اسلام اوراقتصادی تعلیمات (۱)
انسان روح اور جسم کا مجموعہ ہے۔ اس لیے انسان کے لیے وہی دین ہوگا جو جسم اور روح دونوں کے تقاضوں کو پورا کرے۔ اسلام کے علاوہ کوئی بھی مذہب ایسا نہیں جو انسان کے جسم اور روح دونوں کی ضروریات کو پورا کر سکے۔ دنیا میں جتنے بھی معیشت کے نظام قائم ہیں وہ سب ناکام ہو چکے ہیں کیونکہ کوئی بھی نظام انسان کے روحانی تقاضوں کو پورا نہیں کر سکا۔ اسلام کا اقتصادی نظام دنیا میں موجود تمام نظاموں سے بہترین ہے۔ اگر ہم اسلامی اقتصادی نظام کو مکمل طور پر لاگو کرنے میں کامیاب ہو جائیں تو اس کے فوائد اور برکات سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
اسلام کی اقتصادی تعلیمات انسانی فطرت سے مطابقت رکھتی ہے اس لیے یہ نظام انسان کی خوشحالی کا ضامن ہے۔ قرآن مجیدمیں بیان کی جانے والی اقتصادی تعلیمات میں انفاق فی سبیل اللہ اور صدقات و نافلہ کی اہمیت کو بیان کیا گیا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : آپ ﷺ سے پوچھتے ہیں کہ کیا خرچ کریں۔ فرمایا جو بھی ضرورت سے زائد ہو۔ ( سورۃ البقرۃ )۔
جو لوگ اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال خرچ کرتے ہیں ان کو نہ کوئی خوف ہو گا اور نہ ہی کوئی غم۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور جو لوگ اپنے مال خرچ کرتے ہیں رات کو اور دن کو خفیہ طور پر اعلانیہ طور پر۔ ان کے لیے ان کے رب کے پاس بڑا اجر ہے اور انہیں نہ کوئی خوف ہے اور نہ وہ غمگین و پریشان ہوں گے۔ ( سورۃ البقرۃ )۔
سورۃ الحدید میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ’’ صدقہ دینے والے مرد اور صدقہ دینے والی عورتیں اور وہ جنہوں نے اللہ کو قرض حسنہ دیا ان کے لیے کئی گنا بڑھا دیا جائے گا اور ان کے لیے عزت کا ثواب ہے۔
جو لوگ خود پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں اور بخل نہیں کرتے ان کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’اور وہ اپنی جانوں پر ترجیح دیتے ہیں اگرچہ انہیں خود حاجت ہو اور جو اپنے نفس کے لالچ سے بچا لیا گیا تو وہی لوگ کامیاب ہیں ‘‘۔ ( سورۃ الحشر )۔
حضرت قتادہؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری طرف چند کلمات وحی کیے گئے جو میرے کان میں داخل ہو گئے اور میرے دل میں ٹھہر گئے ایک یہ کہ میں اس کے لیے مغفرت نہ چاہوں جو شرک کرتے ہوئے مرا اور دوسرا جس نے اپنا ضرورت سے زیادہ مال ضرورت مندوں کو دے دیا وہ اس کے لیے بہتر ہے اور جس نے روکے رکھا وہ اس کے لیے برا ہے یہ کہ بقدر کفاف رکھنے پر اللہ ملامت نہیں کرتا۔
حضرت علیؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ایک مرتبہ خطبہ دیتے ہوئے ارشاد فرمایا خوش بختی ہے اس کے لیے جس نے اپنا ضرورت سے زائد مال خرچ کیا اور جس نے فضول باتوں سے خود کو روکا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں