سیدنا صدیق اکبر ؓ اور تصوف(۱)
حضور سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمة اللہ علیہ اپنی تصنیف ”فتوح الغیب “ میں لکھتے ہیں کہ تصوف آٹھ خصلتوں پر مبنی ہے۔سخاوت ابراہیم ؑ، رضائے اسحاق ، صبر ایوبؑ، مناجات زکریاؓ ، غربت یحییٰ ؓ، خرقہ پوشی موسی ؑ، تجرد عیسیؑ اور فقر محمد ۔
ان ساری صفات پر غور کرنے اور بڑے بڑے صوفیاوں پر نظر دوڑانے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ سب سے پہلا اور بڑا صوفی وہ ہے جسے پہلا صحابی بننے کا شرف حاصل ہوا۔ سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ان تمام صفات کا مظہر تھے۔ سخاوت اگر صوفی ہونے کی دلیل ہے تو سیدنا صدیق اکبر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بڑ اسخی کون ہو سکتا ہے کہ جب سارا عرب مال و متاع جمع کرنے میں مصروف تھا سیدنا صدیق اکبر ؓ نے اپنا سب کچھ نبی کریمﷺ کے قدموں پر نچھاور کر دیا۔ اگر اپنے محبوب کے سامنے سر تسلیم خم کرنے اور راضی برضا ہونے کا نام تصوف ہے تو سیدنا صدیق اکبر ؓ اس کا ٹھوس نمونہ ہیں۔
حضور نبی کریم ﷺ کی معراج سے واپسی پر جب ابو جہل سید نا صدیق اکبر ؓ کے پاس جاتا ہے کہ اگر آپ کا دوست یہ کہے کہ میں راتوں رات آسمانوں کی سیر کر کے واپس لوٹا ہوں تو یہ کوئی کیسے مان لے۔ آپ نے کہا کہ کس نے یہ کہا ہے۔ ابو جہل نے کہا نبی کریم ﷺنے تو فرمایا ہے تو صدیق اکبر نے کہا کہ اگر میرے محبوب نے کہا ہے تو اس میں کوئی شک نہیں اور میں اس بات پر یقین رکھتا ہوں کہ آپ راتوں رات آسمانوں کی سیر کر کے واپس آ سکتے ہیں۔
اگر صبر کرنا تصوف کا خاصہ ہے تو اس کا عملی نمونہ بھی سیدنا صدیق اکبر ؓ کی ذات پاک میں نظر آتا ہے۔ سیدنا صدیق اکبر نے اسلام قبول کرنے کے بعد جو عہد کیا تھا ہزار تکلیفوں کے با وجود آپ نے منزل انقلاب پر جا کر کمر کھولی۔ عہد نبوی اور خلافت کے دور میں کئی مشکلات کاسامنا کیا مگر صبر کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا۔ دار ارقم کی خلوت ہو یا پھر خانہ کعبہ کے صحن کی اذیت۔ شعب ابی طالب کے فاقے ہوں یا پھر سفر طائف کے صدمے۔ آپ نے ہر موڑ پر صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
دنیا نے اپنے آپ کو بدلا گھڑی گھڑ ی
اک اہل عشق ہیں کہ جہاں تھے وہیں رہے
مناجات کو اگر تصوف میں خاص مقام حاصل ہے تو سیدنا صدیق اکبر اس کا بھی عملی نمونہ تھے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور مناجات کرتے ہوئے عرض کرتے ہیں ” کاش میں پرندہ ہوتا ایک درخت سے دوسرے درخت پر اڑتا بیٹھتا اور قیامت کے دن مجھے حساب نہ دینا پڑتا۔ کاش میں سوکھی لکڑی ہوتا لوگ جلا ڈالتے اور میں قیامت کے جلنے سے بچ جاتا۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں