اتوار، 17 اگست، 2025

حقیقت رضا

 

حقیقت رضا

رضا ایک ایسی بلند روحانی کیفیت ہے جو انسان کو ہر حال میں اللہ تعالیٰ کی مرضی اور فیصلے پر راضی رہنے کا حوصلہ دیتی ہے۔لفظ ’’رضا ‘‘ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی ہیں خوشی ، اطمینان اور دل کا سکون۔ رضا ایمان کی اعلی ترین منزل ہے۔ کیونکہ یہ کیفیت اسی وقت پیدا ہوتی ہے جب بندہ اپنے خالق حقیقی سے کامل محبت کا رشتہ قائم کر لے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ ان سے راضی ہو گیا اور وہ اللہ سے ‘‘۔(التوبہ)
رضا کی دوصورتیں ہیں ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے سے راضی ہو جائے اور دوسری بندے کا اپنے مالک سے راضی ہونا۔اللہ تعالیٰ کی رضا یہ ہے کہ وہ بندے کو ثواب ، نعمت ، صحت اور کرامت عطا فرمائے اور بندے کی رضا یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے احکام کی پیروی کرتے ہوئے سر تسلیم خم کرے۔رضائے الٰہی بندے کی رضا پر مقدم ہے کیونکہ جب تک اللہ تعالیٰ کی توفیق نہ ہو بندہ نہ تو اس کی اطاعت کرسکے گا اور نہ ہی اس کی مراد و رضا پر قائم رہ سکے گا اسی لیے بندے کی رضا اللہ تعالیٰ کی رضا کے ساتھ وابستہ ہے۔ بندے کی رضا یہ ہے کہ وہ دونوں صورتوں میں اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے چاہے وہ عطا و بخشش ہو یا پھر رنج و تکلیف کا۔اللہ تعالیٰ کچھ عطا کر ے پھر بھی شکر بجا لائے اور کچھ لے لے تو پھر بھی اس کی رضا پر راضی رہے۔ 
حقیقت رضا کا صبر سے گہرا تعلق ہے مگر یہ صبر سے ایک درجہ بلند ہے۔ صبر کا مطلب ہے آزمائش میں برداشت کرنا اور رضا کا مطلب ہے کہ آزمائش کو خوشی سے قبول کرنا۔ عملی زندگی میں رضا کا اظہار کئی صورتوں میں ہوتا ہے۔ مثلااگر کسی شخص کو کاروبار میں نقصان ہوتا ہے تو وہ اس پر مایوس نہ ہو بلکہ اللہ تعالیٰ پر توکل اور بھروسہ رکھتے ہوئے مزید محنت کرے یہ رضا ہے۔ اگر کسی شخص کو کوئی بیماری لاحق ہو جائے تو وہ اس کے علاج کے ساتھ ساتھ کوئی شکوہ زبان پر نہ لائے بلکہ ہر حال میں اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرے یہ رضا ہے۔ اور جو بندہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی ہو جائے اللہ تعالیٰ اسے دنیا و آخرت میں بے شمار نعمتیں عطا فرمائے گا۔
غیر اللہ کے ساتھ راضی ہونا موجب خسران و ہلاکت ہے اور اللہ تعالیٰ کے ساتھ رضا باعث مسر ت و نعمت ہے اسی لیے رضائے الٰہی بادشاہی اور موجب عافیت ہے۔رضا کا سب سے بڑا ثمر دل کا سکون ہے۔شکوہ و ناراضگی انسان کے دل کو بے چین کر دیتی ہے۔ لیکن رضا دل کو نور اور اطمینان عطا کرتی ہے۔یہی وجہ حضور نبی کریم ﷺ بھی اللہ تعالیٰ سے دعا فرماتے کہ ’’ الٰہی مجھے اپنی قضا و قدر پر راضی رہنے کی توفیق عطا فرما۔

کوئی تبصرے نہیں:

ایک تبصرہ شائع کریں