بدھ، 30 اپریل، 2025

مسلمانوں کا فکری زوال اور اس کا تدراک(۲)

 

مسلمانوں کا فکری زوال اور اس کا تدراک(۲)

انسان کے فکری زوال کی ایک بڑی وجہ اس کا برا اخلاق بھی ہے۔ برے اخلاق انسان کی فکری سوچ پر گہرے اثرات چھوڑتے ہیں۔فکری زوال کو ختم کرنے کا سب سے اہم اور پہلا طریقہ اپنے ایمان اور عقیدہ کو مضبوط کرنا ہے۔ انسان کو اس بات کو سمجھنا چاہیے کہ وہ اس دنیا میں کس مقصد کے لیے بھیجا گیا ہے۔ اپنے حقیقی مقصد کو سمجھتے ہوئے اسے اپنا ایمان اور اللہ تعالی پر بھروسہ مضبوط کرنا چاہیے۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’جو اللہ اور اس کے دین پر ایمان رکھتا ہو اور جو کوئی اللہ سے ڈرے اللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکال دے گا ‘‘۔ ( سورۃالطلاق)۔
اس کے بعد فکری زوال کا خاتمہ علم کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔ علم انسان کی فکری صلاحیت کو بڑھاتا ہے اور اس کی سچائی کی طرف رہنمائی کرتا ہے۔علم کی اہمیت کا اندازہ قرآن مجید کی اس آیت سے لگایا جا سکتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا ہے، درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبر ہے ‘‘۔ ( سورۃ المجادلہ )۔
حدیث شریف میں ہے کہ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا :’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے ‘‘۔
ہمیں ایک ایسی فکری فضا قائم کرنے کی ضرورت ہے جہاں صرف سطحی تعلیم کی بجائے مطالعہ اور تحقیق کی حوصلہ افزائی ہو۔ کتاب سے دوستی ، تعلیمی محافل اور سوال و جواب کی مجالس اس میں اہم کردار ادا کر سکتی ہیں۔ انسان کی سوچ اور اس کے فکری زوال کی ایک بڑی وجہ گناہوں میں مبتلا ہو جانا بھی ہے۔ فکری زوال کے خاتمے کے لیے توبہ و استغفار کی کثرت کرنی چاہیے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور اللہ کا کام نہیں کہ انہیں عذاب میں مبتلا کرے جب تک اے محبوب (ﷺ) تم ان میں تشریف فرما ہواور اللہ انہیں عذاب کرنے والا نہیں جب تک وہ بخشش طلب کر رہے ہیں ‘‘۔ ( سورۃ الانفال )۔
اسلام میں اچھے اخلاق کی بڑی اہمیت ہے۔ جب انسان اخلاقی طور پر بہتر ہو تا ہے تو اس کی سوچ بھی بہتر ہوتی ہے۔ اچھے اخلاق کی اہمیت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ؐ نے ارشاد فرمایا :’’ مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے ‘‘۔ 
روحانیت اور مادیت میں توازن قائم کرنے سے بھی انسان کے فکری زوال کا خاتمہ ہوتا ہے۔ انسان کا دل و دماغ اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ ایک متوازن شخصیت وہی ہے جو فکری لحاظ سے نہ تو محض مادی سوچ رکھتا اور نہ ہی محض خیالی۔ عبادات اور معاملات دونوں میں توازن قائم کرنے سے فکری زوال کو ختم کیا جا سکتا ہے۔ فکری زوال ایک سنگین مسئلہ ہے جس کا اثر صرف ایک فرد پر نہیں ہوتا بلکہ ایک فرد سے نکل کر پوری قوم زوال کا شکار ہو جاتی ہے۔ اس کا حل ایمان اور عقائد کی مضبوطی ، حقیقی علم کا حصول ، اخلاقی تربیت اور توبہ و استغفار سے ممکن ہے۔ فکری زوال کو ختم کرنے کیلئے دین کی اصل تعلیمات پر عمل کرنا ضروری ہے۔اس کے ذریعے ہی فرد اور قوم فکری زوال سے چھٹکارا پا سکتے ہیں۔

Surah As-Sajda (سُوۡرَةُ السَّجدَة) Ayat 01-02.کیا ہم قرآن پاک سے ہدایت ...

منگل، 29 اپریل، 2025

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 34 .کیا آخرت پر ہمارا یقین نہیں ہے

مسلمانوں کا فکری زوال اور اس کا تدراک(۱)

 

مسلمانوں کا فکری زوال اور اس کا تدراک(۱)

سبب کچھ اور ہے ، تو جس کو خود سمجھتا ہے 
زوال بندہ مومن کا بے زری سے نہیں
تاریخ اس بات کی شاہد ہے کہ قوموں کا عروج اور پستی اس کی فکری سوچ کے ساتھ جڑی ہوتی ہے ۔ فکری بلندی کی وجہ سے قومیں آسمانوں کی بلندیوںکوچھو لیتی ہیں اور فکری زوال انہیں آسمان کی بلندیو ں سے گرا کر زمین بوس کر دیتا ہے ۔یہ زوال نہ صرف انسان کی انفرادی زندگی کو متاثر کرتا ہے بلکہ قوم کے اجتماعی زوال کا بھی سبب بنتا ہے۔ آج کے دور میں ایک شدید قسم کا فکری انتشار نظر آتا ہے جس کی بے شمار وجوہات ہیں ۔ سب سے پہلی اور بڑی وجہ تعلیم سے دوری ہے ۔جس قوم کا آغاز لفظ ’’اقراء‘‘ سے ہوا تھا آج وہی قوم محض روایتی علم حاصل کر رہی ہے جو صرف اور صرف ڈگریوں اور نوکریوں تک محدود ہے ۔ اور ہم تحقیقی کام سے بہت حد تک دور جا چکے ہیں ۔جب ذہن کام کرنا چھوڑ دے تو فکری زوال کا آغاز ہو جاتا ہے ۔ 
آج کے دور میں انسان کے پاس علم تو ہے مگر وہ بصیرت سے خالی ہے ۔گہرائی سے سوچنے کی عادت اور مسئلے کی تہہ تک جانا ختم ہو چکا ہے ۔ فکری زوال کی ایک اہم ترین اور بڑی وجہ تعلیم سے دوری بھی ہے جب انسان تعلیم سے دور ہوتا ہے اور اسکا تعلق سچائی ، تحقیق اور علمی انداز فکر سے نہیں جوڑا جاتا تو قومیں زوال پذیر ہونا شروع ہو جاتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں ہمیں یہ حکم دیا کہ علم میں اضافے کی دعا مانگو۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور اے اللہ میرے علم میں اضافہ فرما ‘‘۔ یہ آیت اس بات کا ثبوت ہے کہ علم کا حصول انسان کی فکری قوت کو بڑھاتا ہے ۔ ایک اور جگہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’ کیا علم والے اور بغیر علم کے برابر ہو سکتے ہیں ‘‘۔ اس آیت سے بھی تعلیم کی اہمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے ۔جب انسان دین سے دوری اختیار کر لیتا ہے تو اس کے دل و دماغ پر غفلت کے پردے پڑ جاتے ہیں اور اس کا بلا واسطہ اثر اس کی فکری سوچ پر پڑتا ہے ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’’ اور جو اسلام کے سوا کوئی دین چاہے گا وہ ہر گز اس سے قبول نہ کیا جائے گا اور وہ آخرت میں وہ نقصان اٹھانے والوں میں ہوں گے ‘‘۔ ( سورۃ آل عمران) 
فکری زوال کی ایک بڑی وجہ مادہ پرستی ہے ۔ مادی چیزوں کی طلب انسان کی فکری سطح کو جامد کر دیتی ہے جس کا اثر پوری قوم پر پڑتا ہے ۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’لوگوں کے لیے آراستہ کی گئی ان خواہشوں کی محبت عورتیں اور بیٹے اور تلے اوپر سونے چاندی کے ڈھیر اور نشان کیے ہوئے گھوڑے اور چوپائے اور کھیتی یہ جیتی دنیا کی پونجی ہے اور اللہ ہے جس کے پاس اچھا ٹھکانا ہے ‘‘۔( سورۃ آل عمران )
جب انسان مادہ پرستی میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس کی توجہ حقیقت سے ہٹ جاتی ہے اور وہ اللہ تعالیٰ کی رضا اور آخرت کی تیاری کی طرف توجہ دینے کی بجائے دنیا کی ظاہری لذتوں میں گُم ہو جاتا ہے جس سے اس کی فکری سوچ متاثر ہوتی ہے ۔ 

حکمت کی بات - محبت صرف اللہ سے آخر کیوں؟

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 33 Part-02.کیا ہم کو دنیا کا پکا دھو...

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 33 Part-01.کیا ہم پر ظاہر دنیا کا جا...

پیر، 28 اپریل، 2025

متکبرین

باطنی طہارت

 

باطنی طہارت

 اسلام انسان کی ظاہری اور باطنی دونوں طرح کی طہارت پر زور دیتا ہے اور اس کے لیئے ہماری اصلاح بھی کرتا ہے۔ جیسے ظاہری طور پر صاف ستھرا اور پاک رہنا ضروری ہے اسی طرح باطنی طور پر بھی پاک رہنا ضروری ہے یعنی دل ، نیت ، فکر اور روح کی پاکیزگی بھی نہایت ضروری ہے۔ قرآن و حدیث میں بے شمار مقامات پر دلوں کی صفائی ، نیتوں کی درستگی اور اخلاقی پاکیزگی پر زور دیا گیا ہے۔ 
جب تک کسی بھی شخص کا باطن صاف نہیں ہو گا تب تک اس کا تعلق اللہ تعالیٰ سے مضبوط نہیں ہو سکتا۔ ظاہری طہارت کے ساتھ ساتھ باطنی طہارت ہی اللہ تعالیٰ کے مضبوط تعلق کی ضامن ہے۔باطنی طہارت سے مراد یہ ہے کہ دل کو کینہ ، حسد ، بغض ، ریاکاری ، تکبر ، نفاق ، دنیا کی محبت باطنی اور دیگرباطنی بیماریوں سے پاک کرنا ہے۔نیت کو خالص کرنا اور کوئی بھی کام اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کرنا ،خود کو اخلاص ، محبت ، عاجزی اور تقوی سے مزین کرنا بھی باطنی طہارت میں شامل ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک مراد کو پہنچا جس نے اسے (دل ) کو ستھرا کر لیا۔ اور نامراد ہوا جس نے اسے معصیت میں چھپایا ‘‘۔( سورۃ الشمس)۔
اسی طرح سورۃ البینہ میں اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے :’’اور ان لوگوں کوتو یہی حکم ہوا کہ اللہ کی بندگی کریں خالص اسی پر عقیدہ لاتے ایک طرف کے ہو 
کر اور نماز قائم کریں اور زکوۃ دیں اور یہ سیدھا دین ہے ‘‘۔
متقی اور جنتی لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے سورۃ الاعراف میں ارشاد فرمایا :’’اور ہم نے ان کے سینوں میں سے کینے کھینچ لیے‘‘۔ 
نبی کریمﷺ نے ارشا د فرمایا :’’ خبردار ! جسم میں ایک گوشت کا ٹکڑا ہے اگر وہ درست ہو جائے تو سارا جسم درست ہو جاتا ہے اور اگر وہ خراب ہو جائے تو سارا جسم خراب ہو جاتا ہے اور فرمایا کہ وہ تمہارا دل ہے ‘‘۔ (بخاری)۔
ایک مقام پر انسان کی نیت کا ذکر کرتے ہوئے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : اعمال کا دارو مدار نیتوں پر ہے اور ہر انسان کو وہی ملے گا جس کی وہ نیت کرتا ہے۔(بخاری)۔
ایک مقام پر نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :آپس میں حسد نہ کرو ، بغض نہ رکھو ، ایک دوسرے سے منہ نہ موڑو اور اللہ کے بندو بھائی بھائی بن جائو۔جب بندہ گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے تو اس سے دل پہ سیاہی آجاتی ہے۔ اس سیاہی کو توبہ کے ذریعے سے ختم کیا جا سکتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے کرم سے باطن کو پاک کیا جا سکتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ بیشک دلوں کا سکون اللہ کے ذکر میں ہی ہے ‘‘۔ 
باطنی طہارت ایمان کی مضبوطی کے لیے ضروری ہے۔ باطنی طہارت سے اللہ تعالیٰ قرب حاصل ہوتا ہے ، دل میں سکون و اطمینان پیدا ہوتا ہے ، اعمال میں برکت پیدا ہوتی ہے اور بندے کو دنیا و آخرت کی بھلائیاں نصیب ہو جاتی ہیں۔

اتوار، 27 اپریل، 2025

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 32.کیا ہم دنیا کے نشے میں ٹن ہو چکے ہیں

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 31.کیا ہم اپنی زندگی کو ضائع کرنے پر...

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ(۲)

 

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ(۲)

اسی معرکے میں ایک بدو غلام وحشی بن حرب نے ابو سفیان کی بیوی ہندہ کے کہنے پر حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو نیزہ مارا جس سے آپ جام شہادت نوش فرما گئے۔ شہادت کے بعد دشمنوں نے حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی لاش کی بے حرمتی کی۔ جب نبی کریمﷺ کو حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کا علم ہوا تو آپ کو اس کا گہرا صدمہ پہنچا۔ آپ فرمایا مجھے ان کی نعش کے پاس لے چلو۔ جب آپ  اپنے چچا کی لاش کے پاس پہنچے تو دیکھ کر رو پڑے اور اتنا روئے کہ آپ کی ہچکی بندھ گئی۔ حضورنبی کریم ﷺ نے فرمایا : میرے چچا میں گواہی دیتا ہوں کہ تم اللہ کی راہ میں صدقہ دینے والے تھے ، تم غریبوں اور مسکینوں کی مدد کر نیوالے تھے ، تم بیوہ اور یتیموں کی خبر گیری کرنے والے تھے۔
 آج میں تمہاری شہادت کا گواہ ہوں کہ قیامت کے دن جب اللہ تعالیٰ کی عدالت لگے گی۔ جب شہید اٹھیں گے ان میں بدر اور احد کے شہدا بھی ہوں گے۔ جب شہیدوں کا قافلہ حشر کے میدان میں چلے گا تو شہیدوں کی سرداری کا جھنڈا میرے چچا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ہو گا۔ 
حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا ایمان انتہائی مضبوط تھا مشکلات اور آزمائشوں کے باوجودکبھی کمزور نہ پڑے۔ آپ نبی کریم ﷺ سے بے پناہ محبت کرتے تھے اور اپنی جان و مال اور اولاد سب کچھ نبی کریم ﷺ پر قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار رہتے تھے۔
حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نہ صرف ایک بہادر سپاہی تھے بلکہ صاحب بصیرت مومن بھی تھے۔آپ کی طبیعت میں راست گوئی اور سچائی کا پہلو نمایاں تھااور قبول اسلام سے پہلے بھی کفار قریش بھی آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو انہی خوبیوں کی وجہ سے قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے۔ 
حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنی پوری زندگی اسلام کی سر بلندی کے لیے وقف کر دی۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم ﷺ کے سب سے وفادار ساتھیوں میں سے تھے اور ہر معرکہ میں نبی کریم ﷺ کے ساتھ رہے۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی دلیری ، قوت ایمان اور جاں نثاری کی مثالیں تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھی جائیں گی۔ 
حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شان و عظمت ایک روشن ستارے کی طرح چمکتی رہے گی۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی زندگی ہمارے لیے مشعل راہ ہے اور اس سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ ایمان کی راہ میں کسی بھی قسم کی قربانی دینے سے گریز نہیں کرنا چاہیے۔
تسخیر فنا حمزہ ، تعمیر بقاحمزہ 
قرطاس شجاعت پر ، تحریر وفا حمزہ
یوں بدر کی وادی میں کفار کو للکارا ، باطل کو ڈراتی ہے اب بھی وہ ندا حمزہ۔ 

ہفتہ، 26 اپریل، 2025

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ(۱)

 

حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ عنہ(۱)

اسلامی تاریخ کے عظیم ترین سپہ سالار اور شہدا میں حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مقام و مرتبہ بہت بلند ہے۔ آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نبی کریم ﷺ کے چچا تھے۔ حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ایمان او ر محبت رسولؐ میں جو قربانیاں دیں رہتی دنیا تک سنہری حروف سے لکھی جائیں گی اور ہمارے لیے مشعل راہ ہیں۔ 
حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ بہادر، سخی ، خوش اخلاق اور قریش کے دلاور نوجوان اور قریش میں انتہائی بلندمقام کے مالک تھے۔ حضور نبی کریمؐ کو اپنے چچا سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بہت زیادہ انس و محبت تھی۔ اور آپ بھی حضور سرور کائنات ؐ سے بہت پیار کرتے تھے۔ 
حضرت امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو تیر اندازی میں کمال مہارت حاصل تھی۔ آپ جسمانی اعتبار سے بھی بہت زیادہ مضبوط تھے۔ مکہ مکرمہ کے سرداران آپ کی دلیری اور بہادری کا بہت احترام کرتے تھے۔ ایک دن ابوجہل نے نبی کریم ﷺی شان اقدس میں گستاخی کی۔ جب حضرت حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اس بات کا علم ہوا تو آپ فوراً حرم کعبہ میں گئے اور زور سے ابو جہل کے سر پر اپنی کمان ماری اور فرمایا کیا تم محمدؐ کو برا کہتے ہو۔
حضرت امیر حمزہ ؓ نے حضور نبی کریم ؐ سے گزارش کی اے بھتیجے تو کھل کر دین اسلام کی تبلیغ کر۔اللہ کی قسم یہ مجھے دنیا بھر کی دولت بھی دے دیں تو میں تب بھی اپنی قوم کے دین پر رہنا پسند نہیں کروں گا۔آپ کے اسلام لانے سے رسول کریمﷺ کو بہت زیادہ قوت حاصل ہوئی اور مشرکین آپ کو تکلیف پہنچانے سے کچھ حد تک رک گئے۔سید الشہدا ء حضرت سیدنا امیر حمزہ  جنگ بدر میں شریک ہوئے اور آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس میں بڑی جانبازی کا مظاہرہ کیا۔ غزوہ بدر میں آپ نے کفار کے دوبڑے سرداروں کو قتل کیا۔ایک کا نام عتبہ اور دوسرے کانام طعیمہ بن عدی تھا۔ آپ نے ان دونوں کافروں کو ایک ہی وار میں واصل جہنم کر دیا تھا۔ جنگ بدر میں آپ رضی اللہ عنہ کی بہادری دیکھ آپ نے فرمایا: حمزہ خدا کا بھی شیر ہے اور اس کے رسول ؐ کا بھی شیر ہے۔ 
غزوہ احد میں بھی حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ نے بے مثال بہادری دکھائی۔ جب آپ کفار کو صفوں کی چیرتے ہوئے انہیں واصل جہنم کرتے تو انکے دل دہل جاتے۔ جب جنگ کا آغار ہوا تو کافروں کی طرف سے سباع بن عبد العزیز گرجتا ہوا نکلا اور مسلمانوں کو کہا ’’ ھل من مبارز‘‘یہ کافروں کا بہت بڑا جرنیل تھا جب اس نے عاشقان مصطفی ؐ کو پکارا تو حضرت سیدنا امیر حمزہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ آگے نکلے اور ایک ہی وار میں اسے واصل جہنم کر دیا۔ کافروں کی صفوں میں بھگدڑمچ گئی اور شور برپا ہو گیا کہ ہمارا سردار مارا گیا۔

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 30.کیا ہم نے اپنے لئے آگ کو پسند کر...

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 28-29.کیا ہم سب یاد الٰہی سے غافل ہیں

حکمت کی بات - اِلٰہِ واحد کا مطلب

حکمت کی بات - دین کا مطلب

حکمت کی بات - اِلٰہ کا مطلب

جمعہ، 25 اپریل، 2025

دعا اور توبہ کا باہمی تعلق

 

دعا اور توبہ کا باہمی تعلق

متعدد احادیث مبارکہ میں نبی کریمﷺ نے اپنی امت کو اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرنے اور دعا کرنے کی تلقین فرمائی ۔ حضور نبی رحمتﷺ نے دعا کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا:جب تم میں سے کوئی شخص دعا مانگے تو دعا میں اصراراور یہ نہ کہے : اے اللہ اگر تو چاہے تو مجھے دیدے کیونکہ اللہ تعالیٰ کو کوئی مجبور کرنے ولا نہیں ہے۔ (بخاری) 
حضور نبی کریمﷺ نے دعا کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے اسے عبادت کا مغز قرار دیا۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا: دعا عبادت کا مغز ہے۔ ( ترمذی) 
ایک مقام پر نبی کریمﷺ نے دعا کی اہمیت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں دعا سے زیادہ محترم کوئی شے نہیں۔ ( مسند احمد ) 
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا:اللہ تعالیٰ سے اس یقین کے ساتھ دعا مانگو کہ وہ دعا ئوں کو قبول فرماتاہے اور جان لو کہ اللہ تعالیٰ غافل دل کی دعا قبول نہیں فرماتا۔ (مسند احمد ) 
حضور نبی کریم رئو ف الرحیمﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جب بندہ اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہے بشرطیکہ اس میں کوئی گناہ نہ ہو تو اللہ تعالیٰ اسے تین چیزوں میں سے ایک چیز ضرور عطا فرما دیتا ہے ۔اللہ تعالیٰ یا تو اس کی دعا کو فوری قبول فرمالیتا ہے یا آخرت کے لیے اس دعا کرنے والے کے لیے جمع کر لیتا ہے اور یا پھر اس قسم کی کوئی تکلیف دور کر دیتا ہے ۔ صحابہ کرامؓ نے عرض کی، یا رسو ل اللہﷺ، پھر تو ہم زیادہ دعا کیا کریں گے، تو نبی کریمﷺ نے فرمایا، اللہ تعالیٰ بھی زیادہ قبول فرمانے والا ہے ۔( مسند احمد ) 
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، جو بندہ اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کی مشکلات اور تکالیف میں دعا قبول ہو تو وہ خوشحالی کے اوقات میں بھی زیاہ زیادہ دعا کیا کرے ۔( ابو دائود) 
حضرت عبداللہ بن عمر ؓسے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھول دیا گیا اس کے لیے رحمت کا دروازہ کھول دیا گیا۔ اللہ تعالیٰ سے جو چیزیں مانگی جاتیں ہیں ان میں سے اللہ تعالیٰ سے عافیت طلب کرنا اللہ تعالیٰ کو زیادہ پسند ہے۔ نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا، دعا اس مصیبت کے لیے بھی نافع ہے جو اتر چکی ہے اور اس کے لیے بھی جو ابھی نہیں اتری ۔ سو ائے اللہ کے بندو ں ! دعا کو اپنے اوپر لازم کر لو۔ (ترمذی)
حضرت علی ؓ فرماتے ہیں، نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: دعا مومن کا ہتھیار ، دین کا ستون اور آسمانوں اور زمین کا نور ہے ۔ ( ابو یعلی )
تو بہ اور دعا اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل کرنے کا اہم ذریعہ ہے تو بہ کے بغیر دعا ادھوری ہے کیونکہ ہو سکتا ہے کہ بندے کے گناہوں کی وجہ سے اس کی دعا قبول نہ ہو رہی ہو اس لیے دعا کی قبولیت کے لیے باطن کو بھی گناہوں سے پاک کرنا ہو گا ۔

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 27.کیا ہم اللہ تعالی کے کامل بندے نہ...

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 25-26.کیا ہم اللہ تعالی سے دور ہوتے ...

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 23-24.کیا ہماری روش مومنانہ ہے

بدھ، 23 اپریل، 2025

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 22.کیا ہم نے دنیا کو آخرت پر ترجیح د...

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 21.کیا ہم نے شیطانی رویہ اختیار کر ل...

دعا اور توبہ کا باہمی تعلق(۱)

 

دعا اور توبہ کا باہمی تعلق(۱)

انسان فطری طور پر خطا کا پتلا ہے زندگی میں کئی مرتبہ جانے انجانے میں گناہوں میں مبتلا ہو جاتا ہے مگر اللہ تعالیٰ نے اپنے کرم ، فضل اور لامحدود رحمت سے انسان کے لیے توبہ اور دعا کا دروازہ کھلا رکھا ہے۔توبہ اور دعا دونوں اعمال نہ صرف بندے کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط کرتے ہیں بلکہ اس کی روحانیت میں اضافہ ہوتا ہے۔ توبہ کا مطلب ہے رجوع کرنا یعنی برائی چھوڑ کر نیکی کی طرف راغب ہونا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اے ایمان والو ! اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کونصیحت ہو جائے ‘‘۔ ( سورۃ التحریم )۔
دعاکا مفہوم یہ ہے بندے کا اپنے رب کے ساتھ رازو نیاز کی باتیں کرنا ،دعا مانگنا اللہ کے حضور عاجزی و انکساری اور بندگی کا اظہار ہے۔دعا کے ذریعے بندہ اپنے رب سے بخشش ، ہدایت ، رحمت اور دنیا و آخرت کی بھلائی طلب کرتا ہے۔اللہ تعالیٰ بڑا غفورالرحیم ہے وہ اپنے بندے سے بڑا پیار کرتا ہے وہ جانتا ہے کہ میرے بندے شیطان کے بہکاوے میں آ کر گناہ کر بیٹھتے ہیں اس لیے اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں اپنے بندوں کو دعا مانگنے کا طریقہ سکھایا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور اے میرے رب تو بخش دے اور رحم فرمااور تو ہی سب سے بہتر رحم فرمانے والا ہے ‘‘۔ ( سورۃ االمومنون )۔
اللہ جل شانہ نے اپنے بندوں کو دعا مانگنے کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔سورۃ الاعراف میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :’’ تم اپنے رب سے گڑ گڑا کر اور آہستہ دونوں طریقوں سے دعا مانگو بیشک وہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں فرماتا ‘‘۔ اسی طرح اللہ تعالیٰ سورۃ المومن میں ارشاد فرماتا ہے :’’ اور تمہارے رب نے فرمایا مجھ سے دعا کرو میں قبول کروں گا بیشک وہ جو میری عبادت سے سرکشی کرتے ہیں عنقریب جہنم میں جائیں گے ‘‘۔ 
انبیاء کرام علیہم السلام اللہ تعالیٰ کی بر گزیدہ اور معصوم ہستیاں ہونے کے باوجود اپنے رب کے حضور رحمت اور مغفرت طلب کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں اپنے انبیاء کرام کی دعائوں کا ذکر فرمایا ہے۔ حضرت سلیمان کی دعا کا ذکر کرتے ہو ئے ارشاد فرمایا : ’’تو اس(چیونٹی) کی بات سے مسکرا کر ہنسا اور عرض کی اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیرا شکر کروں تیرے احسانات کا جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے اور یہ کہ میں وہ بھلا کام کروں جو تجھے پسند آئے اور مجھے اپنی رحمت سے اپنے ان بندوں میں شامل کر جو تیرے قرب ِخاص کے سزا وار ہیں ‘‘۔ ( سورۃ النمل )۔
اسی طرح سورۃ البقرۃ میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک اور برگزیدہ بندوں کا ذکرکرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’ اور کوئی یوں کہتا ہے کہ اے ہمارے رب ہمیں دنیا میں بھلائی دے اور ہمیں آخرت میں بھلائی دے اور ہمیں عذاب دوزخ سے بچا۔‘‘حضرت موسی علیہ السلام کی دعا کا ذکر کرتے ہو ئے اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا :’’ اے میرے رب میں نے اپنی جان پر زیادتی کی تو مجھے بخش دے تو رب نے اسے بخش دیا بیشک وہی بخشنے والا مہربان ہے ‘‘۔ ( سورۃ القصص)۔

حکمت کی بات - جنت کیسے خریدی جائے؟

منگل، 22 اپریل، 2025

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 20.کیا ہم من چاہی زندگی گزار رہے ہیں

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 18-19.کیا ہم نے تکبر کی روش اپنا لی ہے

اسلام میں باہم تعاون کی اہمیت

 

اسلام میں باہم تعاون کی اہمیت

تعاون کا مطلب ہے ایک دوسرے کی مدد کرنا ، ساتھ دینا یا کسی کام میں معاونت فراہم کرنا۔ شریعت کی اصطلاح میں تعاون سے مراد بھلائی ، نیکی اور تقوی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا ہے۔ اور یہ تعاون ذاتی مفاد پر مبنی نہیں ہونا چاہیے بلکہ اس کا مقصود رضائے الہی کا حصول ہو۔ اسلام صرف عبادات کا حکم نہیں دیتا بلکہ محبت ، اخوت ، بھائی چارے اور ایک دوسرے کی باہم مدد کرنے کا بھی حکم دیتا ہے تاکہ ایک پْر امن معاشرے کی تشکیل ہو سکے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید برھان رشید میں بھی اہل ایمان کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کریں اور برائی کے کاموں میں تعاون نہ کریں۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور نیکی اور پرہیز گاری پر ایک دوسرے کی مدد کرو اور گناہ اور زیادتی پر باہم مدد نہ کرو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ کا عذاب سخت ہے ‘‘۔(سورۃ المائدہ :۲)۔ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جو شخص اپنے مسلمان بھائی کی مدد کے لیے نکلا تو اسے اللہ تعالیٰ کی راہ میں جہادکرنے والوں کے برابر ثواب ملے گا۔ (ابو بکر خرائطی :مکارم الاخلاق )۔
حضرت ابومو سیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی رحمت ؐ نے ارشاد فرمایا : ایک مومن دوسرے مومن کے لیے ایسے ہے جیسے دیوار کہ ا س کا ایک حصہ دوسرے حصے کو مضبوط کرتا ہے۔ ( مسلم )۔
یعنی جیسے دیوار کی اینٹیں ایک دوسرے کے ساتھ جْڑ کر ایک مضبوط دیوار بنا دیتی ہیں اور اسے گرنے سے بچاتی ہیں یہی مثال مومنین کی ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ باہم تعاون کر کے ایک دوسرے کو مضبوط کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو گرنے نہیں دیتے۔ 
حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مومن کی مثال باہم محبت کرنے ، ایک دوسرے پر رحم کھانے اورمہربانی کرنے میں ایک جسم کی مانند ہے۔ جب اس کے جسم میں کسی بھی حصے میں تکلیف ہوتی ہے تو پورا جسم بخار میں مبتلا ہو جاتا ہے۔(بخاری )۔
آج کے دور میں امت مسلمہ زوال کا شکار ہے۔ معاشی بد حالی ، تعلیمی پسماندگی ، فرقہ واریت اور اخلاقی لحاظ سے مسلمان زوال کا شکار ہیں۔ ان تمام مسائل کاحل باہم تعاون سے ممکن ہے۔ اگر ہم تعلیم و تربیت ، روزگار اور دیگر نیکی کے کاموں میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کریں گے تو امت مسلمہ اپنا کھویاہوا مقام دوبارہ حاصل کر سکتی ہے۔ اسلام کا پیغام باہم محبت ، اخوت اور تعاون کا ہے۔ یہ دین ہمیں صرف ذاتی معاملات کو سنوارنے کی تعلیم نہیں دیتا بلکہ ایک ایسے مثالی معاشرے کے قیام کی تعلیم دیتا ہے جہا ں ہم ایک دسرے کے کام آ سکیں۔ اگر ہم قرآن و سنت کو اپناتے ہوئے اپنی زندگیوں کو بسر کریں تو اس سے نہ صرف ہم اپنے ذاتی مسائل کو حل کر سکتے ہیں بلکہ ہم ایک ایسا معاشر ہ قا ئم کر سکتے ہیں جس میں امن و سکون ہو۔ آئیں ہم سب مل کر نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں مدد کریں۔

حکمت کی بات - کیا ہم آخرت فراموش لوگ ہیں؟

حکمت کی بات - کیا ہم بے ایمان لوگ ہیں؟

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 15-17.اللہ تعالی ہمارے تمام اعمال سے...

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 14.والدین کے حقوق

پیر، 21 اپریل، 2025

اسلام میں بھوکے کو کھلانے کی اہمیت

 

اسلام میں بھوکے کو کھلانے کی اہمیت

دین اسلام ہمیں خدمت خلق ، غریب پروری اور بھوکوں کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتا ہے اور اس عمل کو اسلام میں بہت بڑی نیکی قرار دیا گیا ہے۔
 قرآن مجیدمیں اللہ تعالیٰ اپنے نیک بندوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے :’’ اورکھانا کھلاتے ہیں اس کی محبت پر مسکین اور یتیم اور اسیر کو ‘‘۔(سورۃ الدھر)۔
حضرت عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم ﷺ سے پوچھاکہ کو نسا اسلام اچھا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ تم کھانا کھلائو اور سلام کرو ہر اس شخص کو جسے تم جانتے ہو یا نہیں جانتے۔(بخاری )۔
حضرت عبد اللہ بن سلام کہتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ منورہ تشریف لائے تو میں نبی کریم ؐ کی بارگاہ میں حاضر ہوا نبی کریم ؐنے اس وقت پہلی بات یہ ارشاد فرمائی :اے لوگو! سلام کو رواج دے کر اسے پھیلائو ، بھوکوں کو کھانا کھلائو ، رشتہ داروں سے جڑو ، رات میں جب لوگ سورہے ہوں تو تم نماذ پڑھو اور سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہو جائو۔ (ترمذی )۔ 
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : جس مومن نے کسی مومن کو کھانا کھلایا تو قیامت کے دن اللہ تعالیٰ جنت کے پھل اسے کھلائے گا۔ اور جس نے کسی پیاسے مومن کو پانی پلایا تو بروز قیامت اللہ تعالیٰ اسے پاکیزہ شراب سے سیراب کریگا۔ اور جس مومن نے کسی مومن کو کپڑا پہنایا تو اللہ تعالیٰ اسے جنت کا لباس پہنائے گا۔ (ترمذی )۔
انبیاء کرام میں سے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی مہمان نوازی کا ذکر اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بیان فرمایا ہے۔ روایات میں آتا ہے کہ جب تک حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دسترخواں پر کوئی مہمان یا کوئی ضرورت مند ساتھ نہ ہوتا تو آپ کھانا نہیں کھایا کرتے تھے۔ آپ اپنے خادموں کو راستے میں کھڑا کرتے جو لوگوں کو بلا کر لاتے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام ان کو اپنے ساتھ بٹھا کر کھانا کھلاتے تھے۔ 
حضرت سعد بن عبادہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نبی کریم ﷺ کی بارگاہ ناز میں حاضر ہوا اور عرض کی یا رسول اللہ ؐ میری والدہ وفات پا گئی ہیں ‘میں ان کی کیا صدقہ و خیرات کرو ں۔ نبی کریم ؐ نے فرمایا صدقہ کرو۔ آپ  نے پوچھا کہ کون سا صدقہ افضل ہے۔ آپ  نے فرمایا پانی پلانا۔(نسائی)۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : تین شخص ہیں جن کی طرف قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نظر رحمت نہیں فرمائے گا۔ ایک وہ آدمی جو راستے پر رہتا ہو اور اس کے پاس ضرورت سے زیادہ پانی موجود ہو اور وہ مسافروں کو اس کے استعمال سے روک دے۔ (بخاری )۔
آج اس معاشی تنگی کے دور میں بہت سا سفید پوش طبقہ ایسا ہے جسے دو وقت کی روٹی بمشکل میسر ہوتی ہے۔ نبی کریم ﷺکے ان فرامین پر عمل کرتے ہوئے ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ارد گرد نظر رکھیں اور بھوکوں کو کھانا کھلا کر اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کریں۔

اتوار، 20 اپریل، 2025

اسلام میں چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی اہمیت

 

 اسلام میں چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی اہمیت

دین اسلام ہمیں انسانیت ، عدل ، رحم اور ہمدردی کی تعلیم دیتا ہے۔ قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں متعدد بار مظلوموں اور بے کسوں کی مدد کرنے پر زور دیتا ہے۔ اسلام کے نزدیک بے سہارا اور مظلوم لوگوں کی مدد کرنا نہ صرف اخلاقی فریضہ ہے بلکہ ایک عظیم عبادت بھی ہے۔ 
سورۃالنساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ اور تمہیں کیا ہوا کہ نہ لڑو اللہ کی راہ میں اور کمزور مردوں اور عورتوں اور بچوں کے واسطے جو یہ دعا کر رہے ہیں کہ اے ہمارے رب ہمیں اس بستی سے نکال جس کے لوگ ظالم ہیں اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی حمایتی دے دے اور ہمیں اپنے پاس سے کوئی مدد گار دے دے ‘‘۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ہمیشہ کمزوروں ، مسکینوں ، مظلوموں اور یتیموں کی عملی طور پر مدد کرنے کی تلقین فرمائی۔ 
حضرت براء بن عازب سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ نے سات کام کرنے کا حکم فرمایا اور سات کاموں سے منع فرمایا :
نبی کریمﷺ نے فرمایا : بیمار کی عیادت کرو ، جنازے میں شریک ہو۔ جب کسی کو چھینک آئے تو چھنکنے والے کا جواب دو ، مظلوم کی مدد کرو ، جب کوئی دعوت دے تو اس کی دعوت قبول کرو اور فرمایا کہ قسم کھانے والے کو قسم سے بری کر دو ‘‘۔ (بخاری )۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :تو اپنے بھائی کی مدد کر چاہے وہ مظلوم ہو یا ظالم۔ ایک شخص نے عرض کیا یا رسول اللہ ﷺ مظلوم کی تو مدد کروں گا مگر ظالم کی مدد کس طرح کروں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم اسے ظلم کرنے سے روکو یہ ہی اس کی مدد ہے۔ (بخاری )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :مومن مومن کا آئینہ ہے۔ اور مومن مومن کا بھائی ہے ، وہ اس کو بربادی سے بچاتا ہے اور پیٹھ پیچھے اس کی حفاظت کرتا ہے۔ (مشکوۃ المصابیح )۔
مظلوموں کی مدد کرنے سے معاشرے میں عدل و انصاف قائم ہوتا ہے۔ جب معاشرے کے کمزور اور بے سہارا لوگوں کا خیال رکھا جائے گا تو ظلم وزیادتی خود بہ خود ہی ختم ہو جائے گی۔ اس طرح معاشرے میں رہنے والے افراد کے دلوں میں باہمی محبت اور ہمدردی پیدا ہو گی اور معاشرے میں امن و سکون قائم ہو گا۔ 
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : مسلمان مسلمان کا بھائی ہے تو وہ نہ اس پر ظلم کرے اور نہ اس کو اس کے دشمن کے حوالے کرے ، جو کوئی اپنے بھائی کی ضرورت پوری کرنے میں رہے گا تو اللہ تعالیٰ اس کی ضرورت پوری کرے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی تنگی دور کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے قیامت کے دن اس کی تکالیف کو دور کرے گا اور جو کوئی کسی مسلمان کی پردہ پوشی کرے گا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے دن اس کے عیبوں پر پردہ ڈالے گا۔(ابی دائود )۔

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 13 Part-02.کیا ہم شرک میں مبتلا ہیں

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 13 Part-01.شرک کی حقیقت

ہفتہ، 19 اپریل، 2025

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 12-19.کیا ہم شکر گزاری کے راستے پر چ...

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 10-11.سب سے بڑا ظالم کون ہے

اسلام میں چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی اہمیت

 


اسلام میں چھوٹی چھوٹی نیکیوں کی اہمیت

اسلام ہماری زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے۔ اسلام ہمیں زندگی کے ہر شعبے میں بھلائی ، حسن اخلاق ، اور نیکی کی تعلیم دیتا ہے۔ دین اسلام میں چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی رائیگاں نہیں جاتی کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں عمل کا وزن نیت اور اخلاص سے ہوتا ہے نہ کہ ظاہری حجم سے۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’تو جو ایک ذرہ بھر بھلائی کرے اللہ اسے دیکھے گا۔ اور جو ایک ذرہ بھر برائی کرے اللہ اسے بھی دیکھے گا ‘‘۔ ( سورۃ الزالزال )۔
اس آیت مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ قیامت کے دن چھوٹی سے چھوٹی نیکی کا بھی اجر ملے گا اور جو گناہ چھوٹے سمجھ کر کیے گئے ان کی سزا بھی ملے گی۔
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ ہر روز جب سورج طلوع ہوتا ہے تو لوگوں کے ہر عضو پر صدقہ لازم ہوجاتا ہے۔یعنی کوئی شخص دو آدمیوں کے درمیان صلح کرا دے تو یہ صدقہ ہے، کسی کو سواری پر بٹھا دے یہ صدقہ ہے، کسی کو کوئی اچھی بات بتا دینا بھی صدقہ ہے ، نماز کی ادائیگی کے لیے جاتے ہوئے اٹھنے والا ہر قدم صدقہ ہے اور راستے میں سے کوئی تکلیف دہ چیز ہٹا دینا بھی صدقہ ہے۔ ایک روایت میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ تمہارا اپنے بھائی کے لیے مسکرانا بھی صدقہ ہے (ترمذی )۔
معمولی سی نیکی کی اہمیت بیان کرتے ہوئے نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جہنم سے بچو اگرچہ کھجور کے ایک ٹکڑے کو خیرات کرنے کے ذریعے۔ (بخاری )
اسی طرح سلام کر نا اور اس میں پہل کرنے کی کوشش کرنا ، کسی پیاسے کو پانی پلا دینا ، کسی بھٹکے ہوئے کو راستہ دکھا دینا اور سب کے ساتھ خوش اخلاقی کے ساتھ پیش آنا یہ سب چھوٹی چھوٹی نیکیاں ہیں جن کو ہم اکثر نظر انداز کر دیتے ہیں۔حالانکہ یہ سب چھوٹے چھوٹے اعمال اللہ تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنے کا ذریعہ بن سکتے ہیں۔ 
نبی کریمﷺ نے حضرت سعد رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا اے سعد کیا میں تمہیں ایسا عمل نہ بتائوں جس میں محنت کم اور ثواب زیادہ ہے۔انہوں نے عرض کی جی حضور ؐ! نبی کریم ؐ نے فرمایا پانی پلایا کرو۔ ( معجم الکبیر )۔
 یہ چھوٹی چھوٹی نیکیاں جن کو ہم خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کریں تو اس سے ہمارے دل نرم ہوں گے ، معاشرے میں محبت ، امن و سکون اور خیرسگالی کے جذبے کو فروغ ملے گا۔ بعض دفعہ کسی کی معمولی سی مدد کرنا ، کسی کے لیے دعا کرنا یا پھر کسی کو ایک اچھا کلمہ بول کراسکا دل خوش کر دینے سے اللہ تعالی انسان کو اس کے اس چھوٹے سے عمل سے جنت کا مستحق ٹھہرا دیتا ہے۔ لہذا ہمیں چاہیے کہ ہم کسی بھی نیک عمل کو معمولی نہ سمجھیں۔ جب چھوٹے سے چھوٹا عمل بھی خالص اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے گا تو اللہ تعالیٰ اس کے بدلے دنیا و آخرت میں کامیابی عطا فرمائے گا۔

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 08-09.کیا ہم پَکّے جنتی ہیں

Surah Lucman Ayt 6-7 Pt-03.کیا ہم اپنی زندگی اللہ تعالٰی کی مرضی کی بجا...

جمعہ، 18 اپریل، 2025

زبان کی حفاطت

 

زبان کی حفاطت

اللہ تبارک تعالیٰ نے انسان کے جسم میں ایک عضو زبان بھی رکھا ہے۔ یہ عضو اتنا لازمی و ضروری ہے کہ اس کے بغیر انسان اپنی بات کسی کو نہیں سمجھا سکتا۔زبان اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے لیکن انسان اس کے غلط استعمال کی وجہ سے اپنے لیے زحمت بنا لیتا ہے اور یہاں تک کہ اپنی آخرت کو بھی برباد کر لیتا ہے۔ اس لیے زبان کی حفاظت بہت ضروری ہے۔
زبان کی حفاظت کا معنی یہ ہے کہ انسان اس سے غیر شرعی بات نہ کرے۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایاکہ زبانیں لوگوں کو اوندھے منہ دوزخ میں پھینکیں گی۔ حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو شخص دو نوں جبڑوں کے درمیان کی اور دونوں ٹانگوں کے درمیان کی مجھے ضمانت دے میں اسے جنت کی ضمانت دیتا ہوں۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ؐ نے فرمایا آدمی بعض دفعہ کوئی بات کرتا ہے جس کی برائی میں تدبر و تفکر نہیں کرتا۔ اور اسی بات کی وجہ سے وہ دوزخ کی آگ میں گر پڑتا ہے اس حال میں کہ مشرق اور مغرب کی مسافت سے دور ہو جاتا ہے۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا: انسان اللہ تعالیٰ کی رضامندی کی بات کرتا ہے جس کی وہ پرواہ نہیں کرتا اس کے بدلے اللہ تعالیٰ اس کے درجات بلند فرما دیتا ہے۔ 
بعض اوقات ہماری زبان سے ایسی بات نکل جاتی ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل نہیں ہوتی اور ہم اس کے کہنے میں عار محسوس نہیں کرتے اور اسی بات کی وجہ سے جنت یا جہنم کا فیصلہ ہو جاتا ہے۔ مثلا چغلی ، غیبت ، جھوٹ یا پھر انجانے میں کوئی ایسا کفریہ کلمہ ہماری زبان سے نکل جائے جو ہماری پکڑ کا سبب بن جائے۔ اور بعض اوقات انسان کوئی معمولی سی گفتگوکرتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کی رضا شامل ہوتی ہے تو وہ کلمات انسان کو جنت تک لے جاتے ہیں۔
 نبی مکرم ﷺنے فرمایا : جو باتوں میں ہیر پھیر سیکھے تا کہ اس سے لوگوں کے دل قابو کرے۔ اللہ تعالیٰ روز قیامت نہ اس کے فرائض قبول فرمائے گا اور نہ نفل۔ ( ابو دائو د)۔ 
حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے حضور نبی کریم ﷺ کی خدمت اقدس میں حاضر ہو کر عرض کی نجات کیسے ہوگی ؟ حضور ؐ نے فرمایازبان کو قابو میں رکھو۔ تمہارے لیے تمہارا گھر کافی ہے اور اپنے گناہوں پر آنسو بہایا کرو۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : حیا اور کم گوئی ایمان کے دوشعبے ہیں۔ فحش گوئی اور زیادہ باتیں کرنا نفاق کے شعبے ہیں۔

جمعرات، 17 اپریل، 2025

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 06-07 Part-02.کیا ہم نے دنیا کو آخرت...

Surah Lucman Ayat 06-07 Part-01.کیا ہم آخرت کو بھول کر صرف دنیاوی مفاد ...

حصولِ علم کے آداب

 

حصولِ علم کے آداب

اللہ جل شانہ نے انسان کو اشر ف المخلوقات بنایا اور اسے علم کے نور سے مالا مال فرمایا ۔ علم ہی وہ عظیم نعمت ہے جس کے ذریعے انسان نے کائنات کے رازوں کو سمجھا اور اپنی حیثیت کو پہچانا ۔قرآن مجید انسانیت کے لیے ہدایت حاصل کرنے کا بہترین ذریعہ ہے جو انسان کی زندگی کے ہر پہلو کی رہنمائی کرتا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ہر شے کا علم رکھ دیا ہے ۔ امام نووی رحمۃ اللہ علیہ نے قرآن مجید سے علم حاصل کرنے کے چند آداب بتائے ہیں ۔
آپؒ فرماتے ہیں قرآن مجید سے علم حاصل کرنے کے لیے سب سے پہلے دل کی پاکیزگی ضروری ہے جب تک دل پاک نہ ہو گا قرآن مجید سے حقیقی علم حاصل نہیں کیا جا سکتا ۔ جس طرح کسان جب کھیت میں بیج بوتا ہے تو اس سے پہلے زمین کو اس کے لیے ہل چلا کر اور زمین کی صفائی کر کے اسے بیج بونے کے لیے تیار کرتا ہے ۔اسی طرح علم ایک بیج ہے اور دل زمین لہٰذا دل کی پاکیزگی کے بعد ہی اللہ تعالیٰ صحیح علم عطا فرماتا ہے ۔
آپ دوسرا حصول قناعت و توکل بیان فرماتے ہیں ۔ یعنی علم دین حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے انسان کے اندر قناعت وتوکل کی صفت موجود ہو ۔ اگر اسے کھانے کو تھوڑا ملے تو اس پر بھی راضی ہو جائے اور اگر زندگی میں مشکلات آئیں مختلف مسائل کا سامنا کرنا پڑے تو بھی اللہ کی رضا پر راضی رہتے ہوئے نگاہ اس مقصد پر رکھیں کے میں قرآن مجید کا علم حاصل کرنے میں مصروف ہو ں تب ہی علم ہماری طرف آئے گا۔ آپ فرماتے ہیں کہ دنیاوی حرص اور دین کا علم ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکتے۔ اگر قرآن کا علم حاصل کرنے کے لیے قناعت و توکل دل میں موجود نہیں تو یہ علم بھی نہیں آتا ۔
تیسرا حصول آپ یہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید کاعلم حاصل کرنے کے لیے دل سے دنیا کی طلب مکمل طور ختم ہو جائے ۔ آپ فرماتے ہیں کہ علم حاصل کرنے اور اسے سکھانے کے لیے اور دین کی تبلیغ کے بدلے میں کبھی بھی دنیا طلب نہ کرو۔ اگر ایسا کر و گے تو علم اثر نہیں کرے گا۔
جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا قیامت کے دن ایک ایسے شخص کو لایا جائے گا جس نے علم پڑھا اور لوگوں کو پڑھایا جب اسے اللہ تعالیٰ کی نعمتیں دکھائی جائیں گی تو وہ انھیں پہچان لے گا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گاتو نے ان نعمتوں کے عوض کیا عمل کیا ۔وہ کہے گا تیری رضا کے لیے علم حاصل کیا اور پھر اسے دوسروں کو سکھایا۔ اللہ تعالیٰ فرمائے گا نہیں تم نے قرآن کا علم اس لیے حاصل کیا تا کہ لوگ تجھے عالم اورقاری کہیں وہ ہو چکا پھر اسے جہنم میں ڈال دیا جائے گا۔قرآن مجید کا حقیقی علم حاصل کرنے کے لیے ہمیں ان آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا ہو گا نہیں تو اس کے علم سے فائدہ نہیں لے سکتے ۔

بدھ، 16 اپریل، 2025

علمی مجالس کی اہمیت و فضیلت(۲)

 

 علمی مجالس کی اہمیت و فضیلت(۲)

نبی کریمﷺ نے علمی مجالس کو جنت کے باغات قرار دیا۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشادفرمایا : جب تمہارا جنت کے باغات کے پاس سے گزر ہو تو اس میں بیٹھ کر فراخی کے ساتھ کھایا پیا کرو۔صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے عرض کی یا رسول اللہؐ جنت کے باغات سے کیا مراد ہے ؟ نبی کریم ﷺنے فرمایا علم کی مجالس۔ ( المعجم الکبیر )۔
نبی کریم ﷺ نے ایسی مجالس کو جن میں دین کا علم سکھایا جا رہا ہواورجس میں قرآن و حدیث کی باتیں ہو رہی ہوں ذکر والی مجلس سے افضل قرا ر دیا ہے۔
ایک دن نبی کریمؐ اپنے حجرہ مبارک سے باہر تشریف لائے اور مسجد میں داخل ہوئے۔مسجد میں دو مجالس منعقد تھیں۔ ایک مجلس میں تلاوت قرآن مجید اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی جارہی تھی اور دوسری مجلس میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری تھا۔ نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا کہ دونوں مجالس بھلائی والی ہیں ایک میں تلاوت قران پاک اور اللہ تعالیٰ سے دعا کی جارہی ہے اور دوسری میں تعلیم و تدریس کا سلسلہ جاری ہے اور فرمایا میں بھی معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں یہ فرما کر نبی کریمؐ  تعلیم و تعلم والی مجلس میں بیٹھ گئے۔ (ابن ماجہ )۔
علمی مجالس اور اہل علم کے پاس بیٹھنے کی اہمیت کسی قدر زیادہ ہے اس بات کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے بیٹے کو نصیحت کی اے میرے بیٹے علماء کی مجالس میں بیٹھنا ، حکماء کی گفتگو غور سے سننا کیونکہ اللہ تعالیٰ مردہ دل کو حکمت کے نور سے زندہ کرتا ہے جس طرح کہ وہ مردہ زمین کو بارش برسا کر زندہ کرتا ہے۔ (المعجم الکبیر ، موطا امام مالک )۔
علمی مجالس میں بیٹھنے کے بے شمار فوائد ہیں۔علم دین سے واقفیت کی وجہ سے ایمان مضبوط ہوتا ہے بندے کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ مضبوط ہوتا ہے اور اس کی بندگی میں خشیت الٰہی پیدا ہوتی ہے۔ علم نافع انسان کو برے اخلاق اپنانے کی بجائے اچھے اخلاق کی طرف مائل کرتا ہے انسان اپنے اندرنرمی ، حلم اور برداشت جیسے اوصاف پیدا کرتا ہے۔ 
موجودہ دور میں جب ہر طرف فتنہ فساد پھیلا ہوا ہے۔سوشل میڈیا کے بے جا استعمال کی وجہ سے ہمارے اخلاق و کردار میں منفی تبدیلیاں رونماہو رہی ہیں۔ نوجوان طبقے کو ایسی علمی مجالس کی بے حدضرورت ہے۔جہاں انہیں عقل و فہم کے ساتھ ساتھ سیرت النبیؐ کو اپنی زندگیو ں میں اپنانیکا عملی نمونہ ملے۔ علمی مجالس اللہ تعالیٰ کی خاص رحمتوں کا مرکز ہیں۔ان مجالس میں شرکت کی وجہ سے انسان کی دنیا و آخرت سنور جاتی ہے اور انسان کے اندر علم دین سیکھنے کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اچھی مجالس میں بیٹھنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں بْری مجالس سے بچائے۔ آمین۔

منگل، 15 اپریل، 2025

Surah Lucman (سُوۡرَةُ لقمَان) Ayat 01-05 Part-02.کیا ہماری نماز جھوٹ پر...

علمی مجالس کی اہمیت و فضیلت(۱)

 

علمی مجالس کی اہمیت و فضیلت(۱)

اسلام ایک ایسا کامل دین ہے جو انسان کی روحانی ، اخلاقی اور علمی تربیت پر خاص زور دیتا ہے ۔ علم حاصل کرنا دین اسلام میں نہ صرف پسندیدہ عمل ہے بلکہ فرض کی حیثیت رکھتا ہے ۔ نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مردو عورت پر فرض ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ دین اسلام میں علمی مجالس کو خاص اہمیت حاصل ہے ۔ 
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اللہ ان لوگوں کے درجات بلند فرمائے گا جو ایمان لائے اور جنہیں علم دیا گیا۔ (سورۃ المجادلہ ) 
مندرجہ بالا آیت سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ علمی مجالس میں شامل ہونے سے نہ صرف ظاہری و باطنی فوائد حاصل ہوتے ہیں بلکہ درجات کی بلندی کا سبب بھی بنتی ہیں ۔ 
علمی مجالس کی اہمیت اور اداب کے بارے میں اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: ’’اے ایمان والو جب تم سے کہا جائے مجلسوں میں جگہ دو تو جگہ دو‘ اللہ تمہیں جگہ دے گا اور جب کہا جائے اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہو‘ اللہ تمہارے ایمان والوں کے اور ان کے جن کو علم دیا گیا درجے بلند فرمائے گا اور اللہ کو تمہارے کاموں کی خبرہے ‘‘۔ ( سورۃ المجادلہ ) 
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے مجالس کے آداب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اگر تم ان آداب کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے مجالس میں شامل ہو گے تو اللہ تعالیٰ تم میں سے ایمان والوں اور علم والوں کے درجات بلند فرما دے گا۔ اور درجات کی بلندی تب ہی ممکن ہو گی جب ہم کسی ایسی مجلس میں بیٹھیں جس میں علم نافع حاصل ہو ۔ نبی کریم رئوف الرحیم ﷺنے بھی اہل ایمان کو صالحین کی مجالس میں بیٹھنے کی تلقین کی ۔ حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺسے عرض کی گئی یا رسول اللہ ﷺ ہمارے بہترین ہم نشین کون ہیں ؟ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : جب تم انہیں دیکھو تو تمہیں اللہ تعالیٰ کی یاد آئے، جب وہ بولیں تو تمہارے علم میں اضافہ ہو اور جس کا عمل تمہیں آخرت کی یاد دلائے ۔ (شعب الایمان ) 
اس احادیث مبارکہ سے ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ ہمیں ایسی مجالس میں بیٹھنا چاہیے جن میں ہمیں یاد الٰہی نصیب ہو، ہمیں علم نافع حاصل ہو اور ہم اپنی آخرت کو نہ بھول سکیں۔ ایسی مجالس میں بیٹھنے سے بندے کو خیر حاصل ہوتی ہے، ایمان مضبوط ہوتا ہے اور علم میں اضافہ ہوتا ہے اور ایسی مجالس ہماری بخشش کا سامان پیدا کرتی ہیں ۔ ماحول انسان کے جسم کے ساتھ ساتھ اس کی روح پر بھی اثر انداز ہوتا ہے ۔ جیسے صبح کی تازہ ہوا دل و دماغ کو تازگی بخشتی ہے اور آلودہ آب و ہوا انسان کی صحت پر منفی اثرات چھوڑتے ہیں ۔ اسی طرح بُروں کی صحبت سے انسان کی روح کونقصان پہنچتا ہے اور اچھے لوگوں کی صحبت سے روح بھی معطر ہو جاتی ہے ۔

جمعرات، 10 اپریل، 2025

کیا ہم ایمان والے ہیں؟

تقویٰ کی فضیلت

 

تقویٰ کی فضیلت

ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’(یہ) وہ عظیم کتاب ہے جس میں کسی شک کی گنجائش نہیں ، (یہ) پر ہیز گاروں کے لیے ہدایت ہے ‘۔ 
ایک اور جگہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ’’اور (آخرت کے ) سفر کا سامان کر لو بے شک سب سے بہتر زادِ راہ تقویٰ ہے اور اے عقل والو ! میرا تقویٰ اختیار کرو ‘۔
 ارشاد باری تعالیٰ ہے:’ اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور جو کچھ بھی سود میں سے باقی رہ گیا ہے چھوڑ دو اگر تم (صدق دل سے ) ایمان رکھتے ہو‘۔’اور نیکی اور پر ہیز گاری (کے کاموں ) پر ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم ( کے کاموں)  پر ایک دوسرے کی مد د نہ کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو ۔ بے شک اللہ (نافر مانی کر نے والو ں کو ) سخت سزا دینے والا ہے ‘۔ 
احادیث مبارکہ میں بھی تقویٰ کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے ۔ 
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ لوگو ں نے دریافت کیا: یا رسول اللہﷺ ، لوگوں میں سب سے معزز کون ہے؟ آپؐ نے فرمایا، جو سب سے زیادہ متقی ہے‘۔ 
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے ، اللہ تعالیٰ اپنے اس بندے سے محبت رکھتا ہے جو متقی ہو ، مستغنی ہو اور گوشہ نشین ہو ‘۔
 حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریمﷺکو فرماتے ہوئے سنا ہے، آ پؐ نے حجۃ الوداع کے خطبہ میں ارشاد فرمایا: اپنے رب اللہ سے ڈرو ، پانچ نمازیں پڑھو ، رمضان شریف کے روزے رکھو ، اپنے مالوں کی  زکوٰۃ دو ، اپنے امرا ء کا حکم مانو اپنے رب کی جنت میں داخل ہو جائو گے ‘۔
حضرت ابو ہریرہ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! میں سفر پر جانے کا ارادہ رکھتا ہوں مجھے نصیحت فرمائیے۔ آپؐ نے فرمایا: تقویٰ اختیار کرو اور ہر بلندی پر تکبیر کہو۔ جب وہ شخص واپس جانے لگا تو آ پؐ نے فرمایا: ’ اے اللہ ! اس کی دوری کو مختصر کر دے اور اس کے سفر کو آسان فرما دے ‘۔
 حضرت سمرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: شرافت مال (سے) ہے اور عزت تقویٰ ( سے ) ہے ‘۔
 ـ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رویت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا: تقویٰ اعمال کا سردار ہے  ‘۔

ہم مومن کیوں بنیں؟

Surah Al-Room (سُوۡرَةُ الرُّوم) Ayat 55-60.کیا ہم نے کامیابی کا معیار د...

اتوار، 6 اپریل، 2025

فقر کی فضیلت

 

فقر کی فضیلت

ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور دور نہ کرو انہیں جو اپنے رب کو پکارتے ہیں۔صبح و شام اس کی رضا چاہتے ہیں۔ آ پ پر ان کے حساب سے کچھ نہیں اوران پر آپ کے حساب سے کچھ نہیں۔ پھر آپ انہیں دور کریں تو یہ کام انصاف سے بعیدہے۔ اور اسی طرح ہم نے آزمائش میں ڈال دیا بعض کو بعض سے تا کہ وہ کہیں : کیا یہ ہیں وہ لوگ جن پر اللہ نے احسان کیا ہے ہم میں سے۔کیا اللہ نہیں جانتا ان سے زیادہ شکر کرنے والوں کو ‘‘۔
حضور نبی کریم ﷺ کا فرمان عالی شان ہے کہ اس امت کے سب سے بہتر لوگ فقراء ہیں اور سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے کمزور لوگ ہیں۔
فرمان نبوی ﷺ ہے : میری دو باتیں جو انہیں پسند کرتا ہے وہ مجھے پسند کرتا ہے جو انہیں برا سمجھتا ہے ، وہ مجھے برا سمجھتا ہے۔ فقر اور جہاد۔
روایت ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپ ؐ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی ، اللہ تعالیٰ آپ کو سلام فرماتا ہے اور فرماتا ہے اگر آپ چاہیں تو پہاڑ سونے کے بنا دو ں جو آپ  کے ساتھ ساتھ رہیں۔ حضورﷺ نے چند لمحے خاموش رہنے کے بعد فرمایا کہ اے جبرائیل یہ دنیا تو اس کا گھر ہے جس کاآخرت میں کوئی گھر نہ ہو ، یہ اس کی دولت ہے جس کے پاس آخرت میں کوئی دولت نہ ہو اور اسے وہ ہی جمع کرتا ہے جس کے پاس عقل نہ ہو۔ جبرائیل علیہ السلام بولے ، اے اللہ کے نبی ! اللہ تعالیٰ آپ کو اسی حق و صداقت پر قائم رکھے۔
حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : کہ میں نے جنت کو دیکھا اس میں اکثر فقراء تھے میں نے جہنم کو دیکھا اس میں اکثر مال دار اور عورتیں تھیں۔ ایک روایت میں ہے کہ میں نے پوچھا ، کہ مال دار کہاں ہیں ؟ تو مجھے بتایا گیا کہ انہیں مال داری نے گرفتار کر لیا ہے۔
حضرت کعب الا حبار رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام سے فرمایا جب تم فقر کو آتے دیکھو تو کہنا ، خوش آمدید اے نیکیوں کے لباس۔
 حضرت موسی علیہ السلام ایک ایسے شخص کے پا س سے گزرے جو اینٹ کا تکیہ بنائے کمبل میں لپٹا ہوا زمین پر سو رہا تھا اوراس کی داڑھی اور تمام چہرہ گرد آلود ہو رہا تھا۔ موسی علیہ السلام نے عرض کی اے اللہ تعالی ! تیرا یہ بندہ دنیا میں برباد ہو گیا ، اللہ تعالیٰ نے موسی علیہ السلام کی طرف وحی نازل کی اور فرمایا آپ کو پتہ نہیں جب میں کسی بندے پر اپنے کرم کے دروازے مکمل طور پر کھول دیتا ہوں تو اس سے دنیا کی الفت ختم کر دیتا ہو ں۔ حضور ﷺ نے فرمایا : فقر دنیا میں مومن کے لیے تحفہ ہے۔

Surah Al-Room (سُوۡرَةُ الرُّوم) Ayat 51-53-کیا ہم اندھے بہرے اور گونگے...

ہفتہ، 5 اپریل، 2025

حکمت کی بات - اصل مومن کون؟

شرفِ انسانیت

 

شرفِ انسانیت

قرآ ن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات ہے جو انسانی شرف ، وقار اور عظمت کے اصول واضح کرتا ہے ۔ قرآن مجید میں کئی مقامات پر یہ ذکر آیا ہے کہ انسان کو برتری علم ، تقویٰ اور اچھے اعمال کی بنیاد پر حاصل ہوئی ہے نہ کہ نسل ، مال یا کسی اور دنیاوی معیار پر ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’اور ہم نے بنی آدم کو عزت دی‘۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر فرما دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسان کو تمام مخلوقات پر فضیلت بخشی ہے اور اس فضیلت کا معیار علم ، عقل اور شعور کی بنیاد پر ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرشتوں کو حضرت آدم علیہ السلام کو سجدہ کرنے کا حکم دیا اس کی وجہ علم تھی جو اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کو سکھایا اور یہی برتری کی دلیل ہے ۔ 
اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے کہا، مجھے ان چیزوں کے نام بتا دو اگر تم اپنے خیال میں سچے ہو تو انھوں نے عرض کی، ہم کچھ نہیں جانتے سوائے اس کے جو کچھ تو نے ہمیں سکھایا ۔پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام سے کہا، اے آدم، اب تم انھیں اشیاء کے نام بتائو ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’فرمایا، اے آدم بتا دو انھیں سب اشیاء کے نام۔ جب آدم نے انھیں سب کے نام بتا دیے، فرمایا، میں نے کہا تھا کہ میں جانتا ہوں آسمانوں اور زمین کی سب چھپی چیزیں اور میں جانتا ہوں جو کچھ تم ظاہر کرتے ہو اور جو کچھ تم چھپاتے ہو ‘۔( سورۃ البقرہ ) 
معاشروں میں جب انسان کی عظمت کا تعین علم کی بجائے مال ، دولت اور اثرو رسوخ کی بنیاد پر ہوتا ہے تو معاشرہ تباہی کی طرف ہی جائے گا ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’ اے محبوب، ایک کتاب تمھاری طرف اتاری گئی تو تمھارا جی اس سے نہ رکے اس لیے کہ تم اس سے ڈر سنائو اور مسلمانوں کو نصیحت ۔ اے لوگواس پر چلو جو تمھاری طرف تمھارے رب کے پاس اترا اور اسے چھوڑ کر اور حاکموں کے پیچھے نہ جائو بہت ہی کم سمجھتے ہو‘۔ ( سورۃ الاعراف ) 
سورۃ الاعراف میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’اور بے شک ہم نے تمھیں زمین میں جما ئو دیا اور تمھارے لیے اس میں زندگی کے اسباب بنائے بہت ہی کم شکر کرتے ہو ۔اور بے شک ہم نے تمھیں پیدا کیا پھر تمھارے نقشے بنائے پھر ہم نے ملائکہ سے فرمایا کہ آ دم کو سجدہ کرو تو وہ سب سجدے میں گر گئے مگر ابلیس یہ سجدہ والوں میں نہ ہوا ‘۔ 
 سب سے پہلے قرآن مجید: انسان کے اشرف المخلوقات ہونے کا حقیقی شرف قرآن مجید ہے اصولوں پر عمل پیرا ہو کر زندگی بسرکرنا ہے ۔ دوسرا اللہ تعالیٰ نے زمین پر جو چیزیں نازل فرمائی ہے اس کے بدلے اللہ تعالیٰ شکر ادا کرنا ۔ جو نا شکری کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس سے سب کچھ چھین لیتا ہے ۔ اس کے بعد ملائکہ پر انسان کی برتری عمل کی وجہ سے ۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو علم الاسماء سکھا کر علم کے ذریعے انسان کو فرشتوں پر برتری دی اور پھر اسی علمی تفوق کی بنیاد پر انسان کو فرشتوں سے سجدہ کرایا ۔

جمعہ، 4 اپریل، 2025

تعمیر شخصیت اور قرآن

 

تعمیر شخصیت اور قرآن

قرآن مجید انسان کی روحانی ، فکری ، اخلاقی اور عملی زندگی کی راہنمائی کرتا ہے۔ یہ نہ صرف عقائد و عبادات کی وضاحت کرتا ہے بلکہ ایک مثالی شخصیت کی تعمیر کے اصول بھی وضح کرتا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے :
’’ اس لیے کہ غم نہ کھائو اس پر جو ہاتھ سے جائے اور نہ اترائو اس پر جو تم کو دیا اور اللہ کو نہیں پسند کوئی اترونا بڑائی مارنے والا ‘‘۔ ( سورۃ الحدید )۔
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے انسانی فطرت کے دو پہلوئوں کی طرف رہنمائی فرمائی ہے کہ اگر تم کوئی چیز کھو دو تو اس پر غم نہ کرو اور نہ ہی خود کو اس میں کھوئے رکھو ضروری نہیں کہ تمہاری ہر خواہش پوری ہو اور جو چیز تم چاہتے ہو اسکے حاصل نہ ہونے کی صورت میں فطرت اور درست سمت پر رکھو۔ اور جو کچھ تمہیں حاصل ہو اسے اپنی محنت اور کوشش کا نتیجہ نہ سمجھو بلکہ اسے اللہ تعالی کی عطا سمجھو کیونکہ اللہ تعالی کو بڑائی اور تکبر پسند نہیں۔ 
سورۃآل عمران میں اللہ تعالیٰ نے انسان کی شخصیت کے اصول بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا :’’تو تم انہیں معاف فرمائو اور ان کی شفاعت کرو اور کاموں میں ان سے مشورہ لو اور جو کسی بات کا ارادہ پکا کر لو تو اللہ پر بھروسہ رکھو بیشک توکل والے اللہ کو پیارے ہیں ‘‘۔
اس آیات مبارکہ میں بیان کیے گئے اصولوں پر عمل کیا جائے تو نہ صرف تعمیر شخصیت ہو گی بلکہ تعمیر معاشرہ بھی ہو گی۔ سب سے پہلے ہے در گزر کرنا۔ یعنی اگر کسی سے کوئی غلطی سر زد ہو جائے تو اسے معاف کر دینا چاہیے اس سے نہ صرف شخصیت کی تعمیر ہو گی بلکہ معاشرہ بھی امن کا گہوارہ بنے گا۔درگزر کرنا سنت رسول بھی ہے۔ اسی آیت میں اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اے محبوب اگر تم ان سے سختی مزاجی سے پیش آتے تو یہ تم سے دور ہو جاتے۔ اس معلوم ہوتا ہے کہ قیادت میں نرم مزاجی اور در گزر کرنا ضروری ہے۔ 
اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوب کو دوسرا اصول یہ بیان فرمایا کہ ان کے لیے دعا کرو۔ اس سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمیں دوسروں کے لیے دعا کرنی چاہیے۔ 
تیسرا  کوئی بھی کام کرنے سے پہلے مشورہ کر لینا بھی سنت رسول ہے۔نبی کریم ﷺ اس کے باوجود کہ وحی الٰہی آپ  کی راہنمائی کے لیے موجود تھی آپؐ صحابہ کرام ؓ سے مشورہ کر لیا کرتے تھے۔  توکل علی اللہ جب کوئی کام مشورہ اورغورو فکر کرنے کے بعد شروع کر لیا جائے تو پھر اللہ تعالیٰ پر مکمل بھروسہ کرنا چاہیے کیونکہ وہی حقیقی مدد گار ہے۔ اس کے علاوہ ہمیں قرآن مجید تعمیر شخصیت کے لیے صدق وامانت ، عدل وانصاف ، صبر و استقامت ، علم کے حصول اور حسن سلوک کا درس دیتا ہے۔ قرآن مجید شخصیت کو سنوارنے اور نکھارنے میں بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید پڑھنے اور اس پر عمل کرنے کی تو فیق عطا فرمائے۔ آمین