اللہ تعالی کی طرف سے بہت ہی آسان فلاح کا راستہ سنیے اور عمل کیجئے تاکہ ہم سب فلاح پا لیں . ہر قسم کی تفرقہ بازی اور مسلکی اختلافات سے بالاتر آسان اور سلیس زبان میں
پیر، 30 جون، 2025
مرنے کے بعد انسان کی آرزوئیں(۲)
مرنے کے بعد انسان کی آرزوئیں(۲)
جب مرنے کے بعد انسان کو اس کے اعمال کی وجہ سے سزا دی جائے گی تو وہ آرزو کرے گا اے کاش میں نے دنیا میں اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت کی ہوتی ۔ارشاد باری تعالیٰ ہے : جس دن ان کے چہرے آگ میں بار بار الٹے جائیں گے تو کہتے ہوں گے ہائے اے کاش ہم نے اللہ کا حکم مانا ہوتا اور اس کے رسول کا حکم مانا ہوتا ۔ ( سورۃ الاحزاب :۶۶)۔
اللہ تعالیٰ کی ذات و صفات کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرانا کبیرہ گناہ ہے اور اس کی معافی نہیں ہے ۔ جب قیامت کے دن مشرک یعنی شرک کرنے والے کو عذاب ہوگا تو کہے گا اے کاش میں نے اپنے رب کا کسی کو شریک نہ کیا ہوتا ۔ (سورۃ الکھف )۔ ایک مقام پر اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ جب انہیں جہنم کی آگ پر کھڑا کیا جائے گا تو یہ تمنا کرے گا کہ کاش میں دنیا میں واپس چلا جاوں اور اللہ تعالیٰ کی آیات کو نہ جھٹلاوں اور مسلمان ہو جاوں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور کبھی تم دیکھو جب وہ آگ پر کھڑے کیے جائیں گے تو کہیں گے کاش کسی طرح ہم واپس بھیجے جائیں اور اپنے رب کی آیتیں نہ جھٹلائیں اور مسلمان ہو جائیں ۔ ( سورۃ الانعام :آیت ۷۲)۔
آج مسلمان بھی اللہ تعالیٰ کے احکامات کو بھلا کر اپنی زندگیا ں بسر کر رہے ہیں ۔ سود ، غیبت ، چغلی ، دھوکہ دہی ، ذخیرہ اندوزی ، جھوٹ عام ہو چکا ہے مسلمانوں میں اتحاد ختم ہو چکا ہے جس کی بڑی وجہ قرآن و سنت کی پیروی نہ کرنا ہے ۔
سورۃا لاحزاب میں ارشادباری تعالیٰ ہے : اور جس دن ظالم اپنے ہاتھ چبا لے گا اور کہے گا کہ ہائے کسی طرح سے میں نے رسول اللہﷺ کی راہ لی ہوتی۔یعنی جو لوگ دنیا میں سیرت النبی ﷺ کی پیروی نہیں کرتے اپنی زندگیاں اسلامی احکامات کے مطابق بسر نہیں کرتے وہ اس دن آرزو کریں گے کہ کاش ہم نے دنیا میں نبی کریم ﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری کی ہوتی اور آج نجات پا جاتے ۔ انسان مرنے کے بعد آرزو کرے گا کہ اے اللہ تو نے ہمیں تھوڑی مہلت دی ہوتی تاکہ ہم تیری راہ میں صدقہ و خیرات کر لیتے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور ہمارے دیے میں سے کچھ ہماری راہ میں خرچ کرو قبل اس کے کہ تم میں سے کسی کو موت آجائے پھر کہنے لگے اے میرے رب تو نے مجھے تھوڑی مدت تک کیوں مہلت نہ دی کہ میں صدقہ دیتا اور نیکوں میں ہوتا ۔ (سورۃ المنٰفقون )۔
قرآن مجید فرقان حمید کی ان آیات کی روشنی میں ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ مرنے کے بعد تمام تر خواہشات صرف حسرت ہی رہ جائیں گی ۔لہذا ابھی وقت ہے ہم اپنے اعمال کو درست کریں ۔نیک سیرت دوست بنائیں ، صدقہ و خیرات کریں اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺ کی پیروی کریں ۔
اتوار، 29 جون، 2025
ہفتہ، 28 جون، 2025
مرنے کے بعد انسان کی آرزوئیں(۱)
مرنے کے بعد انسان کی آرزوئیں(۱)
اللہ تعالیٰ نے انسان کو اشرف المخلوقات بنایا اور اسے اچھائی اور برائی دونوں طرح کے راستے دکھائے۔اور فرمایا کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ جو کچھ یہاں بیجوگے وہی کچھ آخرت میں کاٹو گے۔بعض اوقات انسان دنیا کی ظاہری رنگینیوں میں گْم ہو کر سیدھے راستے سے بھٹک جاتا ہے اور آخر کار اسے موت آ جاتی ہے۔ موت کے بعد بھی انسان کی سوچ ، احساس اور تمنا باقی رہتی ہے۔ وہ دنیا میں واپس جانے اور اپنے اعمال درست کرنے کی خواہش کرتا ہے مگر اس وقت کوئی بھی خواہش پوری نہیں ہوتی۔ وہ مسلمان جنہوں نے دنیا میں نیک اعمال نہیں کیے ہوں گے وہ اس بات کی آرزو کریں گے کہ کاش ہم دنیا میں واپس لوٹ جائیں اور اپنے اعمال کو درست کر لیں لیکن یہ بس ان کی خواہش ہو گی جو کبھی پوری نہیں ہو گی۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ اے میرے رب مجھے واپس پھیر دیجیے۔ شاید اب میں کچھ بھلائی کما سکوں اس میں جو چھوڑ آیا ہوں۔ ہرگزنہیں۔ یہ تو ایک بات ہے جو وہ اپنے منہ سے کہتا ہے ‘‘۔ ( سورۃ المؤمنون:آیت ۹۹، ۱۰۰)۔
حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ قیامت کے دن جب جب جانوروں اور چوپایوں کو اٹھایا جائے گا اور انہیں ایک دوسرے سے بدلہ دلایا جائے گا اس کے بعد وہ سب خاک ہو جائیں گے ،یہ دیکھ کو انسان حسرت کرے گا کہ کاش میں بھی ان کی طرح خاک کر دیا جاتا۔مطلب کہ مجھے خاک بنادیا جاتا اور میں عذاب سے بچ جاتا۔ مرنے کے بعد جب میدان حشر میں دوبارہ زندہ کیا جائے گا اور حساب کتاب کے بعد جزا و سزا کا فیصلہ ہو گا، گناہگار جب اپنے اعمال دیکھیں گے تو کہیں گے کاش میں دنیا میں نیک اعمال کرتا اور آج ان کا اجر پاتا۔ارشاد باری تعالی ہے :’’ کہے گا ہائے کسی طرح میں نے جیتے جی نیکی آگے بھیجی ہوتی ‘‘۔ ( سورۃ الفجر : آیت ۲۴)۔ جب بندے کو اس کا اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں دیا جائے گا تو وہ اس بات کی حسرت کرے گا کہ کاش میرا اعمال نامہ مجھے نہ دیاجاتا۔ارشاد باری تعالی ہے : ’’ اور وہ جو اپنے نامہ اعمال کو بائیں ہاتھ میں دیکھے گا تو کہے گا ہائے مجھے اپنا اعمال نامہ نہ دیا جاتا ‘‘۔ دنیا میں اچھے اور نیک سیرت دوست بنانے چاہیں جو ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کو بھی سنوار دیں۔ نہ کہ ایسے دوست بنائیں جن کی وجہ سے ہمیں آخرت میں اعمال نامہ بائیں ہاتھ میں لینا پڑے۔ ارشاد باری تعالی ہے : بندہ کہے گا "وائے خرابی میری ہائے، کسی طرح میں نے فلاں کو دوست نہ بنایا ہوتا ‘‘۔ ( سورۃ الفرقان )۔
سچی توبہ کی نشانیاں
سچی توبہ کی نشانیاں
توبہ کی توفیق مل جانا اللہ تعالیٰ کی عظیم نعمت ہے جو بندے کو گناہوں سے نکال کر رب کی رحمت کے نور کی طرف لے آتی ہے اور توبہ کرنے والوں سے اللہ تعالیٰ بھی بہت زیادہ خوش ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ بیشک اللہ توبہ کرنے والوں سے محبت کرتا ہے ‘‘۔( سورۃ بقرہ)۔
لیکن توبہ بھی وہ ہو جو سچی اور خلوص دل سے کی جائے۔
سورۃ التحریم میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : ’’ اے ایمان والو اللہ کی طرف ایسی توبہ کرو جو آگے کو نصیحت ہو جائے ‘‘۔ ( آیت نمبر : ۸)۔
یعنی توبہ ایسی کی جائے کہ پھر کبھی گناہوں کی طرف پلٹ کر نہ جائیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں انسان صرف اسی صورت سچی توبہ کے لیے اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر سکتا ہے جب وہ سچے دل اور خلوص نیت کے ساتھ اپنے گناہوں پر شرمندہ ہو۔ سچی توبہ یہ ہے کہ انسان دل سے اللہ تعالیٰ کی بارگاہ میں آنسو بہائے اور معافی طلب کرے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا توبہ ندامت ہی کا نام ہے۔
جب انسان اللہ تعالیٰ کے حضور گناہوں کی معافی طلب کرے تو پھر دوبارہ کبھی گناہوں کی طرف راغب نہ ہو اور فوری جس گناہ میں مبتلا ہواسے چھوڑ دے۔محض زبان سے معافی مانگنا کافی نہیں۔ اللہ تعالیٰ کے حضور معافی طلب کرنے کے بعد اس بات کا عہد کرے کہ وہ آئندہ کبھی کسی گناہ کی طرف راغب نہیں ہو گا۔ اگر بندہ گناہ کی طرف دوبارہ راغب ہوتا ہے تو یہ سچی توبہ نہیں۔
حضرت رابعہ بصری فرماتی ہیں کہ ہم دن رات اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتے ہیں اپنے گناہوں کی معافی طلب کرتے ہیں لیکن ہمارے اعمال ہمارے کہے گئے الفاظ کے اْلٹ ہوتے ہیں۔ ( احیاعلوم الدین )۔
اگر گناہوں کا تعلق حقوق العباد سے ہو تو صرف اللہ تعالیٰ کے حضور معافی طلب کرنا کافی نہیں بلکہ حقدار کا حق پہنچانا اور اس سے معافی طلب کرنا بھی ضروری ہے۔ اور یہی سچی توبہ کی علامت ہے۔جب انسان سچے دل سے اللہ تعالیٰ کے حضور توبہ کرتا ہے تو پھر اسے گناہوں سے نفرت ہو جاتی ہے اور وہ نیکیوں کی طرف راغب ہو جاتاہے۔
جب بندہ اللہ تعالیٰ کے حضور سچی توبہ کرتا ہے تو اسے دلی سکون و اطمینان حاصل ہوتا ہے۔ بندے کا اللہ تعالیٰ کے ساتھ تعلق مضبوط ہوجاتا ہے اور وہ نماز ، تلاوت قرآن اور ذکر و اذکار کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔ سچی توبہ صرف زبان سے کہ دینا کافی نہیں بلکہ یہ دل سے شروع ہوتی ہے اور آنکھوں کو نم کر دیتی ہے اور انسان نیکیوں میں لگ جاتا ہے۔ سچی توبہ ہی دنیا و آخرت میں کامیابی کی کنجی ہے۔
جمعہ، 27 جون، 2025
جمعرات، 26 جون، 2025
اذکار
اذکار
قرآن مجید میں بہت سارے مقامات پر ـ’ذکر‘ کی تلقین کی گئی ہے ۔ بعض جگہوں پر اللہ تعالیٰ نے قرآن کو ذکر سے تعبیر کیا ہے، یعنی ہر آیت ذکر کا مفہوم پیش کرتی ہے ۔
ذکر اور راہ فلاح : قرآ ن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تا کہ تم فلاح پائو ۔
ذکر اور معاشیات : پھر جب نماز ختم ہو جائے تو ( اپنے کاموں کی طرف ) زمین میں پھیل جائو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرو تا کہ تم فلاح پائو ۔
ذکر سے غفلت کا نتیجہ معاش: ارشاد باری تعالیٰ ہے : اور جو میرے ذکر سے منہ موڑ ے گا اسے یقینا ایک تنگ زندگی نصیب ہو گی اور بروز قیامت ہم اسے اندھا اٹھایا جائے گا ۔
ذکر اور تسکین قلب : ارشاد باری تعالیٰ ہے: (یہ لوگ ہیں) جو ایمان لائے ہیں اور ان کے دل یاد خدا سے مطمئن ہو جاتے ہیں یاد رکھو ! ذکر خدا سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔
ذکرِ کثیر : ارشاد باری تعالیٰ ہے: اے ایمان والوں ! اللہ کو بہت کثرت سے یاد کیا کرو ۔
ہر کیفیت میں ذکر کرنے کا حکم : اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:جو اٹھتے بیٹھتے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہر حال میں اللہ کو یاد کرتے ہیں ۔
ذکر اور اسلوب یزداں :ارشاد باری تعالی ہے: ’لہٰذا تم مجھے یاد رکھو میں تمھیں یاد رکھوں گا ‘۔ ’پس جو چاہے اسے یاد رکھے ‘۔
ذکر اور توبہ : ارشاد باری تعالیٰ ہے: ’اور جن سے کبھی نازیبا حرکت سر زد ہو جائے یا وہ اپنے اوپر ظلم کر بیٹھیں تو اسی وقت خدا کو یاد کرتے ہیں ‘۔
ذکر اور نماز : ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور میری یاد کے لیے نماز قائم کریں ۔
ذکر اور حج : ارشاد باری تعالیٰ ہے : پھر جب تم عرفات سے چلو تو مشعرالحرام (مزدلفہ) کے پاس اللہ کو یاد کرو اور اللہ کو اس طرح یاد کرو جس طرح اس نے تمھاری رہنمائی کی ہے ، حالانکہ اس سے پہلے تم راہ گم کیسے ہوئے تھے ۔
ذکر اور زکوۃ :زکوۃ کا قرآن مجید میں جہاں بھی ذکر آیا ہے وہاں عموما ً نماز کا بھی حوالہ ملتا ہے ۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :نماز قائم کریں اور زکوٰۃ ادا کریں۔
ذکر اور درود : ارشاد باری تعالیٰ ہے :اور ہم نے آپ کی خاطر آپ کا ذکر بلند کر دیا ہے ‘‘۔ ایک اور جگہ ارشاد فرمایا : ’ بے شک اللہ اور اس کے فرشتے آ پؐ پر درود بھیجتے ہیں ۔ اے ایمان والوں ! (تم بھی) ان پر درود بھیجو اور خوب سلام بھیجو‘۔
حضور نبی کریمﷺ نے فرمایا : جو شخص اللہ کا ذکر کرتا ہے اور جو نہیں کرتا ان دونوں کی مثال زندہ اور مردہ کی سی ہے کہ ذکر کرنے والا زندہ ہے اور ذکر نہ کرنے والا مردہ ہے ۔( بخاری شریف )
امانتداری اور روزی میں برکت
امانتداری اور روزی میں برکت
جو بھی بندہ بد دیانتی ، دھوکا دہی یا پھر ملاوٹ کر کے کوئی چیز بیچتا ہے تو اس کا خیال یہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی روزی میں اضافہ کر رہا ہے لیکن کیا جھوٹ بولنے اور دھوکا دینے سے روزی میں برکت آتی ہے یا پھر سچ بول کر کوئی چیز بیچنے سے؟
یہ بات واضح ہے کہ روزی میں برکت بد دیانتی سے نہیں آتی بلکہ امانتداری سے آتی ہے۔ کسی کے پاس پیسے کچھ زیادہ ہونا یا پھر اناج کا زیادہ ہونا رزق میں برکت کی علامت نہیں۔ اگر کسی کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہو اور وہ ہی پیسہ اس کے لیے وبال جان بن جا ئے اور اسے اپنے رب کی یاد سے غافل کر دے ، اس کی اولاد میں بگاڑ پیدا ہو جائے اور انسان کا سکون تباہ ہو جائے تو بظاہر جتنابھی پیسہ ہے وہ برکت سے محروم ہے۔ لیکن اسکے برعکس اگر بندے کے پاس پیسہ کم ہے اور وہ امن و سکون کے ساتھ زندگی بسر کر رہا ہے ، اس کی اولاد پیار اورمحبت کے ساتھ رہ رہی ہے اور وہ لوگوں کے ساتھ اچھے طریقے سے پیش آتا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس کی روزی میں برکت ڈال دی ہے۔
سورۃ الطلاق میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے : جو اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لیے (مشکلات سے نکلنے کی ) راہ پیدا فرماتا ہے اور اسے وہاں سے رزق عطا کرتا ہے جہاں سے اسے گمان بھی نہیں ہوتا۔
حضرت حکیم بن حزام سے روایت ہے کہ حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا :خریدو فروخت کرنے والے اختیار رکھتے ہیں جب تک جدا نہ ہوں۔ پھر اگر انہوں نے سچ کہا اور عیب بیان کر دیا تو ان کی بیع میں برکت دی جائے گی اور اگر انہو ں نے عیب چھپایا اور جھوٹ بولا تو ان کی برکت ختم کر دی جائے گی۔ ( شرح السنۃ للبغوی )۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بازار میں غلہ لانے والے کو رزق دیا جاتا ہے اور ذخیرہ اندوزی کرنے والا اللہ تعالیٰ کی رحمت سے محروم ہو جاتا ہے۔ ( سنن الکبری البہیقی )۔
حضور نبی کریم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے جب تک تاجر امانتداری پر قائم رہے گا اللہ تعالیٰ کی مدد اس کے ساتھ رہے گی اور جب وہ بد دیانتی کرے گا تو اللہ تعالیٰ کی مدد سے محروم ہو جائے گا۔
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میں دو شریکوں کا تیسراہوتا ہوں جب تک ان میں سے ایک اپنے دوسرے ساتھی کے ساتھ خیانت نہیں کرتا اور جب وہ خیانت کرتا ہے تو میں درمیان سے نکل جاتاہوں۔ ( سنن انی دائود)۔
حضور نبی کریم ﷺ کے ارشادات سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ روزی میں برکت امانتداری سے ہوتی ہے، بد دیانتی سے نہیں۔
بدھ، 25 جون، 2025
منگل، 24 جون، 2025
حرص و لالچ اور کنجوسی
حرص و لالچ اور کنجوسی
حرص و لالچ انسان کو کہیں کا نہیں چھوڑتا ہر انسان حرص و لالچ میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے وہ بے شمار مصائب میں مبتلا ہو جاتا ہے۔یہ ایک ایسی بیماری ہے کہ جب انسان اس میں مبتلا ہو جاتا ہے تو انسان کے دل میں مزید کی تمنا بڑھتی چلی جاتی ہے ۔
حضورنبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : انسان کے پاس اگر دو بڑے میدان سونے کے انباروں سے بھر جائیں پھر بھی اس میں تیسرے کی تمنا رہے گی یہاں تک کہ وہ منوں مٹی کے نیچے نہیں پہنچ جاتا ۔
حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : آدمی بوڑھا ہو جاتا ہے لیکن اس کی دو چیزیں ہمیشہ جوان رہتی ہیں ایک مال کی حرص اور دوسری عمر کی حرص ( بخاری )
حضرت ابو امامہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا : مرتبے کے لحاظ سے قیامت کے روز سب انسانوںسے بر تر وہ ہو گا جس نے دوسرے کی دنیا کی خاطر اپنی آخرت خراب کر لی ۔ (ابن ماجہ )
اگر انسان یہ بات ذہن نشین کر لے کہ جو چیز ہماری قسمت میں لکھی جا چکی ہے وہ عمر ہو یا دولت وہ مل کر ہی رہنی ہے وہ بدل نہیں سکتی تو انسان حرص و لالچ سے بچ جائے گا ۔
حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : آدمی کی نجات تین چیزوں میں ہے اول یہ کہ ظاہر اور باطن میں اللہ تعالیٰ سے ڈرتا رہے دوسرا یہ کہ امیر ہو یا فقیر خرچ میں میانہ روی اختیار کرے اور تیسرا یہ کہ غم ہو یا خوشی ہر حال میں انصاف کو ہاتھ سے نہ جانے دے ۔ مزید ارشاد فرمایا : جو شخص میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے دنیا سے بے نیاز کر دیتا ہے اور جو شخص فضول خرچی کرتا ہے اللہ اسے ددسروں کا محتاج بنا دیتا ہے اور فرمایا خرچ کرتے وقت تدبیر اور آہستگی سے کام لو یہ قدم آدھی روزی سے تعلق رکھتا ہے ۔
حرص و لالچ اور مال جمع کرنے کی عادت ہی انسان کو کنجوس بنا دیتی ہے اور وہ ہر معاملے میں بخل اور کنجوسی سے کام لیتا ہے ۔ کنجوسی بہت بُری عادت ہے اس عادت میں مبتلا انسان دوسروں کا حق مارتا ہے اور اس میں انتہائی تنگ نظری پیدا ہونے لگتی ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : سخی اللہ کے قریب ہے، جنت سے قریب ہے،انسانوں سے قریب ہے ، جہنم سے دور ہے اور فرمایا بخیل اللہ تعالیٰ سے دور ہے ، جنت سے دور ہے ، انسانوں سے دور ہے ، جہنم سے قریب ہے اور جاہل سخی عبادت گزار بخیل سے زیادہ اللہ تعالیٰ کو پیارا ہے ( مشکوۃ شریف)
پیر، 23 جون، 2025
صحت : نعمتِ الٰہی
صحت : نعمتِ الٰہی
اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شما ر نعمتوں اور انعامات سے نوازا ہے جس میں ایک نعمت صحت و تندرستی بھی ہے۔حضور نبی کریمﷺنے جسمانی صحت کا خیال رکھنے کے لیے بہت بار حکم فرمایا ہے۔ آپؐ نے ارشاد فرمایا : یقینا تمھارے جسم کا تم پر حق ہے ۔(بخاری ، مسلم )
اللہ تعالیٰ نہ ہی ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اپنی جسمانی صحت کا خیال نہیں رکھتے اور زہدو تقویٰ کے نام پر دنیا کو چھوڑ کر جسم کی پاکیزگی ، غذا ، صفائی ، طہارت اور دیگر جسمانی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے اورنہ ہی اسلام میں ایسے لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے جو اپنی زندگی کا مقصد ہی کھانا پینا اور جسم کی پرورش سمجھتے ہیں۔
