اسلام اوراقتصادی تعلیمات (۲)
اسلام کی اقتصادی تعلیمات میں بنی نوع انسان کی تمام فکری ، ذہنی ، جسمانی اور روحانی ضروریات کو پورا کرنے کی صلاحیت موجود ہے ۔ اسلام میں دولت کو خرچ کرنے ، اس کو کمانے اور دولت کو تقسیم کرنے کے بے مثال اصول وضع کیے گئے ہیں ۔ یہ رہنما اصول اسلام کے اقتصادی نظام کی اساس ہیں ۔ اسلام کے اقتصادی نظام کی خصوصیات میں رضائے الٰہی کا اصول ، بنیادی ضروریات کی فراہمی ، ارتکازو دولت کی ممانعت ، معاشرتی فلاح و بہبود ، خود کفالت ، زکوة اور عشر کا نفاذ، سود کی حرمت ، میانہ روی ، قانون وراثت ، زاتی ملکیت کا تصور اور حلال و حرام کی تمیز وغیرہ شامل ہے ۔
اسلام میں معاشی ضابطوں کا دارو مدار عدل اور احسان پر ہے یہ دونوں اصطلاحات نہایت جامعیت اور کاملیت کی حامل ہیں ۔
ارشاد باری تعالی ہے :’ پس رشتہ داروں کو ان کا حق دو اور مسکین و مسافر کو یہ طریقہ بہتر ہے اور ان لوگوں کے لیے جو اللہ کی خوشنودی چاہتے ہوںاور وہی فلاح پانے والے ہیں ۔ اس اصول کو اپنانے سے مسلمانوں میں ہمدردی ، رحم ، شفقت ، ایثار و قربانی اور حقوق شناسی کے احساسات نمایا ں ہوتے ہیں جن کے تحت وہ دوسروں کے مشکل لمحات و اوقات میں اپنا کردار ادا کرتے ہیں ۔ سب سے پہلے ہے اصول صرف اللہ تعالیٰ نے تین باتوں کی نشاندہی فرما کر حقیقت حال کو بیان فرما دیا ہے ۔ پہلی یہ کہ باغ کھیت اور جانور اور تمھارا سارا مال و متا ع سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے ۔ دوسری یہ کہ جب یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی طرف سے عطا کردہ ہے تو اسے اسی کے احکامات کے مطابق خرچ کرو اور تیسری یہ کہ جن اشیاءکو اللہ تعالیٰ نے حلال کیا ہے انھیں غیر شرعی طریقوں سے حرام نہ کر لیاجائے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’ اے ایمان والو،جو پاک چیزیں اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہیں انھیں حرام نہ کر لو اور حد سے نہ بڑھو بے شک اللہ حد سے بڑ ھنے والو ں کو پسند نہیں فرماتا ۔ اور کھاﺅ جو کچھ اللہ نے تمھیں روزی دی حلال پاکیزہ اور ڈرو اللہ سے جس پر تمھیں ایمان ہے “۔ ( سورة المائدہ)
اس کے بعد ہے اصول اعتدال : اسلامی نظام اصول یہ ہے کہ جو کچھ تمھیں اللہ تعالیٰ نے رزق دیا ہے اسے اسی کے متعین کردہ اصولو ں کے مطابق خرچ کرو اور کسی بھی قسم کی افراط و تفریط کی ممانعت کرتے ہوئے اعتدال اور میانہ روی اختیار کرو ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ‘۔( سورة الفرقان )
یعنی کے خرچ کرتے ہوئے نہ ہی حد سے بڑھیں کہ بعد میں پریشانی کا سامنا کرنا پڑھے اور نہ ہی کنجوسی کریں ۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں