زبان کی حفاظت اور اس کے ثمرات(2)
زبان کی حفاظت کے لیے ضروری ہے کہ کسی کا مذاق نہ اڑایا جائے ، کسی پر کسی بھی قسم کی طعن و تشنیع نہ کی جائے اور دل آزاری نہ کی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اے ایمان والو نہ مرد مردوں سے ہنسیں۔ عجب نہیں کہ وہ ان ہنسنے والوں سے بہتر ہو ں اور نہ عورتیں عورتوں سے بعید نہیں کہ وہ ان ہنسنے والیوں سے بہتر ہوں اور آپس میں طعنہ نہ کرو اور ایک دوسرے کے بْرے نام نہ رکھو۔ کیا ہی بْرا نام ہے مسلمان ہو کر فاسق کہلانا اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم ہیں ‘‘۔( سورۃ الحجرات )۔
اللہ تعالیٰ نے دوسروں کا مذاق اڑانے والوں ، دل آزاری کرنے والوں اور دوسرو ں کا تمسخر اڑانے والوں کو ظالم قرار دیا ہے اگر وہ توبہ نہ کریں۔انسان کو چاہیے کہ اپنی زبان سے کسی کی بھی غیبت نہ کرے کیونکہ غیبت اور کسی پر بہتان لگانا بہت بڑے گناہ ہیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اے ایمان والو بہت گمانوں سے بچو بیشک کوئی گمان گناہ ہو جاتا ہے اور عیب نہ ڈھونڈواور ایک دوسرے کی غیبت نہ کرو کیا تم میں کوئی پسند رکھے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے ‘‘۔ ( سورۃ الحجرات )۔
زبان کی حفاظت کرنے والا نہ صرف اپنی آخرت سنوار لیتا ہے بلکہ ایسا شخص دنیا میں بھی بے شمار فوائد حاصل کرتا ہے۔ نرم اور سچی زبان انسان کو عزت اور وقار عطا کرتی ہے اور لوگ بھی ایسے شخص کے قریب رہنا پسند کرتے ہیں اور وہ دوستوں اور رشتے داروں کے دل جیت لیتا ہے۔ جو بندہ بات کرتے وقت احتیاط سے کام لیتا ہے اور دوسروں کو اچھی باتیں بتاتا ہے وہ معاشرے میں محبت اور بھائی چارے کو فروغ دیتا ہے۔
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ جو شخص مجھے زبان اور شرمگاہ کی ضمانت دے دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ (بخاری )۔
زبان اگر قابو میں نہ ہو تو یہ ایمان ، اخلاق اور معاشرتی سکون کو تباہ کر دیتی ہے۔ غیبت دلوں میں نفرت پیدا کرتی ہے اور جھوٹ اعتمادکو ختم کر دیتا ہے۔ گالی گلوچ دشمنی کو فروغ دیتی ہے اور فضول گوئی وقت کے ضیاع کا سبب بنتی ہے۔ اس کے برعکس اگر انسان خاموش رہے تو خاموشی عبادت اور انسان کو بے شمار گناہوں سے بچاتی ہے۔
زبان کی حفاظت حقیقت میں ایمان کی حفاظت ہے۔ ایک باشعور مسلمان کو چاہیے کہ اپنی زبان کو ہمیشہ خیر کے کلمات ، سچائی ، ذکر الٰہی اور نصیحت کے لیے کھولے اور اسے برائیوں سے بچائے۔زبان کے ذریعے ہی انسان جنت کا مستحق بنتا ہے اور اسی کے ذریعے ہی جہنم کاایندھن بھی بن سکتا ہے۔ زبان کی حفاظت محض اخلاقی فریضہ نہیں یہ ایمان اور عمل صالح کی بنیاد ہے۔
کوئی تبصرے نہیں:
ایک تبصرہ شائع کریں