اتوار، 24 اگست، 2025

زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱)

 

زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱)

انسانی شخصیت کی خوبصورتی اور کمال میں زبان اورکلام کا بہت گہرا تعلق ہے۔ جس طرح زبان کے غلط استعمال سے معاشرے میں لڑائی جھگڑے اور فسادات شروع ہو جاتے ہیں اسی طر ح اگر اس کے غلط استعمال کی بجائے خاموشی اختیار کی جائے تو انسان کی زندگی میں وقاراور سکون پیدا ہو جاتا ہے۔انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے اور دیگر مخلوقات سے جو چیز انسان کو نمایا ں کرتی ہے وہ اس کی زبان اور عقل ہے۔ زبان کے ذریعے انسان اپنے خیالات ، احساسات دوسروں تک پہنچاتا اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔زبان ہی انسان کو عزت بھی دلاتی اور ذلت بھی۔
انسان کی شخصیت اس کی زبان کے استعمال سے ظاہر ہو جاتی ہے۔اگر بولتے وقت انسان کا لہجہ نرم اور بات سچی ہو تو دل بھی صاف اور پْرخلوص سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس ہر وقت جھوٹ ، غیبت اور چغلی کے لیے استعمال کی جائے تو یہ انسان کے وقار کی گراوٹ اور باطنی خرابی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیاربیٹھا ہو ‘‘۔ ( سورہ ق)۔یعنی انسان زبان سے جو بھی بات نکالتا ہے وہ اس کے نگہبان فرشتے کراماًکاتبین لکھ لیتے ہیں۔یہ آیت مبارکہ زبان کی ذمہ داری اوراس کے احتساب کی وضاحت کرتی ہے۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ زبان سے اچھی بات نکالے یا پھر خاموش رہے۔
انسان اپنی زندگی میں سب سے زیادہ نقصان اپنی زبان کی لغزشوں کی وجہ سے اْٹھاتا ہے ، جھوٹ، بہتان، غیبت ، مذاق اڑانا ، گالم گلوچ ،وعدہ خلافی اور فضول گوئی ایسی بیماریاں ہیں جو انسان کے وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہیں اور اس کے معاشرتی تعلقات کو خراب کرتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر فرمایا میرے صحابہ اسے قابو میں رکھو ،عرض کی گئی یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس سے پکڑے جائیں گے ؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لوگ اپنی زبانوں کی بَڑ بَڑ کی وجہ سے تو اندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ ( ترمذی )۔
زبان کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ بندہ جب بولے تو سچ بولے اور جھوٹ سے اجتناب کرے۔ سچ سے انسان کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے اور جھوٹ نہ صرف ایک کبیرہ گناہ ہے بلکہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بھی بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی جھوٹے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ فضول گوئی سے بچے۔ جب بھی بولے سچ بولے اور اچھی بات زبان سے نکالے ۔

حکمت کی بات - کامیاب زندگی کا راز؟

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 23.کیا ہم قرآن کی ہدایت کے خلاف ...

حکمت کی بات - کامیاب انسان کون ہے؟

ہفتہ، 23 اگست، 2025

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Part-05.کیا ہمارے دل اللہ تعا...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Part-04.کیا ہم نے دنیا ہی کو ...

راہِ نجات - بہترین تجارت

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Part-04.کیا ہم نے دنیا ہی کو ...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Pt-03.کیا ہم اندھیروں کو روشن...

جمعہ، 22 اگست، 2025

حضورﷺ کی اشیاء سے برکت

 

حضورﷺ کی اشیاء سے برکت

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ سب سے پہلا بچہ جو دار السلام میں پیدا ہوا وہ حضرت عبد اللہ بن زبیر ہیں۔ انہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں لایا گیا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور لے کر چبائی اور اسے حضرت عبد اللہ کے منہ میں رکھ دیا۔ پس جو با برکت چیز حضرت عبد اللہ کے پیٹ میں سب سے پہلے گئی وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا مبارک لعاب دہن تھا۔ ( بخاری شریف)۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مریض کے لیے فرمایا کرتے تھے : اللہ تعالیٰ کے نام سے شفاء طلب کر رہا ہو ں ، ہماری زمین کی مٹی (یعنی شہر مدینہ کی مٹی کی برکت سے) اور ہم میں سے بعض کے (یعنی خود میرے ہی) لعاب دہن کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا مل جاتی ہے۔ (متفق علیہ)۔
حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے یہ وہی بزرگ ہیں کہ جب یہ بچے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے کنویں کے پانی سے ان کے چہرے پر کلی فرمائی تھی اور عروہ نے حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسروں سے روایت کی جن میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی تصدیق کرتا ہے کہ حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب وضو فرماتے تو قریب ہوتا کہ لوگ برکت کے حصول کے لیے اس وضو کے پانی پر آپس میں لڑ پڑیں۔ 
حضرت یزید بن ابی عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پنڈلی پر زخم کا ایک نشان دیکھا تو دریافت کیا اے ابو مسلم یہ نشان کیسا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : یہ زخم مجھے غزوہ خیبر میں لگا تھا۔ لوگ کہنے لگے سلمہ زخمی ہو گئے تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو گیا۔ آپ نے اس پر تین مرتبہ پھونک مار کر دم کیا ، چنانچہ اس کے بعد مجھے آج تک اس ٹانگ میں کبھی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔(بخاری)۔ 
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی والدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے گھر تشریف لاتے تو وہاں قیلولہ فرماتے تھے۔ وہ آپ  کے لیے چمڑے کا گدا بچھا دیتی تھیں۔آپ  کو جب پسینہ مبارک آتا تو وہ آپ  کے پسینہ مبارک کو جمع کر کے خوشبو والی بوتل میں ڈال لیتیں۔آپ نے پوچھا اے ام سلیم یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ  یہ آپ کا پسینہ مبارک۔ اسے میں خوشبو میں ملا دیتی ہوں تا کہ خوشبو بھی زیادہ آئے اور برکت بھی ہو۔ (امام مسلم)۔

حکمت کی بات - کیا ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنا چاہیے؟

راہِ نجات - کیا ہم اللہ تعالٰی کے رسول ﷺ کو اِیْذا رَسانی کے مجرم ہیں ؟

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Part-02.کیا ہمارے سینے اللہ ت...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Part-01.کیا ہمارا دل پتھر سے ...

بدھ، 20 اگست، 2025

دل کی اصلاح کے مراحل


 

دل کی اصلاح کے مراحل

دل انسان کے وجود کا مرکز اور نیتوں کا سر چشمہ ہے۔ ایمان وکفر ، اخلاص و نفاق اور ہدایت و گمراہی کا اصل میدان دل ہی ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اگاہ ہو جائو جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو پورا جسم درست ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو پورا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ اور فرمایا کہ وہ ٹکڑا دل ہے ‘‘۔
دل کی اصلا ح کا سب سے پہلا مرحلہ ایمان اور معرفت الہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ جان لو کہ دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے ‘‘۔
ایمان یہ نہیں کہ صرف دل سے اقرار لیا جائے بلکہ ایمان یہ ہے کہ دل کی گہرائیوں میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی قدرت اور اس کی رحمت کو پہچان لینا۔ جب بندہ کا دل معرفت الٰہی سے منور ہو جاتا ہے تو اس کے اندر عاجزی ، شکر جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔دوسرا مرحلہ توبہ اور تزکیہ کا ہے۔ جب بندہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کا دل سخت اور سیاہ ہو جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے ان کی کمائیوں نے ‘‘۔ اس زنگ کو صاف کرنے کا واحد ذریعہ سچی توبہ اور نفس کی اصلاح ہے۔
جب بندہ صدق دل سے توبہ کرتا ہے تو اس کا دل نرم ہو جاتا ہے اور تزکیہ نفس انسان کے دل میں گناہوں سے نفرت اور نیکیوں کی محبت ڈال دیتا ہے۔قلب کی اصلاح کے لیے ذکر الہی بہت ضروری ہے کیونکہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے اس کا دل زندہ رہتا ہے اور جو غفلت میں مبتلا ہو جائے اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’جو شخص اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ہے ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔جو بندہ نماز پنجگانہ کی پابندی کرے ، تلاوت قرآن اور دعا کے ساتھ درود شریف کی کثرت کرے ان کے دل مطمئن اورروشن رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ آزمائش اور مصیبت کے وقت صبر و شکر بھی دل کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے مزید عطا کرتا ہے۔ صبر اور شکر دل کو کینہ ، حسد اور مایوسی جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔تقویٰ اور خوف خدا بھی دل کی اصلاح کا اعلی درجہ ہے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ سوچنا کہ یہ کام کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہو گا یا پھر ناراض۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا ‘‘۔
دل کی اصلاح ایک مسلسل سفر ہے جو ایمان سے شروع ہو کر تقویٰ پر ختم ہوتا ہے۔ایمان ، توبہ ، ذکر صبر و شکر اور تقویٰ وہ مراحل ہیں جو دل کومضبوط اور صاف کر کے اللہ تعالی کے قریب کر دیتے ہیں۔

حکمت کی بات - کیا ہمیں ہدایت الٰہیہ کی کوئی ضرورت ہے؟

پیر، 18 اگست، 2025

صبر کی اقسام اور اس کے فوائد

 

صبر کی اقسام اور اس کے فوائد

قرآن مجید فرقان حمید میں صبر کو کامیابی کی کنجی قرار دیا گیا ہے ۔ صبر محض مشکلات برداشت کرنے کا نام نہیں بلکہ ایسا ہمہ گیر عمل ہے جو زندگی کے ہر مرحلے میں مومن کی رہنمائی کرتا ہے ۔قرآن مجید میں مختلف مقامات پر صبر کا ذکر مختلف انداز میں کیا گیا ہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :’اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بے شک اللہ صابروں کے ساتھ ہے‘۔ ( سورۃ البقرۃ)یعنی جب کوئی مشکل وقت آ جائے تو اس پر صبر کرتے ہوئے نماز ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں ۔جب بندہ صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ساتھ دیتا ہے اور اس کی مدد فرماتا ہے ۔ صبر علی الطاعۃ : اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ صبر کے ساتھ نیکی پر قائم رہے ۔ یہ صبر اس وقت درکار ہوتا ہے جب بندہ مشکلات اور مصائب اور مشکلات میں گھرا ہو اور اس کے باوجود عبادت الٰہی اور نیکی کے کام مسلسل سر انجام دیتا رہے ۔ مثلاً جتنی مرضی بڑی پریشانی یا صدمہ آ جائے مگر اس کی نماز اور دیگر عبادت میں کوئی کمی واقع نہ ہو ۔ صبر عن المعصیۃ :اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ گناہ سے بچے ۔ یعنی جب بندے کے سامنے گناہ کا موقع ہو لیکن وہ اللہ کے خوف اور آخرت کی فکر کی وجہ سے خود کو اس گناہ سے روکے رکھے ۔ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے حرام کی دعوت کو ٹھکرا کر قید کو ترجیح دی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’بے شک جو پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتا ‘۔ ( سورۃ یوسف ) صبر علی البلاء: آزمائش اور مصیبت کے وقت صبر ۔ انسان کو زندگی میں بہت ساری آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔کبھی بیماری اور کبھی رزق کی تنگی یا پھر کاروبار میں نقصان یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کا حصہ ہے ۔اور جو لوگ ان تمام تر مصائب اور مشکلات کے باوجود صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اللہ تعالیٰ انھیں بے حساب اجر سے نوازتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’اور ضرور ہم تمھیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مال اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو‘۔ ( سورۃ البقرۃ) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے صبر سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں ۔اور انھیں بے حساب رزق دیا جاتا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی‘۔ ( سورۃ الزمر) اور جو بندہ آزمائشوں پر صبر کرتا ہے اس کے لیے جنت اور سلامتی کی خوشخبری ہے: ’سلامتی ہو تم پر تمھارے صبر کا بدلہ تو پچھلا گھر کیا خوب ملا ‘۔( سورۃ الرعد) صبر انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے ۔ جو بندہ صبراختیار کرتا ہے حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے اور یہی حقیقی کامیابی ہے ۔

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 10 Part-01. کیا ہمارا مقصود حیات...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 08-09.کیا ہم اپنی حقیقت کو بھول ...

اتوار، 17 اگست، 2025

صحبت اور اس کے اثرات

 

صحبت اور اس کے اثرات

ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ان کے لیے رحمن محبت کر دے گا ‘‘۔( سورۃ مریم :آیت ۹۶)۔
یعنی وہ اپنے دلوں پر نگاہ رکھتے ہیں ، اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کرتے ہیں اور انہیں اپنے اوپر فضیلت دیتے ہیں۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تین باتیں تیرے بھائی کے دل میں تیرے لیے محبت بڑھاتی ہیں جب راستے میں ملے تو اسے سلام کرو ، مجلس میں اس کے لیے جگہ بناو اور اسے اس کے پسندیدہ نام سے پکارو۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرائو‘‘ ( سورۃ الحجرات )۔
 یہ حکم سب کے لیے ہے کہ دو مسلمان بھائیوں کے درمیان مہربانی اور لطف کی فضا پیدا کریں تا کہ کسی دوسرے سے دل آزردہ نہ ہو۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : بھائی زیادہ بنائو‘ بلاشبہ تمہارا رب رحیم و کریم ہے وہ اپنے کرم سے قیامت کے دن بھائیوں کے سامنے اپنے بندے کو عذاب نہیں دے گا۔ صحبت اللہ تعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے کسی خواہش نفس ، دنیاوی غرض اور مقصد کی خاطر نہ ہو تا کہ اس کے آداب کی حفاظت اور پاسداری کی وجہ سے بندہ اجر کا مستحق ہو۔ 
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے داماد مغیرہ بن شعبہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے فرمایا : ’’اے مغیرہ جس بھائی یا دوست کی ہم نشینی سے تمہیں کوئی دینی فائدہ حاصل نہ ہو تو اسے چھوڑ دو اس میں تمہاری سلامتی ہے ‘‘۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ کمال پرہیز گاری ہے کسی بے علم کو تعلیم دینا۔ 
حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں بْر اہے وہ دوست جسے دعا کی درخواست کرنے کی ضرورت پڑے کیونکہ ایک لمحے کی دوستی ہمیشہ دعا میں یاد رکھنا ہے۔ بْرا ہے وہ دوست جس کے ساتھ زندگی مدارات کے ساتھ گزارنی پڑے کیونکہ صحبت کی بنیاد خوشدلی پر ہے۔ بْرا ہے وہ دوست جس سے کوتاہی پر معذرت کرنی پڑے اس لیے کہ معذرت بیگانگی کی علامت ہے صحبت میں بیگانگی ظلم ہے۔ 
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ اس کے دوست کون ہیں ؟اگر اس کا بیٹھنا اٹھنا نیک لوگوں کے ساتھ ہے تو بْرا ہونے کے باوجود نیک کہلائے گا اور اس کی یہ نیکی بل آخر اسے نیک بنا دے گی۔ اور اگربْروں کی صحبت اختیار کرے گا ، اور نیک ہونے کے باوجود بْرا سمجھا جائے گا اس لیے کہ گویا برائیوں پر رضا مند ہے ، اور جو شخص برائی پر راضی رہتا ہے اگرچہ نیک ہو، وہ بْرا ہے۔

حقیقت رضا

 

حقیقت رضا

رضا ایک ایسی بلند روحانی کیفیت ہے جو انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مرضی اور فیصلے پر راضی رہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔لفظ ’’رضا ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں خوشی ، اطمینان اور دل کا سکون۔ رضا ایمان کی اعلی ترین منزل ہے۔ کیونکہ یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب بندہ اپنے خالق حقیقی سے کامل محبت کا رشتہ قائم کر لے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے ‘‘۔(التوبہ)
رضا کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے راضی ہو جائے اور دوسری بندے کا اپنے مالک سے راضی ہونا۔اللہ تعالیٰ کی رضا یہ ہے کہ وہ بندے کو ثواب ، نعمت ، صحت اور کرامت عطا فرمائے اور بندے کی رضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے سر تسلیم خم کرے۔رضائے الٰہی بندے کی رضا پر مقدم ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کی توفیق نہ ہو بندہ نہ تو اس کی اطاعت کرسکے گا اور نہ ہی اس کی مراد و رضا پر قائم رہ سکے گا اسی لیے بندے کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ وابستہ ہے۔ بندے کی رضا یہ ہے کہ وہ دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے چاہے وہ عطا و بخشش ہو یا پھر رنج و تکلیف کا۔اللہ تعالیٰ کچھ عطا کر ے پھر بھی شکر بجا لائے اور کچھ لے لے تو پھر بھی اس کی رضا پر راضی رہے۔ 
حقیقت رضا کا صبر سے گہرا تعلق ہے مگر یہ صبر سے ایک درجہ بلند ہے۔ صبر کا مطلب ہے آزمائش میں برداشت کرنا اور رضا کا مطلب ہے کہ آزمائش کو خوشی سے قبول کرنا۔ عملی زندگی میں رضا کا اظہار کئی صورتوں میں ہوتا ہے۔ مثلااگر کسی شخص کو کاروبار میں نقصان ہوتا ہے تو وہ اس پر مایوس نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ رکھتے ہوئے مزید محنت کرے یہ رضا ہے۔ اگر کسی شخص کو کوئی بیماری لاحق ہو جائے تو وہ اس کے علاج کے ساتھ ساتھ کوئی شکوہ زبان پر نہ لائے بلکہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے یہ رضا ہے۔ اور جو بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جائے اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں بے شمار نعمتیں عطا فرمائے گا۔
غیر اللہ کے ساتھ راضی ہونا موجب خسران و ہلاکت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ رضا باعث مسر ت و نعمت ہے اسی لیے رضائے الٰہی بادشاہی اور موجب عافیت ہے۔رضا کا سب سے بڑا ثمر دل کا سکون ہے۔شکوہ و ناراضگی انسان کے دل کو بے چین کر دیتی ہے۔ لیکن رضا دل کو نور اور اطمینان عطا کرتی ہے۔یہی وجہ حضور نبی کریم ﷺ بھی اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے کہ ’’ الٰہی مجھے اپنی قضا و قدر پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما۔

جمعرات، 14 اگست، 2025

خدمت خلق قرآن کی روشنی میں (۳)

 

خدمت خلق قرآن کی روشنی میں (۳)

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمھارے کمزوروں کے سبب سے ہی تمھاری مدد کی جاتی ہے اور تمھیں رزق دیا جاتا ہے ۔(بخاری) اس کے علاوہ کسی جائز کام میں کسی ضرورت مند کی سفارش کرنا بھی خدمت خلق کے زمرے میں آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: جو اچھی سفارش کرے اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو بری سفارش کرے اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔(سورۃ النساء)یعنی اگر کوئی ضرورت مند سائل آپ کے پاس کسی جائز کام کی سفارش کے لیے آتا ہے تو اس کی اس معاملے ضرور مدد کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اجر و ثواب عطا فرمائے گا اور اس کے برعکس اگر کوئی غلط کام کے لیے سفارش کا منتظر ہے تو اس کی مدد نہ کی جائے اگر اس کی مدد کی گئی تو اس کے گناہ کے ساتھ مدد کرنے والا بھی شریک کہلائے گا اور اسے بھی اس کی سزا میں سے حصہ ملے گا ۔ خدمت خلق ایک عظیم اور بہت بڑا کام ہے جس کا اللہ تعالیٰ کے ہا ں بے شمار اجر و ثواب ہے ۔لیکن اس کے برعکس جو لوگ اپنے مال کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور ا سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بھلائی کے لیے خرچ نہیں کرتے انھیں سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’اسے پکڑو پھر اسے طوق ڈالو ۔پھر اسے بھڑکتی آگ میں دھنسائو ۔ پھر ایسی زنجیر میں جس کا ناپ ستر ہاتھ ہے اسے پرو دو ۔بے شک وہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا۔ اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہ دیتا‘۔ (سورۃ الحاقہ) 
سورۃ المدثر میں ہے کہ جب جنتی جنت میں چلیں جائیں گے اور جہنمی جہنم میں تو جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ تمھیں کس چیز نے جہنم میں ڈالا توکہیں گے:’ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور ہم غریبوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘۔ خدمت خلق نہ صرف ایک سماجی فریضہ ہے بلکہ ایک عظیم عبادت ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر کیا ہے۔ اس عمل سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور باہم محبت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک پُر امن اور ترقی یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ان کی مدد فرمائے گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خدمت خلق کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تا کہ قرآن مجید کے سنہری اصولوں پر عمل ہو اور انسانیت حقیقی فلاح پا سکے ۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ:
 خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے 
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا 

حکمت کی بات - بندگی کا رویہ کیسے اپنائیں؟

Surah Az-Zumar Ayat 01-03 Part-06.کیا ہم اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بنان...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 01-03 Part-05.کیا ہمارے دل اللہ ...

خدمتِ خلق قرآن کی روشنی میں (۲)

 

خدمتِ خلق قرآن کی روشنی میں (۲)

جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں کئی گناہ زیادہ اجر عطا فرماتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ جو لوگ اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانہ کی طرح ہے جس نے اگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے‘‘۔ (سورۃ البقرۃ :۲۶۱)۔
سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں خالص میری رضا کے لیے مال خرچ کرتے ہیں انہیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہو گا۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ وہ جو اپنے مال خیرات کرتے ہیں رات میں اور دن میں چھپے اور ظاہر ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس ان کو نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم‘‘۔ 
معاشرے میں بہت سے کمزور اور بے بس لو گ ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں ہر کوئی برابر نہیں کوئی امیر ہے تو کوئی غریب ،کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم اور کوئی بادشاہ تو کوئی فقیر۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر معاشرے کے کمزور مردوں ، عورتوں اور بچوں کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جو کسی مسلمان کی دنیا میں ایک پریشانی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی پریشانی دور کرتا ہے۔ اور جو دنیا میں کسی کے لیے آسانی پید ا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا فرمائے گا۔ جو کسی مسلمان کی دنیا میں پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی بندے کی مدد فرماتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے۔(ابی دائود )۔ 
اس کے علاہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور کسی بھٹکے ہوئے کو سیدھا راستہ دکھانا بھی خدمت خلق میں شامل ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے فائدے کے لیے ظاہر کیا گیا ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو ‘‘۔(سورۃ آل عمران )۔
سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ تم نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے ‘‘۔
 جب کوئی صراط مستقیم سے ہٹ جائے تو اسے سیدھے راستے پر لانا بھی خدمت خلق ہے اور اگر کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہو جائے تو اس کا ساتھ دینے کی بجائے اسے اس کام سے منع کیا جائے اور صرف اچھے اور نیک کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا جائے۔

بدھ، 13 اگست، 2025

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 01-03 Part-04.کیا ہم نے عملا دین...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 01-03 Part-03. کیا ہم اپنے عمل س...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 01-03 Part-02.کیا ہم قرآن پاک کو...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 1-3 Pt1.کیا ہم اللہ تعالی کی ناف...

خدمت خلق قرآن کی روشنی میں (۱)

 

 خدمت خلق قرآن کی روشنی میں (۱)

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں 
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
انسانی معاشرے کی بنیاد باہمی محبت ، ایثار اور فلاح و بہبود پر قائم ہوتی ہے۔اسلام میں انسانی خدمت کو نہ صرف ایک اخلاقی وصف قرار دیا گیا ہے بلکہ اسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ خدمت خلق حقیقت میں انسانیت کی بھلائی ، دوسروں کی مدد ، ضرورت مندوں کی حاجت روائی اور معاشرے میں خیر پھیلانے کا نام ہے۔ قرآن مجید میں بارہا اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ یتیموں ، مسکینوں ، محتاجوں اور کمزور طبقات کی مدد کرو۔ 
خدمت خلق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لیے خالصتا ً اللہ کی رضا کی خاطر بھلائی اور فائدے کے کام کرنا۔ چاہے فائدہ مالی ہو یا پھر جسمانی ،علم کی روشنی بانٹنا ہو یا کسی پریشان حال انسان کو تسلی دینا۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصل نیکی یہ ہے کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیروں اور سائلوں اور گردنیں چھڑانے میں‘‘۔ (سورۃ البقرہ :آیت ۷۷۱)۔
اس آیت مبارکہ میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی و عبادت کے ساتھ ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت اور کمزور افراد کی مدد کر نا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ 
خدمت خلق کا سب سے بڑا اور بہترین مظہر معاشرے کے غریب طبقے کی مدد کرنا ہے۔آج اس مہنگائی کے دور میں کسی غریب کو دو وقت کا کھانا کھلا دینا بہت بڑی نیکی ہے۔ غرباء کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور مقرب بندوں کی نشانی ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جن کے مالوںمیں سائل اور محروم کا معین حق ہے ‘‘۔( سورۃ المعارج )۔ 
اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب اور پسندیدہ بندوں کی شان و عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ نماز ، روزہ ،حج اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ میری مخلوق کی خدمت میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ 
سورۃ السجدہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ ڈرتے اور امید کرتے ہوئے اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں ‘‘۔
یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تقوی و پرہیز گاری کے ساتھ ساتھ مخلوقِ خدا میں آسانیاں بانٹتے ہیں۔ جیسے پیاسا پانی پی کر اطمینا ن اور سکون حاصل کرتا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے نیک بندے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کر کے دلی سکون اور اطمینان حاصل کرتے ہیں۔

منگل، 12 اگست، 2025

حکمت کی بات - علم کی حقیقت

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 84-88.اللہ تعالی کے نافرمانوں کا ٹھکانہ جنت...

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 82-83.کیا ہم اللہ تعالی کی برگزیدہ بندوں می...

ہمسائیوں کے حقوق

 

 ہمسائیوں کے حقوق


ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور عبادت کرو اللہ کی اور نہ شریک ٹھہرائو اس کے ساتھ کسی کو اور والدین کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔ نیز رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پڑوسی جو رشتہ دار ہے اور وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہیں ‘‘۔(سورۃ النساء )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جبرائیل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے لگا کہ اسے وراثت میں بھی حصہ دار بنا دیا جائے گا۔ ( بخاری شریف )۔
ایسا پڑوسی جو رشتہ دار ہو اور پڑوس میں رہتا ہو اس کے دو حقوق ہیں ہے ایک قرابت کی وجہ سے اور دوسرا پڑوسی ہونے کی حثیت سے۔ جبکہ اجنبی یا غیر رشتہ دار کا ایک حق ہوتا ہے اور وہ پڑوس کا حق ہے۔ لیکن پڑوسی رشتہ دار ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں پڑوسی کی عزت و تکریم ، باہمی خیر خواہی اور حسن سلوک کرنا ضروری ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے دوستوں کے حق میں بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہے۔ ( ترمذی )۔
گھر کے بالکل ساتھ والے پڑوسی کا حق زیادہ ہے اس پڑوسی کی نسبت جو دور رہتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا یارسول اللہﷺ میرے پڑوس میں دو عورتیں رہتی ہیں ان دونوں میں سے میں کس کو کوئی چیز بطور ہدیہ بھیجا کرو ں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کا دروازہ آپ کے گھر کے نزدیک ہے۔ ( بخاری شریف )۔
کسی بھی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچائے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے پڑوسی کو ایذا یا تکلیف دینے سے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ ( بخاری شریف )۔ 
حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم وہ شخص ایمان والا نہیں ! اللہ کی قسم وہ شخص ایمان والا نہیں ! آپ ﷺ سے عرض کی گئی یا رسو ل اللہ ﷺ کون سا شخص؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔ ( بخاری شریف )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے مامون نہ ہو۔( مسلم شریف )۔

پیر، 11 اگست، 2025

حکمت کی بات - دنیا کی حقیقت؟

حکمت کی بات - ہم متقی کیسے بنیں ؟

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 77-81.کیا ہم ایک لعنتی قوم ہیں

دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۳)

 

دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۳)