دین اسلام میں ہر حکم انسانی صحت کی نشوو نما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔نماز ، روزہ ، کھانے پینے کے ادا ب ، سونے اور جاگنے کے آداب اور لباس پہننے سے متعلق احکام انسانی صحت پر اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اگر انسان صحت مندہے تو وہ اچھے اور احسن طریقے سے عبادت کرسکتا ہے اور اپنی زندگی کے معاملات کو بھی اچھے طریقے سے دیکھ سکتا ہے اس کے بر عکس انسان صحت مند نہ ہو تو وہ نہ ہی عبادت اچھے طریقے سے کر سکتا ہے اورنہ ہی باقی معاملات زندگی کو احسن انداز میں چلا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کے ذریعے انسانی صحت کی فلاح کا اہتمام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے حد پیار فرماتا ہے اس لیے وہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے صحت مند رہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اس لیے اس میں روح کی بالیدگی اور بہتر جسمانی نشو و نما کے لیے واضح خطوط کا تعین کیاگیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک چیز اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور دوسری ناپسندہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو تقویٰ و پرہیز پسند ہے اور فسق و فجور نا پسند ہے ، ایمان پسند ہے اور کفر نا پسند ہے اسی طرح صحت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اوربیماری نا پسند کیوں کہ صحت و تندرستی پر ہی عبادت و ریاضت اور دینی و دنیوی معاملات کا دارو مدار ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ سے جن چیزوں کا سوال کرتا ہے ان میں محبوب ترین عافیت کا سوال ہے۔
حضور نبی مکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : جس انسان میں تین باتیں پائی جاتی ہوں ایسا ہی ہے جیسے اسے پوری دنیا کی نعمتیں سمیٹ کردے دی گئی ہوں۔ جس شخص نے صبح اس حالت میں کی کہ اسے جسمانی صحت حاصل ہے اور وہ اپنے گھر میں خوش ہے اور اس کے پاس ایک دن گزارنے کے لیے مال ہے اس کو دنیا سمیٹ کر دے دی گئی ہے۔(ترمذی، ابن ماجہ)
اللہ تعالیٰ نہ ہی ایسے لوگوں کو پسند کرتا ہے جو اپنی جسمانی صحت کا خیال نہیں رکھتے اور زہدو تقویٰ کے نام پر دنیا کو چھوڑ کر جسم کی پاکیزگی ، غذا ، صفائی ، طہارت اور دیگر جسمانی ضروریات کا خیال نہیں رکھتے اورنہ ہی اسلام میں ایسے لوگوں کو پسند کیا جاتا ہے جو اپنی زندگی کا مقصد ہی کھانا پینا اور جسم کی پرورش سمجھتے ہیں۔
دین اسلام میں ہر حکم انسانی صحت کی نشوو نما میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔نماز ، روزہ ، کھانے پینے کے ادا ب ، سونے اور جاگنے کے آداب اور لباس پہننے سے متعلق احکام انسانی صحت پر اچھے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ اگر انسان صحت مندہے تو وہ اچھے اور احسن طریقے سے عبادت کرسکتا ہے اور اپنی زندگی کے معاملات کو بھی اچھے طریقے سے دیکھ سکتا ہے اس کے بر عکس انسان صحت مند نہ ہو تو وہ نہ ہی عبادت اچھے طریقے سے کر سکتا ہے اورنہ ہی باقی معاملات زندگی کو احسن انداز میں چلا سکتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے اپنے احکامات کے ذریعے انسانی صحت کی فلاح کا اہتمام کیا ہے۔ اللہ تعالیٰ اپنے بندوں سے بے حد پیار فرماتا ہے اس لیے وہ اس بات کو پسند فرماتا ہے کہ اس کے بندے صحت مند رہیں۔ اسلام دین فطرت ہے اس لیے اس میں روح کی بالیدگی اور بہتر جسمانی نشو و نما کے لیے واضح خطوط کا تعین کیاگیا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے دنیا میں ہر چیز کے جوڑے پیدا کیے ہیں۔ لیکن ان میں سے ایک چیز اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اور دوسری ناپسندہے۔ یعنی اللہ تعالیٰ کو تقویٰ و پرہیز پسند ہے اور فسق و فجور نا پسند ہے ، ایمان پسند ہے اور کفر نا پسند ہے اسی طرح صحت اللہ تعالیٰ کو پسند ہے اوربیماری نا پسند کیوں کہ صحت و تندرستی پر ہی عبادت و ریاضت اور دینی و دنیوی معاملات کا دارو مدار ہے۔
حضور نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا : اللہ سے جن چیزوں کا سوال کرتا ہے ان میں محبوب ترین عافیت کا سوال ہے۔
حضور نبی مکرمﷺ نے ارشاد فرمایا : جس انسان میں تین باتیں پائی جاتی ہوں ایسا ہی ہے جیسے اسے پوری دنیا کی نعمتیں سمیٹ کردے دی گئی ہوں۔ جس شخص نے صبح اس حالت میں کی کہ اسے جسمانی صحت حاصل ہے اور وہ اپنے گھر میں خوش ہے اور اس کے پاس ایک دن گزارنے کے لیے مال ہے اس کو دنیا سمیٹ کر دے دی گئی ہے۔(ترمذی، ابن ماجہ)
باطنی بیماریا ں اور ان کا علاج
باطنی بیماریا ں اور ان کا علاج
آج کے دور میں انسان اپنی جسمانی بیماریوں کا علاج تو بڑی فکر اور بہترین ڈاکٹر سے کرواتا ہے اور انسان ظاہری لباس ، جسمانی فٹنس پر تو بے شمار خرچ کرتا ہے لیکن اپنی باطنی بیماریوں کا علاج نہیں کرتا جو اسے اندر سے کھوکھلا کر رہی ہوتی ہیں۔ باطنی بیماریوں کا علاج اللہ تعالیٰ نے آج سے چودہ سوسال پہلے ہی قرآن مجید میں بیان کر دیا تھا۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ان کے دلوں میں بیماری ہے تو اللہ نے ان کی بیماری اور بڑھا ئی اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے بدلہ ان کے جھوٹ کا ‘‘۔( البقرۃ)۔
اس بیماری سے مراد منافقت ہے یعنی انسان زبان سے تو کچھ کہتا ہے لیکن اس کے دل میں کچھ اور ہوتا ہے۔
سورۃ النساء میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے انہیں اپنے فضل سے دیا ‘‘۔ ( سورۃ النساء آیت۵۴)۔
یہ وہ بیماریاں ہیں جو انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہیں۔یہ بیماریاں انسان کے ایمان اور روحانی زندگی کے لیے زہرِ قاتل ہیں۔حسد ، کینہ اورریاء کاری جیسی بیماریاں انسان کے اعمال کو برباد کر دیتی ہیں اور اسے معلوم تک نہیں ہوتا اور بندے کا تعلق اللہ سے کٹ جاتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو بیماریوں سے شفاء حاصل کرنے والا بنایا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اور ہم قرآن میں اتارتے ہیں وہ چیز جو ایمان والوں کے لیے شفاء اور رحمت ہے‘‘۔( سورۃ بنی اسرائیل :آیت ۸۲)۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ان تمام بیماریوں کا علاج بتایا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ اے ایمان والواللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ ہو ‘‘۔
جب انسان سچائی کا راستہ اختیار کرتا ہے تو منافقت اس کے دل سے ختم ہو جاتی ہے۔ اسی طرح حسد انسان کے نیک اعما ل کو ختم کر دیتا ہے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں حسد کی بیماری سے بچنے کی دعا بھی سکھائی ہے۔ ’’اور حسدکے شر سے جب وہ مجھ سے جلے ‘‘۔ اللہ تعالیٰ کی رضا اور اس کی تقسیم پر راضی رہنے سے بندہ اس خطرناک باطنی بیماری سے بچ جاتا ہے۔
تکبرکا علاج تواضع و انکساری اور عاجزی کو اختیار کرنا ہے۔ عاجزی اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺکوبہت پسند ہے۔ اسی طرح ریاء کاری کا علاج اخلاص ہے یعنی ہر عمل اللہ تعالیٰ کی رضا کے لیے کیا جائے اور غفلت کا علاج ذکر اور قرآن مجید کی تلاوت کرنا ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور ان جیسے نہ ہوں جو اللہ کو بھلا بیٹھے ‘‘ان تمام بیماریوں کا علاج اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہو کر ممکن ہے اسی میں ہی ہماری نجات اور کامیابی ہے۔
اتوار، 22 جون، 2025
قلب ِ سلیم
قلب ِ سلیم
دل انسانی جسم کا انتہائی اہم جزو ہے۔ قرآن مجید میں دل کی اہمیت و صفات کو مختلف مقام پر بیان کیا گیا ہے۔ قرآن مجید میں دل کی مختلف اقسام کا ذکر موجود ہے جس میں قلب مریض ، قلب منکر ، قلب منافق اور قلب سلیم وغیرہ شامل ہیں۔ لیکن ان میں سب سے اعلی ،پاکیزہ اور اللہ تعالیٰ کے نزدیک مقبول ترین قلب سلیم ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:’’ جس دن نہ مال کام آئے گا نہ بیٹے۔ مگر وہ جو اللہ کے حضور حاضر ہوا قلب سلیم لے کر ‘‘۔ ( سورۃ الشعرا ء:آیت ۸۸،۸۹)۔
قلب سلیم کا معنی ہے ایسا دل جو سلامت ہو یعنی جو عقائد ، نیت اور اخلاص کے لحاظ سے پاک ہو اور اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع کر نے والا ہو۔ قلب سلیم وہ دل ہے جس میں شرک ، حسد ، کینہ ، بغض ، نفاق ، ریاکاری اور غرور جیسی بیماریاں موجود نہیں ہوتیں۔ یہ دل صرف اللہ کے لیے ذکر کرتا ہے، اللہ کے لیے محبت کرتا اور اللہ کے لیے ہی نفرت رکھتا ہے۔
قلب سلیم رکھنے والے شخص کا اللہ تعالیٰ کی توحید پر پختہ ایمان ہوتا ہے اور وہ ہر طرح کے شرک چاہے وہ شرک فی الذات ہو ، شرک فی الصفات ہو سے پاک ہوتا ہے۔ ایسے شخص کاہر عمل ریاکاری ، دکھاوے اور دنیاوی مفادات سے پاک ہوتا ہے اور وہ ہر کام صرف اور صر ف اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرتا ہے۔
قلب سلیم رکھنے والا شخص اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہتا ہے اور اللہ تعالیٰ کے فیصلوں کو مانتا ہے اور ہر حال میں تعالیٰ تعالی کا شکر بجا لاتا ہے۔ جو شخص قلب سلیم کا مالک ہو وہ دسروں کے ساتھ نرمی کا معاملہ اختیار کرتا ہے اور اگر کسی سے غلطی ہو جائے تو اس سے در گزر کرتا ہے اور اپنے دل میں کسی کے لیے بھی نفرت پیدا نہیں کرتا۔
قلب سلیم رکھنے والے شخص کو دلی سکون دنیاوی ما ل و دولت سے نہیں ملتا بلکہ اسے دلی سکون اور اطمینان اللہ تعالیٰ کے ذکر سے حاصل ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’سن لو اللہ کی یاد ہی میں دلوں کا سکون ہے ‘‘۔ ( سورۃ الرعد :آیت ۲۸)۔
قلب سلیم حاصل کرنے کے لیے تلاوت قرآن مجید کثرت سے کی جائے اور اس کی آیات پر تدبر و تفکر کیا جائے۔ پنجگانہ نماز خشوع و خضوع کے ادا کی جائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ کو اپنایا جائے۔ اپنے نفس کا محاسبہ کیا جائے تا کہ ہم گناہوں سے بچ سکیں۔ دل کو صاف رکھنے کے لیے تقوی ٰ، رزق حلال اور سچائی کو اختیار کر نا ضروری ہے۔ ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ قلب سلیم کو اپنی حیات کا مقصد بنائے کیونکہ اسی دولت کی وجہ سے ہی آخرت میں نجات اور کامیابی ممکن ہے۔
ہفتہ، 21 جون، 2025
جمعہ، 20 جون، 2025
ذکرِ خفی
ذکرِ خفی
دین اسلام وہ واحد دین ہے جو انسان کی ہر جسمانی ، روحانی اور قلبی ضرورت کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔ اللہ جل شانہ کے ذکرسے دلی سکون ، نفس کی پاکیزگی اور اللہ تعالیٰ کی قربت حاصل ہوتی ہے۔ ذکر کی کئی اقسام ہیں ان میں ذکر خفی کو خصوصی اہمیت اور مقام حاصل ہے۔
ذکر خفی سے مراد ایسا ذکر ہے جو انسان اپنے دل میں کرتا ہے۔ اس ذکر کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں سن سکتا اور یہ ریاء کاری ، دکھلاوے اور شہرت سے پاک ہوتا ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور اپنے رب کو اپنے دل میں یاد کرو زاری اور ڈر سے اور بے آواز نکلے زبان سے صبح اور شام اور غافلوں میں نہ ہونا ‘‘۔ ( سورۃ الاعراف :آیت۲۰۵)۔
ذکر خفی دل کی گہرائی میں ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس میں ایک خصوصی توجہ اور رغبت حاصل ہوتی ہے اور دل کو ایک روحانی طاقت حاصل ہوتی ہے۔جس سے انسان اللہ تعالیٰ کے قریب ہوتا ہے۔
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ سب سے افضل ذکروہ ہے جو خفی ہو اور سب سے افضل رزق وہ ہے جو کافی ہو۔ ( مسند احمد )۔
ذکر خفی مومن کا راز ہے جس سے وہ اپنے رب سے ہم کلام ہوتا ہے اور ذکر خفی سے دل کی صفائی ہوتی ہے۔جب دل ہر وقت یاد الٰہی میں مشغول ہو گا تو وہ ہر طرح کی بیماری سے بچ جائے گا۔ ذکر خفی سے دل منور ہوتا ہے ، روح مضبوط ہوتی ہے اور باطن کو نور حاصل ہوتا ہے۔ اسی لیے اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا کہ بلاشبہ دلو ں کا سکون اللہ تعالیٰ کے ذکر میں ہی ہے۔
ذکر خفی اللہ تعالیٰ کے درمیان ایک راز ہے اور ایک ایسا تعلق ہے جو دل کہ گہرائی سے نکل کر عرش الٰہی تک پہنچتا ہے۔ آج ہر طرف شور و غل ، دکھلاوا اور ریاء کاری عام ہے۔ ایسی صورتحال میں ذکر خفی وہ واحد پناہ گاہ ہے جس میں انسان کو حقیقی راحت ، اللہ تعالیٰ کا قرب اور باطنی سکون میسر ہوتاہے۔
حضرت ابو دردائود سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا، میں تمہیں تمہارے اعمال میں سب سے بہتر عمل کی خبر نہ دوں جو تمہارے رب کے نزدیک زیادہ پاکیزہ ہو ، جو تمہارے اعمال میں سب سے بلند تر ہو ، جو تمہارا سونا اور چاندی کی خیرات کرنے سے افضل ہو ، جو تمہارے لیے اس سے بھی بہتر ہو جو تم دشمنوں سے مقابلہ کر کے انہیں قتل کرو اور وہ تمہاری گردنوں پر وار کریں ؟عرض کی گئی جی یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم۔آپؐ نے فرمایا :وہ اللہ تعالیٰ کا ذکر ہے۔( مشکاۃ المصابیح )۔
ملا علی قاری مرقاۃ المفاتیح میں لکھتے ہیں کہ اس ذکر سے مراد قلبی ذکرہے جو جان و مال خرچ کرنے سے بھی زیادہ افضل ہے۔
