایسی ہونی چاہیے کہ آدمی کے اوپر ہیبت طاری ہو جائے اور وہ اپنے آپ کو خدا کے قریب سمجھنے لگے اور قرآن مجید کا پڑھنا اسے خدا سے ملا دے ۔ بندہ قرآن میں ایک طرف اپنی عبدیت کو پا لے اور دوسری طرف خدا کی معبودیت اور اس کے جلال کو۔

اتوار، 8 دسمبر، 2024

Surah Al-Furqan (سُوۡرَةُ الفُرقان) Ayat 77 Part-03.کیا واقعی دین اسلام ...

ذکر اور دعا

 

ذکر اور دعا

حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا سب سے افضل ذکر لا الہ الا اللہ اور سب سے بہترین دعا الحمدللہ ہے۔( ابن ماجہ )۔
ذکر اور دعا صاحب معرفت انسان کے تخلیقی کلمات ہیں۔ انسان کی زندگی میں مختلف واقعات پیش آتے رہتے ہیں۔ اگر آدمی کے اندر سوچنے کی صلاحیت ہو تو وہ اس بات کو ضرور سمجھ لے گا کہ ان مواقعوں پر اللہ تعالیٰ کی یاد کا کوئی نہ کوئی پہلو لازمی موجود ہے۔ آدمی کو چاہیے کہ ان لمحات میں جس قدر ہو سکے رب ذوالجلال کا ذکر کرے اور کثرت کے ساتھ دعا کرے۔ ایک روایت میں ہے حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہر موقع پر اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتے یا پھر مالک کائنات سے دعا فرماتے تھے۔ 
ترمذی شریف کی روایت ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا دعا عبادت کا مغز ہے۔ ترمذی شریف ہی کی دوسری روایت میں ہے کہ فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے دعا ہی اصل عبادت ہے۔
 یہ بات قرآن و حدیث میں مختلف انداز میں بیان کی گئی ہے دعا کا عین عبادت ہونا فطری ہے۔ کیوں کہ انسان جب اللہ تعالیٰ کے وجود کو اس کی صفات کمال کے ساتھ دریافت کرتا ہے تو اسی کے ساتھ انسان یہ بھی دریافت کرتا ہے کہ خدا کے مقابلے میں میں بالکل بے حقیقت ہوں۔
خدا آقا ہے میں بندہ ہوں ، خدا دینے والا ہے اور میں طالب ہوں ، خدا حاکم ہے اور میں محکوم ہوں۔ خدا قادر مطلق ہے اور میں عاجز اور محتاج ہوں۔ یہی احساس بندے کو فوری طور پر اللہ تعالیٰ کے سامنے دعا گو بنا دیتا ہے۔ 
دعا ہی وہ سب سے بڑا رشتہ ہے جس کے ذریعے بند ہ اپنے رب سے مربوط ہوتا ہے۔ دعا خدا اور بندے کے درمیان اتصال کا ذریعہ ہے۔ انسان جو کچھ بھی حاصل کرتا ہے دعا سے حاصل کرتا ہے۔ اور تمام اعمال کا مقصد آدمی کو خدا سے دعا کرنے والا بنانا ہے تا کہ وہ خدا سے پانے والا بن جائے۔ 
دعا صرف کچھ الفاظ کی تکرار نہیں بلکہ دعا ایک عمل ہے بلکہ دعا سب سے بڑا عمل ہے جس طرح حقیقی عمل کبھی بے نتیجہ نہیں رہتا اسی طرح حقیقی دعا بھی کبھی بے نتیجہ نہیں رہتی۔ جب کوئی بندہ حقیقی دعا کرتا ہے تو وہ گویا اپنے معاملات کو خدا کے سپرد کر دیتا ہے اور جب معاملات خدا کے سپر د تو اللہ تعالیٰ ضرور ان کو پورا کر دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ذکر کرنے اور اس کی بارگاہ میں دست التجا بلند کرنے سے انسان کو اطمینان قلب نصیب ہوتا ہے اور اسے پریشانیوں سے نجات ملتی ہے۔

Surah Al-Furqan Ayat 77 Part-02 .کیا ہم اللہ تعالی سے غافل ہو کر زندگی ...

Surah Al-Furqan (سُوۡرَةُ الفُرقان) Ayat 77 Part-01.کیا ہم صرف اپنے رب ک...

ہفتہ، 7 دسمبر، 2024

دنیا سے بے رغبتی

 

دنیا سے بے رغبتی

اللہ تعالیٰ نے بندوں کو دنیا میں اپنی بندگی کے لیے بھیجا۔ لیکن بندہ اپنا اصل مقصد چھوڑ کر دنیا کی ظاہری رنگینیوں میں مبتلا ہو جائے تو پھر اس میں اس کے لیے کوئی بھلائی نہیں کیونکہ  دنیا کا مال نہایت قلیل اور ختم ہونے والا اور زوال پذیر ہے۔اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک بھی اس کی کوئی اہمیت نہیں۔ حدیث مبارکہ میں آتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک دنیا کی حیثیت مچھرکے پر کے برابر بھی نہیں ہے۔ اس لیے بندے کو چاہیے کہ وہ دنیا سے دل نہیں لگائے اور دنیا کی محبت کو اپنے دل سے نکال دے۔
دانشوروں کا قول ہے کہ شریف وہ ہے جس کو دنیا کی محبت رنج و تکلیف میں نہ ڈالے کیونکہ دنیا کی مکروہات میں مبتلا ہو کر آدمی کسی کام کا نہیں رہتا۔ بلکہ یہاں تک کہا گیا کہ جس کو دنیا مل جائے اور وہ اس کو حاصل کرکے کے خوش ہو تو اس سے بڑا احمق کوئی نہیں ہے۔
 حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : کیا کوئی ایسا شخص ہو سکتا ہے کہ وہ پانی پر چلے مگر اس کے پائوں گیلے نہ ہوں۔ صحابہ کرام نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ نہیں۔آپ ﷺ نے فرمایا دنیا دار گناہوں سے نہیں بچ سکتا۔ (بہیقی ، شعب الایمان)۔
یعنی جو دنیا میں مبتلا ہو گیا اس کے لیے گناہوں سے بچنا ممکن نہیں۔ اس لیے ضرورت سے زیادہ مال جو اللہ تعالیٰ کی یاد سے انسان کو غافل کر دے اور انسان کو متکبر بنا دے نقصان دہ ہے۔ حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا : جس شخص نے حلال دنیا (روزی) تلاش کی تا کہ گدا گری سے بچے ، اپنے گھر والوں کی خدمت اور پڑوسی کے ساتھ تعاون کرے وہ اللہ تعالیٰ سے قیامت کے دن اس حال میں ملے گا کہ اس کا چہرہ چودھویں کے چاند کی طرح چمک رہا ہو گا اور جس نے دنیا اس لیے طلب کی کہ وہ اپنا مال فخر ، تکبر اور دکھاوے کے لیے بڑھائے تو وہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ سے اس حال میں ملے گا کہ اللہ تعالیٰ اس سے سخت ناراض ہو گا ( مشکوۃ شریف)۔
 حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جب بندہ دنیا سے بے رغبتی کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کے دل میں حکمت کا چشمہ جاری کر دیتا ہے۔ اس سے اس کی زبان میں گویائی عطا کرتا ہے اسے دنیا کے عیوب اس کی بیماریوں اور اس کے علاج سے آگاہ کر دیتا ہے۔اور اسے دنیا سے سلامتی کے ساتھ جنت کی طرف لے جاتا ہے۔(بہیقی ، شعب الایمان)۔

منافق کا ٹھکانہ

جمعہ، 6 دسمبر، 2024

Surah Al-Furqan (سُوۡرَةُ الفُرقان) Ayat 74 .کیا ہم قرآن سے نصیحت حاصل ک...

غصہ پینے کی فضیلت

 

   غصہ پینے کی فضیلت

غصہ کرنا انتہائی بری عادت ہے۔ اس سے بہت سارے کام بگڑ جاتے ہیں اور انسان بہت سے قیمتی رشتوں کو کھو بیٹھتا ہے۔غصہ کرنے سے اللہ تعالی کی ناراضگی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ اپنی دنیا اور آخرت بہتر بنانے کے لیے ہمیں چاہیے کہ اپنے اندرسے غصہ جیسی بری عادت کو ختم کریں۔ جو لوگ اپنے غصہ پر قابو رکھتے ہیں ان کو اللہ تعالی اپنے پسند یدہ بندے قرار دیتاہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
”وہ جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں خوشی میں اور رنج میں اور غصہ پینے والے اور لوگوں سے در گزر کرنے والے اور نیک لوگ اللہ کے محبوب ہیں۔ ( سورة آل عمران )۔
سورة الشوری میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : ” اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی سے پرہیز کرتے ہیں اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں “۔ 
” اور برائی کا بدلہ اسی کی برابر برائی ہے تو جس نے معاف کیا اور کام سنوار لیا تو اس کا اجر اللہ پر ہے بیشک وہ دوست نہیں رکھتاظالموں کو ( سورة الشوری)۔
بخاری شریف میں ہے کہ ایک شخص نے حضور نبی کریم سے عرض کیا مجھے وصیت فرمائیں۔ آپ نے فرمایا غصہ مت کیا کرو۔ اس نے پھر عرض کی یارسول اللہ  مجھے وصیت فرمائیں تو آپ  نے پھر یہی فرمایا کہ غصہ مت کیا کرو۔ (بخاری شریف)۔ 
حضرت سیدنا ابو الدردا رضی اللہ تعالی عنہ نے حضور  کی بارگاہ اقدس میں عرض کی یارسول اللہ  مجھے کوئی ایسا عمل ارشاد فرمائیں جو مجھے جنت میں لے جائے تو آپنےفرمایا غصہ نہ کرو ، تو تمہارے لیے جنت ہے۔ ( مجمع الزوائد)۔
بخاری شریف میں ہے کہ حضور نبی کریمنے ارشاد فرمایاکہ طاقتور وہ نہیں جو پچھاڑ دے بلکہ طاقتور وہ ہے جو غصہ کے وقت اپنے آپ کو قابو میں رکھے۔
 حضور نے ارشاد فرمایا: جو شخص اپنا غصہ روک لے اللہ تعالی قیامت کے دن اس سے عذاب روک لے گا اور جس نے اللہ تعالی کی بارگاہ میں عذر پیش کیا اللہ تعالی اس کا عذر قبول فرمائے گا۔حضور نبی کریم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالی کے نزدیک اس غصہ کے گھونٹ سے بہتر گھونٹ نہیں جو اللہ تعالی کی رضا کی خاطرپی لیا گیا۔ ( اشعة اللمعات )۔
حضور نبی کریمنے ارشاد فرمایا جو غصہ پی جائے گا حالانکہ کہ وہ نافذ کرنے پر قدرت رکھتا تھا تو اللہ تعالی قیامت کے دن اس کے دل کو اپنی رضا سے معمور فرمائے گا۔ ( کنزالعمال)۔

1978 اصل منافق کون ہے ؟

جمعرات، 5 دسمبر، 2024

Surah Al-Furqan (سُوۡرَةُ الفُرقان) Ayat 73. کیا قرآن پاک کو ہم سمجھنا ہ...

Surah Al-Furqan (سُوۡرَةُ الفُرقان) Ayat 72. کیا ہماری زندگی لغویات پر م...

عالم کون؟

 

عالم کون؟

حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا روئے زمین پر اہل علم کی مثال ستاروں کی طرح ہے جس سے بحرو بر کی تاریکیوں میں رہنمائی حاصل کی جاتی ہے اور اگر ستارے روپوش ہو جائیں تو راستہ پانے والوں کے بھٹک جانے کی صورت پیدا ہو جاتی ہے ۔ ( مسند احمد ) 
حضرت عبد اللہ بن مبارک سے دریافت کیا گیا انسان کن لوگوں کو قرار دیا جا سکتا ہے فرمایا اہل علم کو ، پھر پوچھا گیا کہ بادشاہ کسے قرار دیا جا سکتاہے فرمایا اہل زہدو تقوی کو ۔ ( احیائے علوم الدین ) 
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کرنا چاہتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دین کی سمجھ عطا فرما دیتا ہے ۔ (بخاری شریف )
ارشاد باری تعالیٰ ہے حقیقت یہ ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے صرف علم رکھنے والے لوگ ہی اس سے ڈرتے ہیں ۔ (سورة الفاطر ) 
عبد اللہ بن مسعود ؓ فرماتے ہیں علم کی کثرتِ حدیث کی بنا پر نہیں ہے بلکہ خوف خدا کی کثرت کے لحاظ سے عالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے بے دیکھے ڈرے جو کچھ اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اس کی طرف راغب ہو اور جس چیز سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے اس سے اسے کوئی دلچسپی نہ ہو ۔ ( تفہیم القرآن ) 
مجاہد رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں عالم وہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے ۔ ربیع بن انس رحمة اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں جس کے دل میں خوف خدا نہیں وہ عالم نہیں ۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں اگر دل میں خوف خدا پیدا ہو جائے تو انسان کے لیے اتنا ہی علم کافی ہے اور اس سے بڑی جہالت کوئی نہیں کہ انسان خدا سے غرور کرنے لگے ۔
شیر خدا سیدنا علی المرتضی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں فقیہہ اور عالم وہ ہے جولوگوں کو اللہ تعالیٰ کی رحمت سے مایوس نہ کرے اور خدا کی نافرمانی پر انہیں جری نہ کرے خدا کے عذاب سے انہیں بے خوف نہ کرے اور قرآن کے بغیر اسے کوئی چیز اپنی طرف راغب نہ کرسکے ۔ ( قرطبی ) 
سفیان ثوری کہتے ہیں علماءکی تین اقسام ہیں ۔ عالم با اللہ اور عالم با مراللہ ، یہ وہ ہے جو اللہ سے ڈرتا اور اس کے حدود فرائض جانتا ہے ۔ دوسراصرف عالم با للہ جو اللہ سے ڈرتا ہے لیکن اس کے حدود و فرائض سے بے خبر ہے اور تیسرا عالم با مراللہ جو حدود فرائض سے با خبر ہے لیکن خشیت الٰہی سے عاری ہے ۔ ( ابن کثیر ) 
صحیح عالم کا منبع حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی معرفت ہے جس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت نصیب نہیں ہوئی وہ علم سے بالکل محروم ہے اگرچہ وہ دنیا جہاں کی کتابیں بڑھ لے ۔ جس کو اللہ تعالیٰ کی معرفت ہو گی اس کے اندر خشیت الٰہی بھی ہو گی ۔ اگر کوئی خشیت الہی سے محروم ہے اس کا مطلب ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی معرفت سے بھی محروم ہے ۔ 

بدھ، 4 دسمبر، 2024

Surah Al-Furqan (سُوۡرَةُ الفُرقان) Ayat 71 .سچی توبہ کے فوائد

فرامینِ مصطفی ﷺ

 

فرامینِ مصطفی ﷺ

مسلمانوں کی ہدایت اور رہنمائی کے لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید فرقان حمید نازل فرمایا اور حضور نبی کریم ﷺ نے احادیث مبارکہ قرآن مجید کی تشریح کا پہلا ماخوذ ہے ۔ اسی لیے ہدایت و رہنمائی کے لیے قرآن مجید اور احادیث مبارکہ دونوں کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ اگر ہم حضورنبی کریمﷺ کے فرامین اور سیرت کے مطابق زندگی بسر کریں گے تو ہماری زندگی انتہائی خوشگوار ہو جائے گی اور ہم دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت میں بھی سر خرو ہوں گے ۔ حضور نبی کریمﷺ کے چند فرامین درج ذیل ہیں ۔ 
۱: ظلم قیامت کے دن اندھیروں کی صورت میں ہو گا ۔ ۲: اللہ تعالیٰ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا ۔ ۳: جو شخص نرمی سے محروم رہا وہ ساری بھلائی سے محروم رہا ۔ ۴: پہلوان وہ نہیں جو اپنے مخالف کو بچھاڑ دے بلکہ پہلوان وہ ہے جو غصے کے وقت اپنے نفس پر قابو رکھے ۔ ۵: جب تم حیا نہ کرو تو جو چاہے کرو ۔ ۶: حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا مسلمان کے مسلمان پر پانچ حق ہیں : اس کے سلام کا جواب دینا، مریض کی عیادت کرنا ، جنازے کے ساتھ جانا ، اس کی دعوت قبول کرنا اور جب کسی کو چھینک آئے تو ’یرحمک اللہ‘ کہہ کر جواب دینا۔ ۷: اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب اعمال میں زیادہ محبوب عمل وہ ہے جو دائمی ہو اگرچہ تھوڑا ہو ۔ ۸: دنیا مسلمان کے لیے قید خانہ اور کافر کے لیے جنت ہے ۔ ۹: دنیا میں ایسے رہو جیسے مسافر یا راہ گیر رہتاہے ۔ ۱۰: چغل خور جنت میں داخل نہیں ہو گا ۔ ۱۱: وہ شخص کامیاب ہو گیا جو ایمان لایا اور جس کو بقدر کفایت رزق مل گیا اور اللہ تعالیٰ نے اس کو اپنی روزی پر قناعت دے دی ۔ ۱۲: اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا ،والدین کی نافرمانی کرنا، کسی بے گناہ کو قتل کرنا اور جھوٹی شہادت دینا کبیرہ گناہوں میں سے ہے ۔ ۱۳: انسان کے جھوٹا ہونے کے لیے اتنا ہی کافی ہے کہ وہ جو بات سنے اسے بغیر تحقیق کیے آگے پہنچا دے ۔۱۴: آپؐ نے فرمایا : کھائو پیو ، پہنو اور صدقہ کرو مگر اصراف کے ساتھ ۔ ۱۵: آپس میں قطع تعلق نہ کرو اور ایک دوسرے کے در پے نہ ہو اور آپس میں بغض نہ رکھو اور حسد نہ کرو اور اے اللہ کے بندو سب بھائی بن کر رہو ۔ ۱۶: حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا تم میں سے میرے نزدیک سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اخلاق کے لحاظ سے اچھا ہے ۔ ۱۷: مسلمان کے لیے یہ حلال نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی کے ساتھ قطع تعلق رکھے ۔ ۱۸: مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص مجھ پر ایک مرتبہ درود سلام بھیجتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس رحمتیں نازل فرماتا ہے ۔

حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ(۲)

  حضرت سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ عنہ(۲)  آپ نے اسلام کی حالت ضعف میں کل مال و متاع ، قوت قابلیت اور جان و اولاد اور جو کچھ پاس تھاسب کچھ انف...