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مختلف لوگوں کو مختلف مراتب سے نوازا ہے۔کوئی حاکم ہے اور کوئی محکوم ، کوئی امیر اور کوئی غریب۔ یہ سب اللہ تعالیٰ نے ایک حکمت کے تحت اس کائنات کو چلانے کے لیے کیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ دنیوی زندگی میں ان کی روزی کو ہم نے تقسیم کیا ہے او رہم نے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے تا کہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں اور تیرے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو یہ جمع کرتے ہیں۔( سورۃ الزخرف )۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے روزی کشادہ کر دیتا تو وہ زمین میں بغاوت کر دیتے لیکن وہ اندازے کے ساتھ اتارتاہے اور جتنا چاہتا ہے ،وہ اپنے بندوں سے باخبر اور انہیں دیکھنے والا ہے ‘‘۔( سورۃ الشوری )۔
قرآن مجید میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ مراتب میں اختلافات بھی آزمائش کا حصہ ہیں۔ انسان اپنی پوری کوشش کرتا ہے اورذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرتا اور اس کے بعد اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کر دے اور اس کی تقسیم پر راضی ہو جائے تو وہ کامیاب ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اچھے اور بْرے دونوں حالات میں آزماتا ہے۔کبھی اللہ اپنے بندے کو دے کر آزماتا ہے کہ وہ راہ راست پر چلتا ہے یا پھر بھٹک جاتا ہے اور کبھی بْرے حالات میں یعنی سب کچھ لے کر کہ اس حالت میں بھی بندہ میرا شکر بجا لاتا ہے یا نہیں۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور ہم تمہیں بْری اور اچھی حالت میں آزماتے ہیں پرکھنے کے لیے اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جائوگے ‘‘۔( سورۃ الانبیاء)۔
اچھی اور بری حالت آزمائش ہے اور آخر اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو حقیقی کامیاب وہ ہوں گے جو ان حالات میں ثابت قدم رہے اور شکر بجا لاتے رہے۔ 
اسی طرح سورۃا لبقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’ ہم کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے تمہیں آزمائیں گے اور ثابت قدم رہنے والو ں کو بشارت دے دو ‘‘۔ 
جب بندے پر کوئی سخت وقت آئے تو اس پر صبر کر اور جب اسے کثرت مال عطا ہو تو اسے اپنی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالی کی عطا سمجھے اور اس کے راستے سے نہ ہٹے۔آزمائش میں اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے اور اس کے قریب آئے کیوں کہ آزمائش میں وہی کامیاب ہو گا جو اپنے رب کے قریب ہو گا۔ اور صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں جزا عطا فرمائے گا۔ دنیا کی زندگی صرف کھانا پینا، سونا اور عیش و عشرت نہیں بلکہ یہ ایک عظیم امتحان ہے۔ قرآن مجید بار بار انسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی بندگی ، شکر، صبر اور تقوی اپنانا ہی کامیابی کی راہ ہے۔

ہفتہ، 9 اگست، 2025

دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۲)

 

دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۲)

انسان کی زندگی بہت سے نشیب و فراز سے گزرتی ہے اور اسے بعض اوقات بہت سخت حالات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی انسان کا دامن خوشیوں سے بھر جاتا ہے اور ان خوشیوں کے آنگن کو غم گھیر لیتے ہیں۔ کبھی انسان کی زندگی کامیابیوں سے بھر جاتی ہے اور کبھی ناکامیاں اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔کبھی صحت جیسی عظیم نعمت میسر ہوتی ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ بیماری دے کر آزماتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف حالات کے ذریعے آزماتا ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ ہم تمہیں اچھے اور بْرے حالات سے آزماتے ہیں اور تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آئو گے ‘‘۔ ( سورۃ الانبیاء )۔
سورۃا لاعراف میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ اور ہم نے اچھے اور بْرے حالات میں ان کی آزمائش کی تاکہ وہ باز آ جائیں ‘‘۔ 
ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو مال و دولت کی کمی ، غم اور بیماری کے ذریعے آزماتا ہے کہ میرا بندہ صرف خوشحالی میں ہی میرا شکر بجا لاتا ہے یا پھر تنگدستی میں صبر کرتے ہوئے میرا شکر ادا کرتا ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ مال و دولت کی کثرت کے ساتھ بھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ کہیں وہ اچھے حالات میں باغی ہو کر اللہ تعالی کے راستے سے ہٹتے ہیں یا دامن الہی کو تھامے رکھتے ہیں۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور جان لو تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں۔ اور بیشک اللہ کے پاس ہی بہت بڑا اجر ہے۔ ( الانفال )۔
اولاد کا زیادہ ہونا اور مال کی کثرت ہونا کامیابی کی دلیل نہیں بلکہ یہ انسان کی آزمائش ہے۔ اللہ تعالی کسی کو بیٹے دے کر آزماتا ہے اور کسی کوبیٹیاں اور کسی کو بے اولاد رکھ کر۔ کسی کو اللہ تعالیٰ مال کی کثرت سے آزماتا ہے اور کسی کو مال کی کمی بیشی کر کے۔ اور حقیقی کامیاب شخص وہی ہے جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہا اور مال کی کثرت کی وجہ سے شیطان کے راستے پر نہ چلا۔مال و دولت اس بات کی علامت نہیں کہ اللہ جس سے راضی ہو اسے زیادہ دے دیا اور جس سے ناخوش اسے کم۔ بلکہ اللہ اسی سے راضی ہو گا جو مال و اولاد کی آزمائش پر پورا اترے گا۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ فرمادیجیے کہ بیشک میرا رب جسے چاہتا ہے زیادہ روزی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘۔( سورۃ سبا )۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ المنافقون میں ارشاد فرمایا : ’’ اے ایمان والو تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کریں گے وہی خسارہ اٹھانے والے ہوں گے ‘‘۔ 
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرما دیا کہ مال و دولت اور اولاد مقصد حیات نہیں بلکہ زندگی کی آزمائش ہے۔

جمعہ، 8 اگست، 2025

دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۱)

 

دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۱)

اللہ تعالیٰ نے انسان کو ایک عظیم مقصد کے تحت پیدا فرمایا ہے۔دنیا کی یہ زندگی ایک کھیل تماشا نہیں بلکہ ایک سنجیدہ امتحان ہے جس میں انسان کے عقائد، اعمال ، نیت ، صبر ، شکر ، تقویٰ اور بندگی کو آزمایا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو اچھائی اور برائی دونوں راستے دکھائے ہیں اور اسے یہ اختیا ر دیا ہے کہ وہ جس راستے کو چاہے چن لے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ حقیقت بیان کی گئی ہے کہ دنیا کی زندگی محض آزمائش ہے اور اس کا اصل مقصد یہی ہے کہ انسان کو آزمایا جائے کہ وہ کس حد تک اللہ تعالیٰ کا وفادار، شکر گزار اورصابر بندہ ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’وہی ہے جس نے زندگی اور موت کو پیدا کیا تا کہ وہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے اچھے کام کون کرتا ہے اور وہ بہت غلبے والا ،بخشنے والا ہے ‘‘۔ ( سورۃ الملک )۔
سورۃ الانعام میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ اور وہی ہے جس نے تمہیں زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کے بعض سے درجات بلند کیے کہ تمہیں آزمائے اس چیز میں جو تمہیں عطا کی۔ بیشک تمہارے رب کو عذاب کرتے دیر نہیں لگتی اور بیشک وہ ضرور بخشنے والا مہر بان ہے ‘‘۔ 
ان آیات میں مقصد حیات کو انتہائی وضاحت کے ساتھ بیان کر دیا گیا ہے۔ زندگی کا اصل مقصد آزمائش ہے۔ اور یہ دیکھنا ہے کہ بندہ اللہ تعالیٰ کی رضاکے لیے کتنے اچھے کا م کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو کچھ اختیارات دے کر دنیا میں بھیجا کہ انسان ان معاملات میں اللہ تعالیٰ کا حکم بجا لاتے ہوئے اس کی بندگی کرتا ہے یاپھر اپنی خواہشات اور رسم و رواج کی پیروی کرتا ہے۔ یہی اسکی آزمائش ہے۔ اگر وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کریگا تودنیا و آخرت میں کامیاب ہو جائیگا اور اگر انسان اپنی خواہشات کے پیچھے چلے گا اوردنیا وی رسم و رواج کو اہمیت دیگا تو دنیا میں بھی رسوا ہو گا اورآخرت میں بھی۔ 
اللہ تعالیٰ انسان کی آزمائش مختلف صورتوں میں کرتا ہے۔اس کی آزمائش کا دارو مدار ہر اس فیصلے کے ساتھ جڑا ہے جو اللہ تعالیٰ نے انسان کے متعلق فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ انسان کو کبھی مال و اولاد کی کمی کے ساتھ آزماتا ہے ،کبھی کوئی بڑا منصب دے کر یا واپس لے کر، کبھی خوشی دے کر اور کبھی غم دے کر اپنے بندوں کو آزماتا ہے۔ اور جو بندہ اللہ تعالیٰ کی ان آزمائشوں میں کامیاب ہو جاتا ہے اسی کا ہی ایمان پختہ ہوتا ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : کیا لوگ اس گھمنڈ میں ہیں کہ اتنی بات پر چھوڑ دیے جائیں گے کہ کہیں ہم ایمان لائے اور ان کی آزمائش نہ ہو گی۔ اور بیشک ہم نے ان سے اگلوں کو جانچا تو ضرور اللہ سچوں کو دیکھے گا اور ضرور جھوٹوں کو دیکھے گا۔ ( سورۃ العنکبوت )۔

حکمت کی بات - بیعت کے تقاضے

حکمت کی بات - بیعت کی اہمیت

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 65-68.کیا ہم نے ہدایت الہیہ سے رخ پھیر لیا ہے

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 61-64 .کیا ہم نے ظاہر دنیا کو اپنا مقصود حی...

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت

 

اللہ تعالیٰ اور اس کے رسولؐ کی اطاعت

اللہ تعالیٰ نے اپنی پیارے حبیب نبی آخرالزماں حضور نبی کریمﷺ کی اطاعت کو اپنی اطاعت کہا اور آپؐ کی نافرمانی کو اپنی نافرمانی کہا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: کہہ دو کہ خدا اور اس کے رسولؐ کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو خدا بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔ (سورۃ آل عمران) اور جو شخص خدا اور اس کے پیغمبرؐ کی فرمانبرداری کرے گا خدا اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا جن میں نہریں بہہ رہی ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور یہ ہی بڑی کامیابی ہے ۔ اور جو خدا اور اس کے رسولؐ کی نافرمانی کرے گا اور اس کی حدوں سے نکل جائے گا اس کو خدا دوزخ میں ڈالے گا جہاں وہ ہمیشہ رہے گا اور اس کو ذلت کا عذاب ہو گا۔ (سور ۃ النساء) مومنو! خدا اور اس کے رسولؐ کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحبِ حکومت ہیں ان کی بھی اور اگر کسی بات میں اختلاف واقع ہو جائے تو اگر خدا اور روز قیامت پر یقین رکھتے ہو تو اس میں خدا اور اس کے رسولؐ کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام سب سے اچھا ہے۔ (سورۃ النساء)
 اور جو لوگ خدا اور اس کے رسولؐ کی اطاعت کرتے ہیں وہ (قیامت کے روز) ان لوگوں کے ساتھ ہوں گے جن پر خدا نے بڑا فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہید اور نیک لوگ اور ان لوگوں کی رفاقت بہت ہی خوب ہے ۔ یہ خدا کا فضل ہے اور خدا کافی ہے جاننے والا۔(سورۃ النساء) 
کہہ دو خدا کی فرمانبرداری کرو اور رسولِ خدا کے حکم پر چلو اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرنا ) ہے جو ان کے ذمے ہے اور تم پر ( اس چیز کا ادا کرنا ) ہے جو تمھارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پالو گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف ( احکامِ خدا کا ) پہنچا دیتا ہے۔ (سورۃ النور)
 مومنو ( کسی بات کے جواب میں ) خدا اور اس کے رسولؐ سے پہلے نہ بولو اور خدا سے ڈرتے رہو بے شک خدا سنتا جاگتا ہے۔(سورۃ الحجرات)
 اور جو شخص سیدھا راستہ معلوم ہونے کے بعد پیغمبر کی مخالفت کرے اور مومنوں کے راستے کے سوا اور راستے پر چلے تو جدھروہ چلتا ہے ہم اسے ادھر ہی چلنے دیں گے اور قیامت کے دن جہنم میں داخل کریں گے اور وہ بری جگہ ہے۔(سورۃ النساء) کیا ان لوگوں کو معلوم نہیں کہ جو شخص خدا اور اس کے رسولؐ سے مقابلہ کرتا ہے تو اس کے لیے جہنم کی آگ تیار ہے جس میں وہ ہمیشہ رہے گا یہ بڑی رسوائی ہے۔(سورۃالتوبۃ)

بدھ، 6 اگست، 2025

اللہ کے لیے دوستی و محبت

 

 اللہ کے لیے دوستی و محبت

اللہ تعالی کے لیے دوستی اور محبت رکھنا عظیم عبادت اور ذیشان امر ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے ایک مہر بان دوست عطا فرما دیتا ہے۔ اگر کسی لمحہ وہ خدا تعالیٰ کا ذکر بھول جائے تو اسے فوراً یادکرا دیتا ہے۔اور اگر وہ ذکر الٰہی میں مصروف ہو تو اس سے تعاون کرتا ہے۔ آپ  نے فرمایا جب دو مومن آپس میں ملتے ہیں تو ان میں سے ایک کو دینی فائدہ ضرور ہوتا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایاجو کسی کو اللہ کی رضا کی خاطر بھائی بنا لیتا ہے اسے جنت میں ایسے درجہ پر فائز کیا جائے گا جہاں وہ کسی اور عمل سے فائز نہ ہو سکے گا۔
حضرت ابو ادریس رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے حضرت معاذ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا میں آپ سے صرف اللہ تعالیٰ کے لیے محبت کرتا ہوں تو انہوں نے کہا میں آپ کو وہ بشارت سناتا ہو جو میں نے حضور نبی کریم ﷺسے سنی ہے۔ آپ ؐ نے فرمایاروز حشر عرش الٰہی کے ارد گرد کرسیاں سجائی جائیں گی۔ ان پر وہ گروہ بیٹھے گا جن کے چہرے بدر کامل کی طرح چمک رہے ہوں گے تمام مخلوق پرقیامت کی ہولناکیوں کی وجہ سے لرزہ طاری ہو گا مگر وہ انتہائی مطمئن ہوں گے۔ تمام لوگ خوف زدہ ہوں گے مگر وہ پْرسکون ہوں گے۔ یہ اللہ تعالیٰ کے اولیاء کرا م رحمہم اللہ ہوں گے جنہیں کوئی غم نہیں ہو گا۔ صحابہ کرام نے عرض کیا وہ کون لوگ ہو ں گے تو آپ  نے فرمایاجو اللہ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کریں گے۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:وہ دو فرد جو اللہ تعالیٰ کے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں۔ ان میں سے اللہ تعالیٰ کو پسندیدہ تر وہ ہو گا جو اپنے دوست سے زیادہ محبت کرے گا۔ نبی آخرالزماں ؐ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ فرماتا ہے وہ لوگ میری محبت کے لائق ہیں جو میرے لیے ایک دوسرے سے ملاقات کرتے ہیں۔ میرے لیے ایک دوسرے سے محبت کرتے ہیں میرے لیے ایک دوسرے کے مال میں در گزر کرتے ہیں اور میرے لیے ایک دوسرے کی اعانت کرتے ہیں۔ 
اللہ تعالیٰ نے حضرت دائود علیہ السلام کی طرف وحی نازل فرمائی اے دائود لوگوں سے بھاگ کر کنج تنہائی میں کیوں بیٹھے ہو، انہوں نے عرض کی مولا تیری محبت نے میرے دل سے مخلوق کی یاد مٹا دی ہے اب میں اس سے گریزاں ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا اے دائود بیدار ہو جائو۔ اپنے بھائیوں کے پاس چلے جائو۔ جو دین کی راہ میں تیرامعاون نہ ہو اس سے دور ہو جائو وہ تیرا دل سیاہ کر دے گا۔ تجھے میری بارگاہ سے دور کر دے گا۔

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 41-44 Part-02.کیا ہم نے دنیا کو آخرت کے مقا...

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 41-44 Part-01.کیا اللہ تعالی کی بندگی سے ہم...

پیر، 4 اگست، 2025

حرص و لالچ اور کنجوسی

 

 حرص و لالچ اور کنجوسی

حرص و لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا ہر انسان حرص و لالچ میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے وہ بے شمار مصائب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جب انسان اس میں مبتلا ہو جاتا ہے تو انسان کے دل میں مزید کی تمنا بڑھتی چلی جاتی ہے۔ 
حضورنبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : انسان کے پاس اگر دو بڑے میدان سونے کے انباروں سے بھر جائیں پھر بھی اس میں تیسرے کی تمنا رہے گی یہاں تک کہ وہ منوں مٹی کے نیچے پہنچ جائے۔ 
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو چیزیں ہمیشہ جوان رہتی ہیں ایک مال کی حرص اور دوسری عمر کی حرص ( بخاری )۔ 
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : مرتبے کے لحاظ سے قیامت کے روز سب انسانوں سے بد تر وہ ہو گا جس نے دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت خراب کر لی۔ (ابن ماجہ )۔ 
اگر انسان یہ بات ذہن نشین کر لے کہ جو چیز ہماری قسمت میں لکھی جا چکی ہے وہ عمر ہو یا دولت وہ مل کر ہی رہنی ہے وہ بدل نہیں سکتی تو انسان حرص و لالچ سے بچ جائے گا۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : آدمی کی نجات تین چیزوں میں ہے اول یہ کہ ظاہر اور باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے دوسرا یہ کہ امیر ہو یا فقیر خرچ میں میانہ روی اختیار کرے اور تیسرا یہ کہ غم ہو یا خوشی ہر حال میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے۔ 
مزید ارشاد فرمایا : جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا سے بے نیاز کر دیتا ہے اور جو شخص فضول خرچی کرتا ہے اللہ اسے ددسروں کا محتاج بنا دیتا ہے اور فرمایا خرچ کرتے وقت تدبیر اور آہستگی سے کام لو یہ قدم آدھی روزی سے تعلق رکھتا ہے۔ 
حرص و لالچ اور مال جمع کرنے کی عادت ہی انسان کو کنجوس بنا دیتی ہے اور وہ ہر معاملے میں بخل اور کنجوسی سے کام لیتا ہے۔ کنجوسی بہت بْری عادت ہے اس عادت میں مبتلا انسان دوسروں کا حق مارتا ہے اور اس میں انتہائی تنگ نظری پیدا ہونے لگتی ہے۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا : سخی اللہ کے قریب ہے، جنت سے قریب ہے،انسانوں سے قریب ہے ، جہنم سے دور ہے اور فرمایا بخیل اللہ تعالیٰ سے دور ہے ، جنت سے دور ہے ، انسانوں سے دور ہے ، جہنم سے قریب ہے اور جاہل سخی عبادت گزار بخیل سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو پیارا ہے ( مشکوۃ شریف)۔

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 27-29 Part-07.کیا ہم نے رحمانی صفات کو اپنا...

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 27-29 Part-06.کیا ہمیں کسی صاحب دل کی تلاش ...

اتوار، 3 اگست، 2025

صحت : نعمت الٰہی

 

صحت : نعمت الٰہی

اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شما ر نعمتوں اور انعامات سے نوازا ہے جس میں ایک نعمت صحت و تندرستی بھی ہے۔حضور نبی کریم ﷺ نے جسمانی صحت کا خیال رکھنے کے لیے بہت بار حکم فرمایا ہے۔
 آپ ؐ نے ارشاد فرمایا : یقینا تمہارے جسم کا تم پر حق ہے ‘‘۔(بخاری ، مسلم )۔
اللہ تعالیٰ نہ ہی ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اپنی جسمانی صحت کا خیال نہیں رکھتے اور زہدو تقویٰ کے نام پر دنیا کو چھوڑ کر جسم کی پاکیزگی ، غذا ، صفائی ، طہارت اور دیگر جسمانی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے اور نہ ہی اسلام میں ایسے لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے جو اپنی زندگی کا مقصد ہی کھانا پینا اور جسم کی پرورش سمجھتے ہیں۔ 
دین اسلام میں ہر حکم انسانی صحت کی نشوو نما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔نماز ، روزہ ، کھانے پینے کے آدا ب ، سونے اور جاگنے کے آداب اور لباس پہننے سے متعلق احکام انسانی صحت پر اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اگر انسان صحت مندہے تو وہ اچھے اور احسن طریقے سے عبادت کرسکتا ہے اور اپنی زندگی کے معاملات کو بھی اچھے طریقے سے دیکھ سکتا ہے۔ اس کے بر عکس انسان صحت مند نہ ہو تو وہ نہ ہی عبادت اچھے طریقے سے کر سکتا ہے اورنہ ہی باقی معاملات زندگی کو احسن انداز میں چلا سکتا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کے ذریعے انسانی صحت کی فلاح کا اہتمام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے حد پیار فرماتا ہے اس لیے وہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے صحت مند رہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اس لیے اس میں روح کی بالیدگی اور بہتر جسمانی نشو و نما کے لیے واضح خطوط کا تعین کیاگیا ہے۔ 
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک چیز اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور دوسری ناپسندہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو تقوی و پرہیز پسند ہے اور فسق و فجور نا پسند ہے ، ایمان پسند ہے اور کفر نا پسند ہے۔ اسی طرح صحت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اوربیماری نا پسند۔ کیوں کہ صحت و تندرستی پر ہی عبادت و ریاضت اور دینی و دنیوی معاملات کا دارو مدار ہے۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : اللہ جن چیزوں کا سوال کرتا ہے ان میں محبوب ترین عافیت کا سوال ہے۔ 
حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : جس انسان میں تین باتیں پائی جاتی ہوں ایسا ہی ہے جیسے اسے پوری دنیا کی نعمتیں سمیٹ کردے دی گئی ہوں۔ جس شخص نے صبح اس حالت میں کی کہ اسے جسمانی صحت حاصل ہے اور وہ اپنے گھر میں خوش ہے اور اس کے پاس ایک دن گزارنے کے لیے مال ہے، گویا اس کو دنیا سمیٹ کر دے دی گئی ہے۔(ترمذی ، ابن ماجہ)۔

حکمت کی بات - فراست کیسے حاصل کریں؟

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 27-29 Part-05.کیا ہم مرنے کے بعد دوبارہ زند...

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 27-29 Part-04.کیا آخرت پر ہمارا یقین بالکل ...

ہفتہ، 2 اگست، 2025

باطنی آداب اور نماز (2)

 

   باطنی آداب اور نماز (2)

نماز میں عاجزی و انکساری ضروری ہے۔ بندے کے بدن کا ہر ایک عضو گڑ گڑاکراللہ تعالیٰ سے بھیک مانگ رہاہو گا۔ نبی کریم ﷺ کی آنکھو ں سے نماز کی حالت میں آنسو جاری ہو جاتے تھے اور روتے روتے ان کی ہچکی بندھ جاتی تھی۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اپنے رب کو صبح وشام یاد کیجیے دل ہی دل میں گڑ گڑا تے ہوئے اور اس سے ڈرتے ہوئے۔اور پست آواز سے بھی اور غافلوں میں سے نہ ہو نا‘‘۔ (الاعراف)۔
نماز اللہ تعالیٰ کو یاد کرنے کا سب سے بہتر اوراعلیٰ ذریعہ ہے۔ نماز کی حفاظت کرنا بھی باطنی آداب میں سے ہے۔یعنی کہ نماز کا ہر ایک رکن آرام و اطمینان کے ساتھ ادا کرنا۔ مشکوۃ شریف میں حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ ایک آدمی مسجد میں آیا اس نے جلدی میں نماز پڑھی اور نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہو کر سلام عرض کیا۔ نبی کریم ﷺ نے سلام کا جواب دیا اور کہا جائو دوبارہ نماز پڑھو۔ وہ آدمی گیا اس نے دوبارہ نماز پڑھی۔وہ پھر نبی کریم ﷺ کی بارگاہ میں حاضر ہوا آپﷺ نے فرمایا جا پھر نماز پڑھ۔ اس نے پھر نماز پڑھی اسی طرح تیسری بار ہوا اس آدمی نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺ میں کس طرح نماز پڑھوں۔آپ ﷺ نے فرمایا کامل وضو کر پھر قبلہ رخ کھڑا ہو کر قرآن میں سے وہ پڑھ جو تمہیں یاد ہو۔پھر آرام و سکون کے ساتھ رکوع و سجود کر یعنی آرام اور اطمینان کے ساتھ نماز پڑھ۔
اسی طرح باجماعت نماز ادا کرنا بھی باطنی آداب میں شامل ہے کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : با جماعت نماز ادا کرنا اکیلے نماز ادا کرنے سے ستائیس درجے افضل ہے۔ اسی طرح وقت کی پابندی ، احساس قربت اور اخلاص بھی نماز کے باطنی آداب میں شامل ہیں۔ جب بندہ پورے اطمینان اور ادب کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو وہ اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کر لیتا ہے اور گناہوں سے بچ جاتا ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ’’ بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے ‘‘۔نماز تزکیہ نفس کا اہم ذریعہ ہے۔نماز انسان کو غرور ، حسد ، کینہ و بغض اور دنیا پرستی سے روکتی ہے۔
 بقول علامہ محمد اقبال 
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز 
نہ کوئی بندہ رہا نہ کوئی بندہ نواز۔
نماز صرف فرض عبادت نہیں بلکہ روح کی غذا ، دل کی صفائی اور اللہ سے ملاقات کا ذریعہ ہے۔لیکن اس کے لیے تمام ظاہری و باطنی آداب کو اپنانا ضروری ہے۔اخلاص ، خشوع و خضوع ، احساس حضوری ، تدبر جیسے اوصاف سے نماز میں ایک روحانی کیفیت حاصل ہو تی ہے۔ 
یہ اک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے 
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات۔

حکمت کی بات - ہمیں فراست کیسے حاصل ہوگی؟

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 27-29 Part-03.کیا ہم صرف برائے نام مسلمان ہیں

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 27-29 Part-02.کیا ہم سب بدعمل لوگ ہیں

جمعہ، 1 اگست، 2025

باطنی آداب اور نماز (۱)

 

 باطنی آداب اور نماز (۱)

اسلام کی روح اور اس کی بنیاد عبادت ہے اور عبادات میں سب سے افضل اور عظیم عبادت نماز ہے۔نماز صرف ایک جسمانی عمل نہیں بلکہ ایک روحانی سفر ہے۔نماز سے بندے کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط ہوتا ہے۔نماز کے ظاہری ارکان جیساکہ قیام ، رکوع ، سجوداور قعدہ وغیرہ ہیں ان کے ساتھ ساتھ نماز کے کچھ باطنی آداب بھی ہیں جن کے بغیر نماز صرف جسمانی مشق بن کر رہ جاتی ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ ’’ میری یاد کے لیے نماز قائم کرو‘‘۔ اس آیت سے واضح ہو جاتا ہے کہ نماز اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے اور یہ ذکر صرف الفاظ تک محدود نہیں ہونا چاہیے بلکہ دل کی گہرائیوں سے بجا لانا چاہیے۔ نماز کے باطنی آداب وہ روحانی کیفیات ہیں جن کے بغیر نماز کی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی۔ 
نماز کا سب سے پہلا ادب ہے خشوع و خضوع۔ یعنی بندہ آرام اور اطمینان کے ساتھ نماز ادا کرے اور اس کے دل پر اللہ تعالیٰ کا جلال اور ہیبت طاری ہو۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’ بیشک وہ ایمان والے فلاح پا گئے جو اپنی نمازوں میں خشوع اختیار کرتے ہیں ‘‘(المومنون)۔
جو بندہ خشوع خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتا ہے تو اس کے لیے نماز بوجھ نہیں بلکہ دل کا سکون اور اطمینان کا باعث بن جاتی ہے۔
 ارشادباری تعالیٰ ہے : ’’بیشک نماز ضرور بھاری ہے مگر خشوع اختیار کرنے والوں پر نہیں ‘‘۔ ( البقرہ )۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب آدمی نماز سے فارغ ہوتا ہے تو اس کے لیے ثواب کا دسواں حصہ لکھ دیا جاتا ہے ، بعض کے لیے نواں ، بعض کے لیے آٹھواں ، ساتواں ، چھٹا ، پانچواں ، چوتھا ، ، تیسرا اور کسی کے لیے آدھا حصہ لکھ دیا جاتا ہے۔
 نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ اس کی طرف دیکھتا بھی نہیں جو توجہ قلب کے ساتھ نماز ادا نہ کرے۔ ( احیاء  العلوم )۔
اس کے بعد آتا ہے کہ بندہ جب نماز کے لیے کھڑا ہو تو اس کا دل دنیا داری سے مکمل طور پر کٹ جائے اور وہ خالص یکسو ہو کر اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں حاضر ہو۔ اگر نماز کے دوران دل دنیا کے خیال میں مگن ہو تو نماز صرف ظاہری حرکات کا مجموعہ بن جاتی ہے۔ جب بندہ نماز میں کھڑا ہو تو اسے یہ شعور ہو کہ میں اللہ تعالیٰ کے سامنے کھڑا ہو ں نمازا للہ تعالیٰ سے ہم کلامی اور سرگوشیاں کرنے کا نام ہے۔ اس لیے وہ جو کچھ کہہ رہا ہو اسے پتہ ہو اور اسے سمجھتا ہو۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ نشے کی حالت میں نماز کے قریب نہ جائو یہاں تک کہ تم اس چیز کو سمجھنے لگو جو کچھ تم کہ رہے ہو۔ حدیث جبریل کا مفہوم ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو گویا کہ تم اسے دیکھ رہے ہو یہ ممکن نہ ہو تو کم از کم یہ شعور رکھو کہ اللہ تمہیں دیکھ رہا ہے۔

زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱)

  زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱) انسانی شخصیت کی خوبصورتی اور کمال میں زبان اورکلام کا بہت گہرا تعلق ہے۔ جس طرح زبان کے غلط استعمال سے معا...