اتوار، 31 اگست، 2025

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 33-35. کیا ہم قرآن پاک کو اپنے ع...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 32.حق سے انکار کرنے والے پر جنت ...

اسلام سے قبل عرب کے حالات

 

اسلام سے قبل عرب کے حالات

اسلام سے قبل عرب کے حالات بہت خراب تھے لوگ جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہو ئے تھے۔ عرب میں معاشرتی ، تمدنی ، اخلاقی کمزوریاں اس قدر بڑھ گئی تھیں کہ عرب کے رہنے والے انسان برائے نام ہی انسان رہ گئے تھے۔آداب معاشرت بالکل ختم ہو چکے تھے۔ ہر طرف ظلم و ستم ، جبرو تشدد نے ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ کفرو جہالت کی تاریکیوں میں ڈوبے ہوئے تھے۔ فحش باتوں سے بالکل بھی نہیں بچا جاتا تھا۔بے حیائی اس قدر عام ہو گئی تھی کہ حج کے موقع پر برہنہ حالت میں طواف کیا جاتا تھا۔ ہر شخص اپنے افعال اور اقوال میں آزاد تھا۔خوبصورت اور نوجوان لڑکیوں کے نام پر اشعار لکھے جاتے تھے اور بازاروں میں سر عام گایا جاتا تھا۔ کو ئی ولولہ اور ارمان چھپا کر نہیں رکھا جاتا تھا۔ زنا پر نادم ہو نے کی بجائے فخر کیا جاتا تھا۔ عرب کے لوگوں کے لیے شراب اور دیگر نشہ آور چیزوں سے زیادہ محبوب کوئی مشغلہ نہیں تھا۔ پھر نشہ کی حالت میں بد مست ہو کر نہایت شرم ناک افعال کیے جاتے اور ان پر فخر کیا جا تا تھا۔ قمار بازی شرفا ء  اور امراء کا بہترین مشغلہ تھا۔ ہر جگہ قمار خانے کھلے ہو ئے تھے جن میں عرب کے بڑے بڑے رئیس شامل ہوتے تھے اور بڑی بڑی رقوم ہارتے اور جیتتے تھے۔ سود خوری نہایت ہی معزز پیشہ سمجھا جاتا تھا۔ نہایت ہی بے دردی سے ضرورت مندوں کی مجبوریوں کا فائدہ اٹھا کر ان کو لوٹا جاتا تھا۔ لونڈیوں کو ناچنا گانا سکھا کر بازاروں میں بیٹھا دیا جا تا تھا اور وہ جو کما کر لاتی تھیں وہ سب کچھ آقا کا ہوتا تھا اور اس پیسے سے بڑی بڑی دعوتیں کی جاتی تھیں۔
 د و قبیلوں کے درمیان اگر کوئی جنگ چھڑ جاتی تھی تو پچیس پچیس ، تیس تیس سال تک جاری رہتی تھی۔ ہزاروں لوگ ان جنگوں میں مارے جاتے تھے۔ یہ لڑائیاں شعرو شاعری اور گھوڑ دوڑ کی وجہ سے ہوتی تھی۔ عورت کو انتہائی معیوب سمجھا جاتا تھا اور معاشرے میں اس کی کوئی عزت نہیں تھی۔ ہر قبیلے اور گھر نے اپنا الگ الگ بت بنایا ہواتھا۔ مگر ہبل ، اساف ، نائلہ ، لا ت و منات ان کو بہت عزت والے  سمجھا جاتا تھا اور لوگ ان کی پرستش کرتے تھے۔ دہریے کسی پیغبر یا آسمانی کتاب کو نہیں مانتے تھے۔ یہ خدا کا بھی انکار کرتے تھے اور ان کا خیال تھا کہ یہ دنیا ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ ہی رہے گی۔ یہودیوں نے خانہ کعبہ میں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کے نام کے بت رکھے اوران کی پوجا کرتے تھے۔ عیسائی تثلیث کے قائل تھے اور انہوں نے بھی تین بت کعبہ میں رکھے ہوئے تھے جن کی وہ پوجا کرتے تھے۔

ہفتہ، 30 اگست، 2025

ماہ ربیع الاوّل اور ہماری ذمہ داریاں(۲)

 

ماہ ربیع الاوّل اور ہماری ذمہ داریاں(۲)

نبی کریمﷺ نے مساوات ، اخوت و بھائی چارہ اور خدمت خلق پر مبنی معاشرے کی بنیاد رکھی۔ آپ   نے عورتوں کو کھویا ہوا مقام واپس دلایا ،غلاموں کو آزادی کی راہ دکھائی اور انہیں معاشرے کا با عزت فرد قرار دیا اور یتیموں اور مسکینوں کو ان کے حقوق دلائے۔آج کے دور میں معاشرے میں ناانصافی ، ظلم و جبر اور بد عنوانی کی بڑی وجہ سیرت نبوی ﷺ  سے دوری ہے۔
حضور نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ سے ہمیں خدمت خلق کا نمایاں پہلو ملتا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا تم میں سے بہترین وہ ہے جو دوسروں کو نفع پہنچاتا ہے۔ آج مہنگائی بہت زیادہ ہے۔ ضرورت اشیاء کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ غریب دو وقت کی روٹی سے محروم ہے یا بڑی مشکل سے میسر ہے۔جو لوگ بیمار ہیں وہ ادویات سے محروم ہیں۔ اس ماہ مقدس میں ہمیں یہ عہد کرنا ہو گا کہ ہم ضرورت مندوں کی مدد کریں گے ، یتیموں کا سہارا بنیں گے اور جس قدر ہو سکا خدمت خلق کریں گے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اس ماہ مقدس کو اصلاح نفس ، تجدید عہد اور سنت نبوی ؐ کے احیاء کا ذریعہ بنائیں۔جب تک ہم عملی طور پر حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کو نہیں اپنائیں گے تب تک نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کا دعویٰ محض زبانی دعویٰ ہے۔اگر ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حقیقی عشق ہے تو آپ ؐ کی سیرت کی عملی جھلک ہماری زندگیوں میں نظر آنی چاہیے۔ 
ماہ ربیع الاوّل کا حقیقی پیغام یہی ہے کہ ہم اپنے پیارے محبوبﷺ کی سیرت کو پڑھیں ،سمجھیں اور اس پر عمل پیرا ہوتے ہوئے دوسروں تک بھی پہنچائیں۔ہمیں اپنی انفرادی زندگیوں کو عبادات ، اخلاق اور تعلقات کو سنت نبویؐ کے مطابق ڈھالنا ہوگا جبکہ اجتماعی سطح پر عدل و انصاف ، مساوات اور خدمت خلق کے اصولوں کو اپنانا ہو گا۔ 
اس ماہ مقدس میں اللہ تعالیٰ نے اپنی خاص رحمت سے وہ نبی عطا فرمایا جن کی اطاعت میں ہی ہماری نجات ہے۔ اس ماہ مقدس کی حقیقی خوشی محسوس کرنے کے لیے ہمیں اپنے دلوں میں عشق مصطفی ؐ کی شمع روشن کرنی ہو گی اور اپنی زبانوں کو درود سلام کے نذرانے سے معطر کرنا ہو گا۔اور اپنی زندگیوں میں صدق ، عدل ، خدمت اور بھائی چارے کو فروغ دینا ہو گا۔ جب ہم اپنی زندگیوں کو سیرت طیبہ کے سانچے میں ڈھال لیں گے تو دنیا امن و سکون کا گہوارہ بن جائے گی اور آخرت میں بھی کامیابی ہمارامقدر بنے گی۔ربیع الاوّل ہمیں یاد دہانی کراتا ہے کہ نجات کا واحد راستہ اسوہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم  کی پیروی کرنا ہے۔

حکمت کی بات - کیا ہم ہدایتِ الٰہیہ کی کوئی ضرورت محسوس کرتے ہیں؟

حکمت کی بات - کیا قرآنِ پاک کی ہمیں کوئی ضرورت ہے؟

راہِ نجات - کیا ہماری روشِ زندگی مشرکانہ ہے؟

جمعہ، 29 اگست، 2025

ماہ ربیع الاوّل اور ہماری ذمہ داریاں(۱)

 

ماہ ربیع الاوّل اور ہماری ذمہ داریاں(۱)

ماہ ربیع الاوّل تاریخ اسلام کا وہ بابرکت مہینہ ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان پر ایک عظیم احسان فرمایا اور اپنے پیارے محبوب خاتم الرسل خاتم الانبیاء حضور نبی کریم ﷺ کو مبعوث فرمایا جنہوں نے انسانیت کو اندھیروں سے نکال کر نور ہدایت کا راستہ دکھایا اور عورتوں ، بیوائوں، یتیموں اور غلاموں کو ان کا کھویا ہوا مقام دلایا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’بیشک اللہ کا بڑا احسان ہوا مومنوں پر کہ ان میں انہی میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں پڑھتا ہے اور انہیں پاک کرتااور انہیں کتا ب و حکمت سکھاتا ہے ‘‘۔ (سورۃ آل عمران)۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کی خوشی میں محافل میلاد سجانا ، چراغاں کرنا ایک خوبصورت عمل ہے لیکن حضور نبی کریم ﷺسے محبت کا حقیقی تقاضا یہ ہے کہ ہم نبی کریمﷺ کی لائی ہوئی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر اپنی زندگیوں کو گزاریں۔ربیع الاول میں ہماری سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ ہم نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ کے مطالعے اور ترویج کو عام کریں۔نبی کریمﷺ کی زندگی کے ہر گوشے میں ہمارے لیے بہترین رہنمائی موجود ہے۔
سورۃ احزاب میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ :’’یقینا تمہارے لیے رسول اللہ (ﷺ) کی زندگی  بہترین نمونہ ہے ‘‘۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت طیبہ سے ہمیں ایک بہترین باپ ، ایک مثالی شوہر، ایک عادل حکمران ،ایک شفیق باپ اور رہنما جیسے بے مثال اوصاف ملتے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم گھروں ، مساجد ، مدارس اور سکولوں میں سیرت النبیؐ نوجوان نسل تک پہنچائیں تا کہ ہماری نوجوان نسل اسے اپنی عملی زندگی کا حصہ بنا سکے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی۔اطاعت خداوندی ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کی اطاعت سے مشروط ہے اور اللہ تعالیٰ بھی اسی شخص سے محبت کرتا ہے جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  سے محبت ہو۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’(اے محبوبؐ)آپ فرما دیجیے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری اتباع کرو، اللہ تم سے محبت کرے گا۔ اس ماہ مقدس میں ہماری ذمہ داری یہ بھی ہے کہ ہم اپنے اخلاق کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے مطابق ڈھالنے کی کوشش کریں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اور بیشک آپ خلق عظیم کے مالک ہیں ‘‘۔ 
آج ہمارا معاشرہ جھوٹ ، بد دیانتی ، حسد ، کینہ اور ظلم و زیادتی جیسی بیماریوں میں مبتلا ہو چکا ہے اور اس کا علاج صرف اسی صورت ممکن ہے کہ ہم سیرت طیبہ کو اپناتے ہوئے سچائی ، رحم دلی ، انصاف ، بردباری اور ایثار کو اپنی زندگیوں کا حصہ بنائیں۔ تاکہ ایک مثالی معاشرہ قائم ہو سکے۔

راہِ نجات - اللہ تعالٰی مومنوں پر بڑا مہربان ہے

جمعرات، 28 اگست، 2025

ریا کاری

 

ریا کاری

ارشاد باری تعالیٰ ہے: پس ان نمازیوں کے لیے خرابی ہے جو اپنی نماز میں سستی کرتے ہیں وہ جو ( اپنا عمل)دکھاتے ہیں اور معمولی چیزیں بھی ( ایک دوسرے کو ) نہیں دیتے ۔ ( سورۃ  الماعون) سورۃ النساء میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: لوگوں کو دکھاتے ہیں اور اللہ تعالی کا ذکر بہت کم کرتے ہیں ۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : اے ایمان والو! اپنے صدقات احسان جتاتے ہوئے اور تکلیف پہنچا کر ضائع نہ کرو اس شخص کی طرح جو اپنا مال لوگوں کو دکھانے کے لیے خرچ کرتا ہے ۔ ( سورۃا لبقر) سورۃ الکہف میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : پس جو شخص اللہ تعالیٰ سے ملاقات کی امید رکھتا ہے اسے چاہیے کہ اچھے اعمال کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ ٹھہرائے (یعنی کہ لوگوں کو دکھانے کے لیے عبادت نہ کرے ) ۔ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص شہرت حاصل کرنا چاہتا ہے اللہ تعالی اسے شہرت دیتا ہے اورجو شخص دکھاوا کرے اللہ تعالیٰ اسے دکھا دیتا ہے۔ ( مسند احمد) حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تھوڑا ریاء بھی شرک ہے ۔ ( مشکوۃ شریف) مشکوۃ شریف میں ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: مجھے تم پر سب سے زیادہ شرک اصغر کا خوف ہے ۔ صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہﷺ وہ کیا ہے؟ آپؐ نے ارشاد فرمایا: وہ ریاکاری ہے ۔ اللہ تعالیٰ قیامت کے دن فرمائے گا بندوں کو ان کے اعمال کے مطابق بدلہ دیا جائے گا ۔ تم ان لوگوں کے پاس جائو جن کو تم اپنے اعمال دکھاتے تھے پس دیکھو کیا ان کے پاس بدلہ پاتے ہو۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ ریا کار کی تین علامات ہیں : جب تنہا ہو تو سستی اختیار کرتاہے اور لوگوں کے سامنے چست و چالاک ہوتا ہے ، جب اس کی تعریف کی جائے زیادہ کام کرتا ہے ۔ اور جب اس کی مذمت کی جائے تو عمل میں کمی کرتا ہے ۔ روایت میں آتا ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایک شخص کو دیکھا جس نے اپنی گردن جھکائی ہوئی تھی ۔ آپ نے فرمایا: اے گردن جھکانے والے اپنی گردن کو اٹھا ئو خشوع گردن میں نہیں بلکہ خشوع دل میں ہے ۔ حضرت فضیل بن عیاض رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں لوگوں کے لیے عمل کو چھوڑنا ریا ہے اور لوگوں کی خاطرعمل کرنا شرک ہے اور اخلاص یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تمھیں دونوں باتوں سے بچائے ۔ریا کارکو قیامت کے دن تین ناموں سے پکار ا جائے گا اے دھوکے باز ، اے نا فرمان، اے نقصان اٹھانے والے جا ئو اور اس سے اپنا اجر وصول کرو جس کے لیے تم نے عمل کیا ہمارے پاس تمھارے لیے کوئی اجر نہیں ۔

حکمت کی بات - صرف رضائے الٰہی آخر کیوں اور کیسے؟

حکمت کی بات - روشنی کیا ہے؟

بدھ، 27 اگست، 2025

معاشرتی مذاق اور عزت نفس

 

معاشرتی مذاق اور عزت نفس

انسانی معاشرت میں تعلقات کی بنیاد حسن سلوک اور باہمی احترام پر قائم ہے۔ اگر لوگ ایک دوسرے کے جذبات اور عزت ِنفس کا خیال نہ رکھیں تو معاشرتی رشتے کمزور پڑ جائیں گے۔ مذاق ایک ایسا رویہ ہے جو بظاہر تو ہنسی خوشی کے لیے کیا جاتا ہے لیکن اگر یہ حد سے تجاوز کر جائے تو انسان کی عزت نفس کو ٹھیس پہنچتی ہے۔معاشرتی زندگی میں عزت نفس وہ قیمتی دولت ہے جس کے بغیر انسان اپنی پہچان کھو بیٹھتا ہے۔ 
مذاق اور مزاح انسانی فطرت کا حصہ ہیں۔ خوش طبعی اور مسکراہٹ دوسروں کے دل جیتنے کا ذریعہ ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے صحابہ کے ساتھ خوش طبعی فرماتے تھے لیکن آپ کے مزاح میں کبھی بھی کسی کی دل آزاری شامل نہ ہوتی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور بیشک ہم نے بنی آدم کو عزت بخشی ‘‘۔ ( سورۃ بنی اسرائیل )۔
جب اللہ تعالیٰ نے انسان کو عزت سے نوازا ہے تو کسی کو بھی یہ حق حاصل نہیں کہ وہ کسی کا تمسخر اڑاکر اس کی تضحیک کرے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں۔ عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہو ں اور نہ عورتیں عورتوں سے دورنہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بْرے نام نہ رکھو کیا ہی بْرا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ‘‘۔( سورۃ الحجرات )۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ‘‘(بخاری )۔
بدقسمتی سے آج ہمارے معاشرے میں مذاق اکثر دوسروں کی کمزوریوں ، جسمانی نقائص یا مالی حالت پر کیا جاتا ہے۔ ایک دوسروں کا نام بگاڑ نا، سوشل میڈیا پر دوسروں کی شکل و صورت اور حالات زندگی کا طنزیہ ذکر کرنا عام ہو چکا ہے جس کی وجہ سے معاشرے میں بگاڑ پیدا ہورہا ہے۔
اسلامی تعلیمات کی روشنی میں مذاق اسی وقت پسندیدہ ہو گا جب وہ دلوں کو خوش کرے اور تعلقات میں محبت بڑھائے۔ اگر مذاق دل آزاری،تحقیر اور عزت نفس کو مجروح کرنے کا سبب بنے تو یہ نہ صرف گناہ ہے بلکہ معاشرے میں نفرت ، دشمنی اور بے اعتمادی کا سبب بنتا ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنی گفتگو اور مذاق کو اعتدال اور خوش اخلاقی کے دائرے میں رکھیں اور ایسے الفاظ نہ بولیں جس کی وجہ سے کسی دوسرے کی عزت نفس مجرو ح ہو۔ 
ایک دوسرے کی عزت نفس کی حفاظت معاشرتی ذمہ داری ہے۔ ہم دوسروں سے بھی ویسا ہی رویہ رکھیں جو ہم دوسرو ں سے اپنے لیے پسند کرتے ہیں اگر ہم چاہتے ہیں کہ لوگ ہماری عزت کریں تو ہمیں بھی دوسروں کی عزت کا خیال رکھنا ہو گا۔

راہِ نجات - حساب کتاب کا وقت قریب ہے

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 28.کیا ہم سب طاغوتی قوتوں کے پیر...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 27.کیا ہمارا معاشرہ قرآن فہمی کی...

منگل، 26 اگست، 2025

فلاح یافتہ مومن کی صفات

 

 فلاح یافتہ مومن کی صفات

فلاح ایک ایسا جامع لفظ ہے جو دنیا اور آخرت دونوں میں کامیابی ، سکون اور اطمینان قلب کو شامل کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کے اٹھارویں پارے کی پہلی نو آیات میں کامیاب مومن کی صفات بیان کرنے کے بعد ان کو ملنے والے اجر کا ذکر فرمایا ہے۔ان آیات میں مومن کی وہ صفات بیان کی گئی ہیں جو حقیقی کامیابی کا راز ہیں۔کامیاب مومن کی زندگی مقصد، تقویٰ اور خدمت خلق سے عبارت ہوتی ہے۔اس کی سوچ ، عمل اور رویہ قرآن و سنت کے عین مطابق ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بیشک فلاح پا گئے ایمان والے۔
ایمان  صرف زبانی دعویٰ کا نام نہیں بلکہ دل کی گہرائی میں یقین اور عملی زندگی میں اس کا اثر پیدا کرناہے۔ کامیاب مومن اللہ تعالیٰ پر توکل کرتا ہے اور اس کے احکامات کی پابندی کرتا ہے اور ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہتا ہے۔ 
پہلی صفت یہ ہے کہ وہ نمازوں میں خشوع خضوع اختیار کرتے ہیں۔ کامیاب مومن کی نماز صرف جسمانی حرکت پر مشتمل نہیں ہوتی بلکہ وہ دل سے اپنے خالق کے حضور جھکتا ہے۔نماز اسے گناہوں سے روکتی ہے اور اس کے اخلاق کو نکھارتی ہے۔ 
دوسری صفت یہ ہے کہ وہ خود کو بیہودہ اور لغو باتوں سے بچاتے ہیں اور فضول باتوں میں اپنا وقت ضائع نہیں کرتے۔وہ جب بھی بولتے ہیں لوگوں کی فلاح اور بھلائی کے لیے بولتے ہیں اور وقت کی قدر کو جانتے ہیں۔
کامیاب مومن کی تیسری صفت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسے جو مال و متاع دیا ہے اس میں سے اللہ کی راہ میں زکوۃ و خیرات اور صدقات کرتا ہے۔وہ جانتا ہے کہ یہ مال و دولت اللہ تعالیٰ کی امانت ہے اور ضرورت مندوں میں خرچ کرنا ہی حقیقی کامیابی ہے۔ 
کامیاب مومن کی چوتھی صفت یہ ہے کہ وہ اپنی شر مگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں اور پاکیزگی و طہارت کا خیال رکھتے ہیں۔ اور خود کو حرام کاموں سے محفوظ رکھتے ہیں۔
پانچویں صفت یہ ہے کہ اگر ان کے پاس کوئی چیز امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت نہیں کرتے اور اگر وہ کسی سے وعدہ کریں تو عہد شکنی نہیں کرتے۔کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ بروز قیامت ان سے خیانت اور عہد شکنی کے بارے میں سوال کیا جائے گا۔
چھٹی صفت یہ ہے کہ کامیاب مومن اپنی نمازوں کی حفاظت کرتا ہے۔ یعنی کہ وہ نمازوں کو ان کے وقت پر اور مکمل شرائط و آداب کے ساتھ ادا کرتے ہیں اور آرام و اطمینان کے ساتھ نماز کے تمام ارکان کو ادا کرتے ہیں۔اور جس میں یہ تمام صفات موجود ہوں اللہ تعالیٰ اسے اجر عظیم عطا فرماتا ہے۔
اٹھارہویں پارے کی آیت نمبر 10 اور 11 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’یہی لوگ وارث ہیں کہ فردوس کی میراث پائیں گے۔ وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے ‘‘۔

راہِ نجات - گمراہی کے راستے کا انجام

حکمت کی بات - کیا ہم نے اندھیرے کو روشنی سمجھ لیا ہے؟

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 26.کیا ہمارے دل اللہ تعالی کی یا...

پیر، 25 اگست، 2025

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 25.کیا ہم اسفل السافلین کے مقام ...

زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(2)

 

 زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(2)

زبان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ کسی کا مذاق نہ اڑایا جائے ، کسی پر کسی بھی قسم کی طعن و تشنیع نہ کی جائے اور دل آزاری نہ کی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں۔ عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہو ں اور نہ عورتیں عورتوں سے بعید نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بْرے نام نہ رکھو۔ کیا ہی بْرا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ‘‘۔( سورۃ الحجرات )۔
اللہ تعالیٰ نے دوسروں کا مذاق اڑانے والوں ، دل آزاری کرنے والوں اور دوسرو ں کا تمسخر اڑانے والوں کو ظالم قرار دیا ہے اگر وہ توبہ نہ کریں۔انسان کو چاہیے کہ اپنی زبان سے کسی کی بھی غیبت نہ کرے کیونکہ غیبت اور کسی پر بہتان لگانا بہت بڑے گناہ ہیں۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈواور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ‘‘۔ ( سورۃ الحجرات )۔
زبان کی حفاظت کرنے والا نہ صرف اپنی آخرت سنوار لیتا ہے بلکہ ایسا شخص دنیا میں بھی بے شمار فوائد حاصل کرتا ہے۔ نرم اور سچی زبان انسان کو عزت اور وقار عطا کرتی ہے اور لوگ بھی ایسے شخص کے قریب رہنا پسند کرتے ہیں اور وہ دوستوں اور رشتے داروں کے دل جیت لیتا ہے۔ جو بندہ بات کرتے وقت احتیاط سے کام لیتا ہے اور دوسروں کو اچھی باتیں بتاتا ہے وہ معاشرے میں محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔ 
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھے زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (بخاری )۔ 
زبان اگر قابو میں نہ ہو تو یہ ایمان ، اخلاق اور معاشرتی سکون کو تباہ کر دیتی ہے۔ غیبت دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہے اور جھوٹ اعتمادکو ختم کر دیتا ہے۔ گالی گلوچ دشمنی کو فروغ دیتی ہے اور فضول گوئی وقت کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان خاموش رہے تو خاموشی عبادت اور انسان کو بے شمار گناہوں سے بچاتی ہے۔ 
زبان کی حفاظت حقیقت میں ایمان کی حفاظت ہے۔ ایک باشعور مسلمان کو چاہیے کہ اپنی زبان کو ہمیشہ خیر کے کلمات ، سچائی ، ذکر الٰہی اور نصیحت کے لیے کھولے اور اسے برائیوں سے بچائے۔زبان کے ذریعے ہی انسان جنت کا مستحق بنتا ہے اور اسی کے ذریعے ہی جہنم کاایندھن بھی بن سکتا ہے۔ زبان کی حفاظت محض اخلاقی فریضہ نہیں یہ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد ہے۔

حکمت کی بات - ناکام انسان کون ہے؟

راہِ نجات - گمراہ کون ہے؟

اتوار، 24 اگست، 2025

زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱)

 

زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(۱)

انسانی شخصیت کی خوبصورتی اور کمال میں زبان اورکلام کا بہت گہرا تعلق ہے۔ جس طرح زبان کے غلط استعمال سے معاشرے میں لڑائی جھگڑے اور فسادات شروع ہو جاتے ہیں اسی طر ح اگر اس کے غلط استعمال کی بجائے خاموشی اختیار کی جائے تو انسان کی زندگی میں وقاراور سکون پیدا ہو جاتا ہے۔انسان کو اشرف المخلوقات کا درجہ دیا گیا ہے اور دیگر مخلوقات سے جو چیز انسان کو نمایا ں کرتی ہے وہ اس کی زبان اور عقل ہے۔ زبان کے ذریعے انسان اپنے خیالات ، احساسات دوسروں تک پہنچاتا اور دوسروں کے ساتھ تعلقات کو مضبوط کرتا ہے۔زبان ہی انسان کو عزت بھی دلاتی اور ذلت بھی۔
انسان کی شخصیت اس کی زبان کے استعمال سے ظاہر ہو جاتی ہے۔اگر بولتے وقت انسان کا لہجہ نرم اور بات سچی ہو تو دل بھی صاف اور پْرخلوص سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے برعکس ہر وقت جھوٹ ، غیبت اور چغلی کے لیے استعمال کی جائے تو یہ انسان کے وقار کی گراوٹ اور باطنی خرابی کا ذریعہ بن جاتی ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’کوئی بات وہ زبان سے نہیں نکالتا کہ اس کے پاس ایک محافظ تیاربیٹھا ہو ‘‘۔ ( سورہ ق)۔یعنی انسان زبان سے جو بھی بات نکالتا ہے وہ اس کے نگہبان فرشتے کراماًکاتبین لکھ لیتے ہیں۔یہ آیت مبارکہ زبان کی ذمہ داری اوراس کے احتساب کی وضاحت کرتی ہے۔ 
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جو بندہ اللہ تعالیٰ اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے اسے چاہیے کہ وہ زبان سے اچھی بات نکالے یا پھر خاموش رہے۔
انسان اپنی زندگی میں سب سے زیادہ نقصان اپنی زبان کی لغزشوں کی وجہ سے اْٹھاتا ہے ، جھوٹ، بہتان، غیبت ، مذاق اڑانا ، گالم گلوچ ،وعدہ خلافی اور فضول گوئی ایسی بیماریاں ہیں جو انسان کے وقار کو ٹھیس پہنچاتی ہیں اور اس کے معاشرتی تعلقات کو خراب کرتی ہیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ اپنی زبان مبارک کو پکڑ کر فرمایا میرے صحابہ اسے قابو میں رکھو ،عرض کی گئی یا رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیا ہم جو کچھ بولتے ہیں اس سے پکڑے جائیں گے ؟نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، لوگ اپنی زبانوں کی بَڑ بَڑ کی وجہ سے تو اندھے منہ یا نتھنوں کے بل جہنم میں ڈالے جائیں گے۔ ( ترمذی )۔
زبان کا سب سے پہلا حق یہ ہے کہ بندہ جب بولے تو سچ بولے اور جھوٹ سے اجتناب کرے۔ سچ سے انسان کے وقار میں اضافہ ہوتا ہے اور جھوٹ نہ صرف ایک کبیرہ گناہ ہے بلکہ معاشرے میں بگاڑ کا سبب بھی بنتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے بھی جھوٹے شخص پر لعنت فرمائی ہے۔ انسان کو چاہیے کہ وہ فضول گوئی سے بچے۔ جب بھی بولے سچ بولے اور اچھی بات زبان سے نکالے ۔

حکمت کی بات - کامیاب زندگی کا راز؟

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 23.کیا ہم قرآن کی ہدایت کے خلاف ...

حکمت کی بات - کامیاب انسان کون ہے؟

ہفتہ، 23 اگست، 2025

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Part-05.کیا ہمارے دل اللہ تعا...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Part-04.کیا ہم نے دنیا ہی کو ...

راہِ نجات - بہترین تجارت

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Part-04.کیا ہم نے دنیا ہی کو ...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Pt-03.کیا ہم اندھیروں کو روشن...

جمعہ، 22 اگست، 2025

حضورﷺ کی اشیاء سے برکت

 

حضورﷺ کی اشیاء سے برکت

حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے مروی ہے کہ سب سے پہلا بچہ جو دار السلام میں پیدا ہوا وہ حضرت عبد اللہ بن زبیر ہیں۔ انہیں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں لایا گیا تو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کھجور لے کر چبائی اور اسے حضرت عبد اللہ کے منہ میں رکھ دیا۔ پس جو با برکت چیز حضرت عبد اللہ کے پیٹ میں سب سے پہلے گئی وہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  کا مبارک لعاب دہن تھا۔ ( بخاری شریف)۔ 
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  مریض کے لیے فرمایا کرتے تھے : اللہ تعالیٰ کے نام سے شفاء طلب کر رہا ہو ں ، ہماری زمین کی مٹی (یعنی شہر مدینہ کی مٹی کی برکت سے) اور ہم میں سے بعض کے (یعنی خود میرے ہی) لعاب دہن کی برکت سے اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہمارے مریض کو شفا مل جاتی ہے۔ (متفق علیہ)۔
حضرت محمود بن ربیع رضی اللہ تعالیٰ سے روایت ہے یہ وہی بزرگ ہیں کہ جب یہ بچے تھے تو رسول اللہ ﷺ نے ان کے کنویں کے پانی سے ان کے چہرے پر کلی فرمائی تھی اور عروہ نے حضرت مسوربن مخرمہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور دوسروں سے روایت کی جن میں سے ہر ایک اپنے ساتھی کی تصدیق کرتا ہے کہ حضور نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم  جب وضو فرماتے تو قریب ہوتا کہ لوگ برکت کے حصول کے لیے اس وضو کے پانی پر آپس میں لڑ پڑیں۔ 
حضرت یزید بن ابی عبید رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں میں نے حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی پنڈلی پر زخم کا ایک نشان دیکھا تو دریافت کیا اے ابو مسلم یہ نشان کیسا ہے ؟ انہوں نے فرمایا : یہ زخم مجھے غزوہ خیبر میں لگا تھا۔ لوگ کہنے لگے سلمہ زخمی ہو گئے تو میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں حاضر ہو گیا۔ آپ نے اس پر تین مرتبہ پھونک مار کر دم کیا ، چنانچہ اس کے بعد مجھے آج تک اس ٹانگ میں کبھی تکلیف محسوس نہیں ہوئی۔(بخاری)۔ 
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی والدہ حضرت ام سلیم رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم جب ان کے گھر تشریف لاتے تو وہاں قیلولہ فرماتے تھے۔ وہ آپ  کے لیے چمڑے کا گدا بچھا دیتی تھیں۔آپ  کو جب پسینہ مبارک آتا تو وہ آپ  کے پسینہ مبارک کو جمع کر کے خوشبو والی بوتل میں ڈال لیتیں۔آپ نے پوچھا اے ام سلیم یہ کیا ہے ؟ انہوں نے عرض کیا : یارسول اللہ ﷺ  یہ آپ کا پسینہ مبارک۔ اسے میں خوشبو میں ملا دیتی ہوں تا کہ خوشبو بھی زیادہ آئے اور برکت بھی ہو۔ (امام مسلم)۔

حکمت کی بات - کیا ہمیں صراطِ مستقیم پر چلنا چاہیے؟

راہِ نجات - کیا ہم اللہ تعالٰی کے رسول ﷺ کو اِیْذا رَسانی کے مجرم ہیں ؟

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Part-02.کیا ہمارے سینے اللہ ت...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 22 Part-01.کیا ہمارا دل پتھر سے ...

بدھ، 20 اگست، 2025

دل کی اصلاح کے مراحل


 

دل کی اصلاح کے مراحل

دل انسان کے وجود کا مرکز اور نیتوں کا سر چشمہ ہے۔ ایمان وکفر ، اخلاص و نفاق اور ہدایت و گمراہی کا اصل میدان دل ہی ہے۔ اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’اگاہ ہو جائو جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو پورا جسم درست ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو پورا جسم خراب ہو جاتا ہے۔ اور فرمایا کہ وہ ٹکڑا دل ہے ‘‘۔
دل کی اصلا ح کا سب سے پہلا مرحلہ ایمان اور معرفت الہی ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ جان لو کہ دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہے ‘‘۔
ایمان یہ نہیں کہ صرف دل سے اقرار لیا جائے بلکہ ایمان یہ ہے کہ دل کی گہرائیوں میں اللہ تعالیٰ کی وحدانیت ، اس کی قدرت اور اس کی رحمت کو پہچان لینا۔ جب بندہ کا دل معرفت الٰہی سے منور ہو جاتا ہے تو اس کے اندر عاجزی ، شکر جیسی صفات پیدا ہو جاتی ہیں۔دوسرا مرحلہ توبہ اور تزکیہ کا ہے۔ جب بندہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کا دل سخت اور سیاہ ہو جاتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ کوئی نہیں بلکہ ان کے دلوں پر زنگ چڑھا دیا ہے ان کی کمائیوں نے ‘‘۔ اس زنگ کو صاف کرنے کا واحد ذریعہ سچی توبہ اور نفس کی اصلاح ہے۔
جب بندہ صدق دل سے توبہ کرتا ہے تو اس کا دل نرم ہو جاتا ہے اور تزکیہ نفس انسان کے دل میں گناہوں سے نفرت اور نیکیوں کی محبت ڈال دیتا ہے۔قلب کی اصلاح کے لیے ذکر الہی بہت ضروری ہے کیونکہ جو بندہ اللہ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے اس کا دل زندہ رہتا ہے اور جو غفلت میں مبتلا ہو جائے اس کا دل مردہ ہو جاتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : ’’جو شخص اپنے رب کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ہے ان کی مثال زندہ اور مردہ کی طرح ہے۔جو بندہ نماز پنجگانہ کی پابندی کرے ، تلاوت قرآن اور دعا کے ساتھ درود شریف کی کثرت کرے ان کے دل مطمئن اورروشن رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ آزمائش اور مصیبت کے وقت صبر و شکر بھی دل کی اصلاح کا ذریعہ ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جو شکر کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے مزید عطا کرتا ہے۔ صبر اور شکر دل کو کینہ ، حسد اور مایوسی جیسی بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔تقویٰ اور خوف خدا بھی دل کی اصلاح کا اعلی درجہ ہے۔ کوئی بھی کام کرنے سے پہلے یہ سوچنا کہ یہ کام کرنے سے اللہ تعالیٰ خوش ہو گا یا پھر ناراض۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’جو اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا ‘‘۔
دل کی اصلاح ایک مسلسل سفر ہے جو ایمان سے شروع ہو کر تقویٰ پر ختم ہوتا ہے۔ایمان ، توبہ ، ذکر صبر و شکر اور تقویٰ وہ مراحل ہیں جو دل کومضبوط اور صاف کر کے اللہ تعالی کے قریب کر دیتے ہیں۔

حکمت کی بات - کیا ہمیں ہدایت الٰہیہ کی کوئی ضرورت ہے؟

پیر، 18 اگست، 2025

صبر کی اقسام اور اس کے فوائد

 

صبر کی اقسام اور اس کے فوائد

قرآن مجید فرقان حمید میں صبر کو کامیابی کی کنجی قرار دیا گیا ہے ۔ صبر محض مشکلات برداشت کرنے کا نام نہیں بلکہ ایسا ہمہ گیر عمل ہے جو زندگی کے ہر مرحلے میں مومن کی رہنمائی کرتا ہے ۔قرآن مجید میں مختلف مقامات پر صبر کا ذکر مختلف انداز میں کیا گیا ہے ۔ ارشادباری تعالیٰ ہے :’اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد چاہو بے شک اللہ صابروں کے ساتھ ہے‘۔ ( سورۃ البقرۃ)یعنی جب کوئی مشکل وقت آ جائے تو اس پر صبر کرتے ہوئے نماز ادا کریں اور اللہ تعالیٰ سے مدد طلب کریں ۔جب بندہ صبر کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کا ساتھ دیتا ہے اور اس کی مدد فرماتا ہے ۔ صبر علی الطاعۃ : اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ صبر کے ساتھ نیکی پر قائم رہے ۔ یہ صبر اس وقت درکار ہوتا ہے جب بندہ مشکلات اور مصائب اور مشکلات میں گھرا ہو اور اس کے باوجود عبادت الٰہی اور نیکی کے کام مسلسل سر انجام دیتا رہے ۔ مثلاً جتنی مرضی بڑی پریشانی یا صدمہ آ جائے مگر اس کی نماز اور دیگر عبادت میں کوئی کمی واقع نہ ہو ۔ صبر عن المعصیۃ :اس سے مراد یہ ہے کہ بندہ گناہ سے بچے ۔ یعنی جب بندے کے سامنے گناہ کا موقع ہو لیکن وہ اللہ کے خوف اور آخرت کی فکر کی وجہ سے خود کو اس گناہ سے روکے رکھے ۔ جیسا کہ حضرت یوسف علیہ السلام نے حرام کی دعوت کو ٹھکرا کر قید کو ترجیح دی ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’بے شک جو پرہیز گاری اور صبر کرے تو اللہ نیکوں کا نیگ ضائع نہیں کرتا ‘۔ ( سورۃ یوسف ) صبر علی البلاء: آزمائش اور مصیبت کے وقت صبر ۔ انسان کو زندگی میں بہت ساری آزمائشوں سے گزرنا پڑتا ہے ۔کبھی بیماری اور کبھی رزق کی تنگی یا پھر کاروبار میں نقصان یہ سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے آزمائش کا حصہ ہے ۔اور جو لوگ ان تمام تر مصائب اور مشکلات کے باوجود صبر کا دامن نہیں چھوڑتے اللہ تعالیٰ انھیں بے حساب اجر سے نوازتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’اور ضرور ہم تمھیں آزمائیں گے کچھ ڈر اور بھوک سے اور کچھ مال اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے اور خوشخبری سنا ان صبر والوں کو‘۔ ( سورۃ البقرۃ) اور جو شخص اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی خوشنودی کے لیے صبر سے کام لیتا ہے تو اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ میں صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوں ۔اور انھیں بے حساب رزق دیا جاتا ہے۔ ارشادباری تعالیٰ ہے: ’صابروں ہی کو ان کا ثواب بھرپور دیا جائے گا بے گنتی‘۔ ( سورۃ الزمر) اور جو بندہ آزمائشوں پر صبر کرتا ہے اس کے لیے جنت اور سلامتی کی خوشخبری ہے: ’سلامتی ہو تم پر تمھارے صبر کا بدلہ تو پچھلا گھر کیا خوب ملا ‘۔( سورۃ الرعد) صبر انسان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کرتا ہے ۔ جو بندہ صبراختیار کرتا ہے حقیقت میں وہ اللہ تعالیٰ کی رضا کو اپنی زندگی کا مقصد بنا لیتا ہے اور یہی حقیقی کامیابی ہے ۔

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 10 Part-01. کیا ہمارا مقصود حیات...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 08-09.کیا ہم اپنی حقیقت کو بھول ...

اتوار، 17 اگست، 2025

صحبت اور اس کے اثرات

 

صحبت اور اس کے اثرات

ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے عنقریب ان کے لیے رحمن محبت کر دے گا ‘‘۔( سورۃ مریم :آیت ۹۶)۔
یعنی وہ اپنے دلوں پر نگاہ رکھتے ہیں ، اپنے بھائیوں کے حقوق ادا کرتے ہیں اور انہیں اپنے اوپر فضیلت دیتے ہیں۔ 
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : تین باتیں تیرے بھائی کے دل میں تیرے لیے محبت بڑھاتی ہیں جب راستے میں ملے تو اسے سلام کرو ، مجلس میں اس کے لیے جگہ بناو اور اسے اس کے پسندیدہ نام سے پکارو۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ مسلمان مسلمان کا بھائی ہے تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرائو‘‘ ( سورۃ الحجرات )۔
 یہ حکم سب کے لیے ہے کہ دو مسلمان بھائیوں کے درمیان مہربانی اور لطف کی فضا پیدا کریں تا کہ کسی دوسرے سے دل آزردہ نہ ہو۔ رحمت دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا : بھائی زیادہ بنائو‘ بلاشبہ تمہارا رب رحیم و کریم ہے وہ اپنے کرم سے قیامت کے دن بھائیوں کے سامنے اپنے بندے کو عذاب نہیں دے گا۔ صحبت اللہ تعالیٰ کے لیے ہونی چاہیے کسی خواہش نفس ، دنیاوی غرض اور مقصد کی خاطر نہ ہو تا کہ اس کے آداب کی حفاظت اور پاسداری کی وجہ سے بندہ اجر کا مستحق ہو۔ 
حضرت مالک بن دینار رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے اپنے داماد مغیرہ بن شعبہ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے فرمایا : ’’اے مغیرہ جس بھائی یا دوست کی ہم نشینی سے تمہیں کوئی دینی فائدہ حاصل نہ ہو تو اسے چھوڑ دو اس میں تمہاری سلامتی ہے ‘‘۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم  نے ارشاد فرمایا کہ کمال پرہیز گاری ہے کسی بے علم کو تعلیم دینا۔ 
حضرت یحییٰ بن معاذ رازی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں بْر اہے وہ دوست جسے دعا کی درخواست کرنے کی ضرورت پڑے کیونکہ ایک لمحے کی دوستی ہمیشہ دعا میں یاد رکھنا ہے۔ بْرا ہے وہ دوست جس کے ساتھ زندگی مدارات کے ساتھ گزارنی پڑے کیونکہ صحبت کی بنیاد خوشدلی پر ہے۔ بْرا ہے وہ دوست جس سے کوتاہی پر معذرت کرنی پڑے اس لیے کہ معذرت بیگانگی کی علامت ہے صحبت میں بیگانگی ظلم ہے۔ 
سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم  نے فرمایا انسان اپنے دوست کے دین پر ہوتا ہے اس لیے تم میں سے ہر شخص کو سوچنا چاہیے کہ اس کے دوست کون ہیں ؟اگر اس کا بیٹھنا اٹھنا نیک لوگوں کے ساتھ ہے تو بْرا ہونے کے باوجود نیک کہلائے گا اور اس کی یہ نیکی بل آخر اسے نیک بنا دے گی۔ اور اگربْروں کی صحبت اختیار کرے گا ، اور نیک ہونے کے باوجود بْرا سمجھا جائے گا اس لیے کہ گویا برائیوں پر رضا مند ہے ، اور جو شخص برائی پر راضی رہتا ہے اگرچہ نیک ہو، وہ بْرا ہے۔

حقیقت رضا

 

حقیقت رضا

رضا ایک ایسی بلند روحانی کیفیت ہے جو انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مرضی اور فیصلے پر راضی رہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔لفظ ’’رضا ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں خوشی ، اطمینان اور دل کا سکون۔ رضا ایمان کی اعلی ترین منزل ہے۔ کیونکہ یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب بندہ اپنے خالق حقیقی سے کامل محبت کا رشتہ قائم کر لے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے ‘‘۔(التوبہ)
رضا کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے راضی ہو جائے اور دوسری بندے کا اپنے مالک سے راضی ہونا۔اللہ تعالیٰ کی رضا یہ ہے کہ وہ بندے کو ثواب ، نعمت ، صحت اور کرامت عطا فرمائے اور بندے کی رضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے سر تسلیم خم کرے۔رضائے الٰہی بندے کی رضا پر مقدم ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کی توفیق نہ ہو بندہ نہ تو اس کی اطاعت کرسکے گا اور نہ ہی اس کی مراد و رضا پر قائم رہ سکے گا اسی لیے بندے کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ وابستہ ہے۔ بندے کی رضا یہ ہے کہ وہ دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے چاہے وہ عطا و بخشش ہو یا پھر رنج و تکلیف کا۔اللہ تعالیٰ کچھ عطا کر ے پھر بھی شکر بجا لائے اور کچھ لے لے تو پھر بھی اس کی رضا پر راضی رہے۔ 
حقیقت رضا کا صبر سے گہرا تعلق ہے مگر یہ صبر سے ایک درجہ بلند ہے۔ صبر کا مطلب ہے آزمائش میں برداشت کرنا اور رضا کا مطلب ہے کہ آزمائش کو خوشی سے قبول کرنا۔ عملی زندگی میں رضا کا اظہار کئی صورتوں میں ہوتا ہے۔ مثلااگر کسی شخص کو کاروبار میں نقصان ہوتا ہے تو وہ اس پر مایوس نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ رکھتے ہوئے مزید محنت کرے یہ رضا ہے۔ اگر کسی شخص کو کوئی بیماری لاحق ہو جائے تو وہ اس کے علاج کے ساتھ ساتھ کوئی شکوہ زبان پر نہ لائے بلکہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے یہ رضا ہے۔ اور جو بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جائے اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں بے شمار نعمتیں عطا فرمائے گا۔
غیر اللہ کے ساتھ راضی ہونا موجب خسران و ہلاکت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ رضا باعث مسر ت و نعمت ہے اسی لیے رضائے الٰہی بادشاہی اور موجب عافیت ہے۔رضا کا سب سے بڑا ثمر دل کا سکون ہے۔شکوہ و ناراضگی انسان کے دل کو بے چین کر دیتی ہے۔ لیکن رضا دل کو نور اور اطمینان عطا کرتی ہے۔یہی وجہ حضور نبی کریم ﷺ بھی اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے کہ ’’ الٰہی مجھے اپنی قضا و قدر پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما۔

جمعرات، 14 اگست، 2025

خدمت خلق قرآن کی روشنی میں (۳)

 

خدمت خلق قرآن کی روشنی میں (۳)

حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمھارے کمزوروں کے سبب سے ہی تمھاری مدد کی جاتی ہے اور تمھیں رزق دیا جاتا ہے ۔(بخاری) اس کے علاوہ کسی جائز کام میں کسی ضرورت مند کی سفارش کرنا بھی خدمت خلق کے زمرے میں آتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: جو اچھی سفارش کرے اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو بری سفارش کرے اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔(سورۃ النساء)یعنی اگر کوئی ضرورت مند سائل آپ کے پاس کسی جائز کام کی سفارش کے لیے آتا ہے تو اس کی اس معاملے ضرور مدد کرنی چاہیے اور اللہ تعالیٰ اس کے بدلے میں اجر و ثواب عطا فرمائے گا اور اس کے برعکس اگر کوئی غلط کام کے لیے سفارش کا منتظر ہے تو اس کی مدد نہ کی جائے اگر اس کی مدد کی گئی تو اس کے گناہ کے ساتھ مدد کرنے والا بھی شریک کہلائے گا اور اسے بھی اس کی سزا میں سے حصہ ملے گا ۔ خدمت خلق ایک عظیم اور بہت بڑا کام ہے جس کا اللہ تعالیٰ کے ہا ں بے شمار اجر و ثواب ہے ۔لیکن اس کے برعکس جو لوگ اپنے مال کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور ا سے اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی بھلائی کے لیے خرچ نہیں کرتے انھیں سخت وعید سنائی گئی ہے ۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’اسے پکڑو پھر اسے طوق ڈالو ۔پھر اسے بھڑکتی آگ میں دھنسائو ۔ پھر ایسی زنجیر میں جس کا ناپ ستر ہاتھ ہے اسے پرو دو ۔بے شک وہ عظمت والے اللہ پر ایمان نہ لاتا تھا۔ اور مسکین کو کھانا دینے کی رغبت نہ دیتا‘۔ (سورۃ الحاقہ) 
سورۃ المدثر میں ہے کہ جب جنتی جنت میں چلیں جائیں گے اور جہنمی جہنم میں تو جنتی جہنمیوں سے پوچھیں گے کہ تمھیں کس چیز نے جہنم میں ڈالا توکہیں گے:’ہم نماز نہیں پڑھتے تھے اور ہم غریبوں کو کھانا نہیں کھلاتے تھے‘۔ خدمت خلق نہ صرف ایک سماجی فریضہ ہے بلکہ ایک عظیم عبادت ہے جس کا تذکرہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں کئی مقامات پر کیا ہے۔ اس عمل سے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل ہوتی ہے اور باہم محبت پیدا ہوتی ہے جس کی وجہ سے ایک پُر امن اور ترقی یافتہ معاشرہ وجود میں آتا ہے۔ جو لوگ دوسروں کی مدد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ دنیا و آخرت میں ان کی مدد فرمائے گا۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم خدمت خلق کو اپنی زندگی کا حصہ بنائیں تا کہ قرآن مجید کے سنہری اصولوں پر عمل ہو اور انسانیت حقیقی فلاح پا سکے ۔ بقول علامہ محمد اقبالؒ:
 خدا کے بندے تو ہیں ہزاروں بنوں میں پھرتے ہیں مارے مارے 
میں اس کا بندہ بنوں گا جس کو خدا کے بندوں سے پیار ہو گا 

حکمت کی بات - بندگی کا رویہ کیسے اپنائیں؟

Surah Az-Zumar Ayat 01-03 Part-06.کیا ہم اپنے آپ کو جہنم کا ایندھن بنان...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 01-03 Part-05.کیا ہمارے دل اللہ ...

خدمتِ خلق قرآن کی روشنی میں (۲)

 

خدمتِ خلق قرآن کی روشنی میں (۲)

جو لوگ اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ انہیں کئی گناہ زیادہ اجر عطا فرماتا ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ جو لوگ اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ان کی مثال اس دانہ کی طرح ہے جس نے اگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے‘‘۔ (سورۃ البقرۃ :۲۶۱)۔
سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جو لوگ میری راہ میں خالص میری رضا کے لیے مال خرچ کرتے ہیں انہیں کسی قسم کا کوئی خوف نہیں ہو گا۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ وہ جو اپنے مال خیرات کرتے ہیں رات میں اور دن میں چھپے اور ظاہر ان کے لیے ان کا اجر ہے ان کے رب کے پاس ان کو نہ کچھ اندیشہ ہو نہ کچھ غم‘‘۔ 
معاشرے میں بہت سے کمزور اور بے بس لو گ ہیں اور یہ ایک حقیقت ہے کہ یہاں ہر کوئی برابر نہیں کوئی امیر ہے تو کوئی غریب ،کوئی حاکم ہے تو کوئی محکوم اور کوئی بادشاہ تو کوئی فقیر۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر معاشرے کے کمزور مردوں ، عورتوں اور بچوں کی مدد کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :جو کسی مسلمان کی دنیا میں ایک پریشانی دور کرے گا اللہ تعالیٰ اس کی قیامت کی پریشانی دور کرتا ہے۔ اور جو دنیا میں کسی کے لیے آسانی پید ا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ اس کے لیے دنیا اور آخرت میں آسانیاں پیدا فرمائے گا۔ جو کسی مسلمان کی دنیا میں پردہ پوشی کرتا ہے اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے گا۔ آپ نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ اس وقت تک کسی بندے کی مدد فرماتا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے کسی مسلمان بھائی کی مدد کرنے میں مصروف رہتا ہے۔(ابی دائود )۔ 
اس کے علاہ نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کرنا اور کسی بھٹکے ہوئے کو سیدھا راستہ دکھانا بھی خدمت خلق میں شامل ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ تم بہترین امت ہو جسے لوگوں کے فائدے کے لیے ظاہر کیا گیا ہے تم بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے روکتے ہو ‘‘۔(سورۃ آل عمران )۔
سورۃ المائدہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ’’ تم نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے ‘‘۔
 جب کوئی صراط مستقیم سے ہٹ جائے تو اسے سیدھے راستے پر لانا بھی خدمت خلق ہے اور اگر کوئی شخص گناہ میں مبتلا ہو جائے تو اس کا ساتھ دینے کی بجائے اسے اس کام سے منع کیا جائے اور صرف اچھے اور نیک کاموں میں ایک دوسرے کا ساتھ دیا جائے۔

بدھ، 13 اگست، 2025

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 01-03 Part-04.کیا ہم نے عملا دین...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 01-03 Part-03. کیا ہم اپنے عمل س...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 01-03 Part-02.کیا ہم قرآن پاک کو...

Surah Az-Zumar (سُوۡرَةُ الزُّمَر) Ayat 1-3 Pt1.کیا ہم اللہ تعالی کی ناف...

خدمت خلق قرآن کی روشنی میں (۱)

 

 خدمت خلق قرآن کی روشنی میں (۱)

یہی ہے عبادت یہی دین و ایماں 
کہ کام آئے دنیا میں انساں کے انساں
انسانی معاشرے کی بنیاد باہمی محبت ، ایثار اور فلاح و بہبود پر قائم ہوتی ہے۔اسلام میں انسانی خدمت کو نہ صرف ایک اخلاقی وصف قرار دیا گیا ہے بلکہ اسے عبادت کا درجہ دیا گیا ہے۔ خدمت خلق حقیقت میں انسانیت کی بھلائی ، دوسروں کی مدد ، ضرورت مندوں کی حاجت روائی اور معاشرے میں خیر پھیلانے کا نام ہے۔ قرآن مجید میں بارہا اس بات کا حکم دیا گیا ہے کہ یتیموں ، مسکینوں ، محتاجوں اور کمزور طبقات کی مدد کرو۔ 
خدمت خلق سے مراد یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی مخلوق کے لیے خالصتا ً اللہ کی رضا کی خاطر بھلائی اور فائدے کے کام کرنا۔ چاہے فائدہ مالی ہو یا پھر جسمانی ،علم کی روشنی بانٹنا ہو یا کسی پریشان حال انسان کو تسلی دینا۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :لوگوں میں سب سے بہتر وہ ہے جو دوسروں کے لیے فائدہ مند ہو۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ کچھ اصل نیکی یہ نہیں کہ منہ مشرق یا مغرب کی طرف کرو ہاں اصل نیکی یہ ہے کہ ایمان لائے اللہ اور قیامت اور فرشتوں اور کتاب اور پیغمبروں پر اور اللہ کی محبت میں اپنا مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیروں اور سائلوں اور گردنیں چھڑانے میں‘‘۔ (سورۃ البقرہ :آیت ۷۷۱)۔
اس آیت مبارکہ میں یہ بات واضح ہے کہ اللہ تعالیٰ کی بندگی و عبادت کے ساتھ ساتھ دکھی انسانیت کی خدمت اور کمزور افراد کی مدد کر نا بھی ایمان کا حصہ ہے۔ 
خدمت خلق کا سب سے بڑا اور بہترین مظہر معاشرے کے غریب طبقے کی مدد کرنا ہے۔آج اس مہنگائی کے دور میں کسی غریب کو دو وقت کا کھانا کھلا دینا بہت بڑی نیکی ہے۔ غرباء کی مدد کرنا اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ اور مقرب بندوں کی نشانی ہے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’جن کے مالوںمیں سائل اور محروم کا معین حق ہے ‘‘۔( سورۃ المعارج )۔ 
اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب اور پسندیدہ بندوں کی شان و عظمت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ وہ نماز ، روزہ ،حج اور دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ میری مخلوق کی خدمت میں بھی مصروف رہتے ہیں۔ 
سورۃ السجدہ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے مقرب بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’ان کے پہلو بستروں سے الگ رہتے ہیں۔ وہ ڈرتے اور امید کرتے ہوئے اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے انہیں رزق دیا ہے وہ اس میں سے خرچ کرتے ہیں ‘‘۔
یعنی وہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور تقوی و پرہیز گاری کے ساتھ ساتھ مخلوقِ خدا میں آسانیاں بانٹتے ہیں۔ جیسے پیاسا پانی پی کر اطمینا ن اور سکون حاصل کرتا ہے ایسے ہی اللہ تعالیٰ کے نیک بندے بھی اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی خدمت کر کے دلی سکون اور اطمینان حاصل کرتے ہیں۔

منگل، 12 اگست، 2025

حکمت کی بات - علم کی حقیقت

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 84-88.اللہ تعالی کے نافرمانوں کا ٹھکانہ جنت...

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 82-83.کیا ہم اللہ تعالی کی برگزیدہ بندوں می...

ہمسائیوں کے حقوق

 

 ہمسائیوں کے حقوق


ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور عبادت کرو اللہ کی اور نہ شریک ٹھہرائو اس کے ساتھ کسی کو اور والدین کے ساتھ اچھا برتائو کرو۔ نیز رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور پڑوسی جو رشتہ دار ہے اور وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہیں ‘‘۔(سورۃ النساء )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جبرائیل امین ہمیشہ مجھے پڑوسی کے بارے میں وصیت کرتے رہے حتیٰ کہ مجھے لگا کہ اسے وراثت میں بھی حصہ دار بنا دیا جائے گا۔ ( بخاری شریف )۔
ایسا پڑوسی جو رشتہ دار ہو اور پڑوس میں رہتا ہو اس کے دو حقوق ہیں ہے ایک قرابت کی وجہ سے اور دوسرا پڑوسی ہونے کی حثیت سے۔ جبکہ اجنبی یا غیر رشتہ دار کا ایک حق ہوتا ہے اور وہ پڑوس کا حق ہے۔ لیکن پڑوسی رشتہ دار ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں پڑوسی کی عزت و تکریم ، باہمی خیر خواہی اور حسن سلوک کرنا ضروری ہے۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ حضورﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر وہ شخص ہے جو اپنے دوستوں کے حق میں بہتر ہے اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بہتر پڑوسی وہ ہے جو اپنے پڑوسیوں کے حق میں بہتر ہے۔ ( ترمذی )۔
گھر کے بالکل ساتھ والے پڑوسی کا حق زیادہ ہے اس پڑوسی کی نسبت جو دور رہتا ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں میں نے حضور نبی کریم ﷺ سے پوچھا یارسول اللہﷺ میرے پڑوس میں دو عورتیں رہتی ہیں ان دونوں میں سے میں کس کو کوئی چیز بطور ہدیہ بھیجا کرو ں ؟ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا جس کا دروازہ آپ کے گھر کے نزدیک ہے۔ ( بخاری شریف )۔
کسی بھی مسلمان کے لیے یہ بات جائز نہیں ہے کہ وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف پہنچائے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے پڑوسی کو ایذا یا تکلیف دینے سے بڑی سختی سے منع فرمایا ہے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا جو شخص اللہ تعالیٰ پر اور یوم آخرت پر یقین رکھتا ہے وہ اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ دے۔ ( بخاری شریف )۔ 
حضرت ابو شریح رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ کی قسم وہ شخص ایمان والا نہیں ! اللہ کی قسم وہ شخص ایمان والا نہیں ! آپ ﷺ سے عرض کی گئی یا رسو ل اللہ ﷺ کون سا شخص؟ آپ ﷺ نے فرمایا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے محفوظ نہیں۔ ( بخاری شریف )۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی اہے کہ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو گا جس کا پڑوسی اس کی شرارتوں سے مامون نہ ہو۔( مسلم شریف )۔

پیر، 11 اگست، 2025

حکمت کی بات - دنیا کی حقیقت؟

حکمت کی بات - ہم متقی کیسے بنیں ؟

Surah Sad (سُوۡرَةُ صٓ) Ayat 77-81.کیا ہم ایک لعنتی قوم ہیں

دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۳)

 

دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۳)

اللہ تعالیٰ نے دنیا میں مختلف لوگوں کو مختلف مراتب سے نوازا ہے۔کوئی حاکم ہے اور کوئی محکوم ، کوئی امیر اور کوئی غریب۔ یہ سب اللہ تعالیٰ نے ایک حکمت کے تحت اس کائنات کو چلانے کے لیے کیا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ دنیوی زندگی میں ان کی روزی کو ہم نے تقسیم کیا ہے او رہم نے بعض کو بعض پر فوقیت دی ہے تا کہ وہ ایک دوسرے سے کام لیں اور تیرے رب کی رحمت اس سے بہتر ہے جو یہ جمع کرتے ہیں۔( سورۃ الزخرف )۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اگر اللہ اپنے بندوں کے لیے روزی کشادہ کر دیتا تو وہ زمین میں بغاوت کر دیتے لیکن وہ اندازے کے ساتھ اتارتاہے اور جتنا چاہتا ہے ،وہ اپنے بندوں سے باخبر اور انہیں دیکھنے والا ہے ‘‘۔( سورۃ الشوری )۔
قرآن مجید میں اس بات کی وضاحت کر دی گئی ہے کہ مراتب میں اختلافات بھی آزمائش کا حصہ ہیں۔ انسان اپنی پوری کوشش کرتا ہے اورذرہ برابر بھی کوتاہی نہیں کرتا اور اس کے بعد اپنے معاملات کو اللہ کے سپرد کر دے اور اس کی تقسیم پر راضی ہو جائے تو وہ کامیاب ہو گیا۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو اچھے اور بْرے دونوں حالات میں آزماتا ہے۔کبھی اللہ اپنے بندے کو دے کر آزماتا ہے کہ وہ راہ راست پر چلتا ہے یا پھر بھٹک جاتا ہے اور کبھی بْرے حالات میں یعنی سب کچھ لے کر کہ اس حالت میں بھی بندہ میرا شکر بجا لاتا ہے یا نہیں۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور ہم تمہیں بْری اور اچھی حالت میں آزماتے ہیں پرکھنے کے لیے اور تم سب ہماری ہی طرف لوٹائے جائوگے ‘‘۔( سورۃ الانبیاء)۔
اچھی اور بری حالت آزمائش ہے اور آخر اللہ ہی کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو حقیقی کامیاب وہ ہوں گے جو ان حالات میں ثابت قدم رہے اور شکر بجا لاتے رہے۔ 
اسی طرح سورۃا لبقرہ میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :
’’ ہم کچھ خوف اور بھوک سے اور مالوں اور جانوں اور پھلوں کی کمی سے تمہیں آزمائیں گے اور ثابت قدم رہنے والو ں کو بشارت دے دو ‘‘۔ 
جب بندے پر کوئی سخت وقت آئے تو اس پر صبر کر اور جب اسے کثرت مال عطا ہو تو اسے اپنی محنت کا نتیجہ نہیں بلکہ اللہ تعالی کی عطا سمجھے اور اس کے راستے سے نہ ہٹے۔آزمائش میں اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرے اور اس کے قریب آئے کیوں کہ آزمائش میں وہی کامیاب ہو گا جو اپنے رب کے قریب ہو گا۔ اور صبر کرنے والوں کو اللہ تعالیٰ آخرت میں جزا عطا فرمائے گا۔ دنیا کی زندگی صرف کھانا پینا، سونا اور عیش و عشرت نہیں بلکہ یہ ایک عظیم امتحان ہے۔ قرآن مجید بار بار انسان کو اس طرف متوجہ کرتا ہے کہ وہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی بندگی ، شکر، صبر اور تقوی اپنانا ہی کامیابی کی راہ ہے۔

ہفتہ، 9 اگست، 2025

دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۲)

 

دنیا کی زندگی ،ایک امتحان (۲)

انسان کی زندگی بہت سے نشیب و فراز سے گزرتی ہے اور اسے بعض اوقات بہت سخت حالات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ کبھی انسان کا دامن خوشیوں سے بھر جاتا ہے اور ان خوشیوں کے آنگن کو غم گھیر لیتے ہیں۔ کبھی انسان کی زندگی کامیابیوں سے بھر جاتی ہے اور کبھی ناکامیاں اس کا مقدر بن جاتی ہیں۔کبھی صحت جیسی عظیم نعمت میسر ہوتی ہے اور کبھی اللہ تعالیٰ بیماری دے کر آزماتا ہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو مختلف حالات کے ذریعے آزماتا ہے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ ہم تمہیں اچھے اور بْرے حالات سے آزماتے ہیں اور تم ہماری طرف ہی لوٹ کر آئو گے ‘‘۔ ( سورۃ الانبیاء )۔
سورۃا لاعراف میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :
’’ اور ہم نے اچھے اور بْرے حالات میں ان کی آزمائش کی تاکہ وہ باز آ جائیں ‘‘۔ 
ان آیات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے کو مال و دولت کی کمی ، غم اور بیماری کے ذریعے آزماتا ہے کہ میرا بندہ صرف خوشحالی میں ہی میرا شکر بجا لاتا ہے یا پھر تنگدستی میں صبر کرتے ہوئے میرا شکر ادا کرتا ہے۔ بعض اوقات اللہ تعالیٰ مال و دولت کی کثرت کے ساتھ بھی اپنے بندوں کو آزماتا ہے کہ کہیں وہ اچھے حالات میں باغی ہو کر اللہ تعالی کے راستے سے ہٹتے ہیں یا دامن الہی کو تھامے رکھتے ہیں۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور جان لو تمہارے مال اور تمہاری اولاد ایک آزمائش ہیں۔ اور بیشک اللہ کے پاس ہی بہت بڑا اجر ہے۔ ( الانفال )۔
اولاد کا زیادہ ہونا اور مال کی کثرت ہونا کامیابی کی دلیل نہیں بلکہ یہ انسان کی آزمائش ہے۔ اللہ تعالی کسی کو بیٹے دے کر آزماتا ہے اور کسی کوبیٹیاں اور کسی کو بے اولاد رکھ کر۔ کسی کو اللہ تعالیٰ مال کی کثرت سے آزماتا ہے اور کسی کو مال کی کمی بیشی کر کے۔ اور حقیقی کامیاب شخص وہی ہے جو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی رضا میں راضی رہا اور مال کی کثرت کی وجہ سے شیطان کے راستے پر نہ چلا۔مال و دولت اس بات کی علامت نہیں کہ اللہ جس سے راضی ہو اسے زیادہ دے دیا اور جس سے ناخوش اسے کم۔ بلکہ اللہ اسی سے راضی ہو گا جو مال و اولاد کی آزمائش پر پورا اترے گا۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ فرمادیجیے کہ بیشک میرا رب جسے چاہتا ہے زیادہ روزی دیتا ہے اور جسے چاہتا ہے کم کر دیتا ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے ‘‘۔( سورۃ سبا )۔
اسی لیے اللہ تعالیٰ نے سورۃ المنافقون میں ارشاد فرمایا : ’’ اے ایمان والو تمہارے مال اور تمہاری اولاد تمہیں اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دیں اور جو ایسا کریں گے وہی خسارہ اٹھانے والے ہوں گے ‘‘۔ 
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ واضح فرما دیا کہ مال و دولت اور اولاد مقصد حیات نہیں بلکہ زندگی کی آزمائش ہے۔