منگل، 17 جون، 2025
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ(۳)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ(۳)
حضرت عثمان غنی ؓ کے جسم پر خشیت الٰہی سے لرزا طاری رہتا ، جب کسی قبر کے پاس سے گزرتے تو بہت زیادہ روتے ۔ آپ ؓفرمایاکرتے تھے کہ اگر مجھے یہ علم نہ ہو کہ مجھے جنت ملے گی یا دوزخ تو میں اس کا فیصلہ ہونے کے مقابلہ میں خاک ہو جانا پسند کروں ۔ ( تاریخِ اسلام )
حضرت عثمان غنیؓ ہر کام میں حضور نبی کریم ﷺ کی اتباع کو ملحوط خاطر رکھا کرتے تھے ۔ ایک مرتبہ آپ نے پانی منگواکر وضو فرمایا اور مسکرائے ۔ اپنے احباب سے پوچھا کہ تم جانتے ہو کہ میں کیوں مسکرایا ہو ں پھر خود ہی ارشادا فرمایا، اس جگہ حضور ﷺنے یوں ہی پانی منگوا کر وضو فرمایا اور بعد میں مسکرائے اور بعد میں صحابہ کرام سے عرض کی جانتے ہو میں کیوں مسکرایا ہوں ؟ صحابہ نے عرض کی، اللہ اور اس کا رسول ﷺ بہتر جانتے ہیں ۔ حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب آدمی وضو کرتا ہے ہاتھ دھوتا ہے توہاتھوں سے اور جب منہ دھوتا ہے تو منہ سے مسح کرنے سے سر اور پائوں دھونے سے پائوں کے گناہ جھڑ جاتے ہیں ۔(مسند احمد)
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ایک فتنہ کا ذکر فرمایا اور حضرت عثمان غنی ؓ کے متعلق فرمایا اس میں یہ مظلوماً شہید ہو گا ۔ (ترمذی )
حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ بیان کرتے ہیں کہ صبح کے وقت حضرت عثمان ؓ نے ہمیں فرمایا، بے شک میں نے حضور نبی کریم ﷺ کو گزشتہ رات خواب میں دیکھا ہے۔ آپؐنے فرمایا، اے عثمان، آج ہمارے پاس روزہ افطار کرو۔ پس حضرت عثمان ؓ نے روزہ کی حالت میں صبح کی اور اسی روز انھیں شہید کر دیا گیا۔ (المستدرک للحاکم )
آپ ؓ زہد و تقوی کی چلتی پھرتی تصویر تھے ۔ دن کو اکثر روزہ رکھا کرتے تھے اور رات عبادت و ریاضت میں گزار دیا کرتے تھے ۔ آپؓ نرم مزاج اور صبر و تحمل کے پیکر تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عمر ؓ فرماتے ہیں، نبی کریمﷺ نے فرمایا ہر نبی کا اس امت میں کوئی نہ کوئی دوست ہوتا ہے اور بے شک میرا دوست عثمان بن عفان ؓہے ۔ ( حلیۃ الاولیاء )
حضرت عثمانؓ جامع القرا ٓن بھی ہیں اور شہید قرآن بھی ۔ جب باغیوں نے حملہ کیا تو آپ ؓقرآن مجیدکی تلاوت کر رہے تھے اور روزے کی حالت میں تھے ۔ آپ کے خون کے قطرے سورۃ البقرہ کی آیت مبارکہ پر گرے۔ گویا کہ آپ کی شہادت کی گواہی قرآن مجیدبھی دے گا ۔ آپ ؓ کو18 ذالحج کو شہید کر دیا گیا۔ آپ ؓ کے بارہ سالہ دور خلافت میں اہل اسلام نے بہت سی فتوحات حاصل کیں۔ آپ کے دور ہی میں کسریٰ کی حکومت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ ہوا اور آرمینہ فتح ہوا ور اندلس پر حملوں کا آ غاز ہوا ۔
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ(۲)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ(۲)
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ فضیلت بھی حاصل ہے کہ آپ پوری امت میں سب سے زیادہ حیا والے ہیں۔
نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا : میری امت میں سب سے زیادہ حیا دار عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔ ( ابو نعیم )۔
حضرت ابو موسیٰ ؓ روایت کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ ایک مرتبہ تشریف فرما تھے تو آپ کے ایک یا دونوں پنڈلیوں سے کپڑا اوپر تھا جیسے ہی سیدنا عثمان غنی ؓ آئے تو آپ نے اسے ڈھانپ لیا۔ ( بخاری )۔
حضرت عثمان غنی ؓ عشرہ مبشرہ، یعنی وہ دس صحابہ کرام جن کو نبی کریم ﷺ نے جنت کی بشارت دی، میں شامل ہیں۔ آپ کو یہ بھی شرف حاصل ہے کہ آپ کو دو مرتبہ جنت کی بشارت دی گئی۔ ایک مرتبہ غزوہ تبوک میں مجاہدین اسلام کی مدد کر نے پر اور دوسری مرتبہ بئر رومہ خرید کر مدینہ منورہ کے اہل اسلام کے لیے وقف کرنے پر۔
حضور نبی کریمﷺ نے سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جنت میں اپنی رفاقت کی بشارت دی۔ حضرت ابو موسی عشری ؓسے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ ایک باغ میں داخل ہوئے اور مجھے باغ کے دروازے کی حفاظت پر مامور فرمایا پس ایک آدمی نے اندر آنے کی اجازت طلب کی تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا اسے اجازت ہے اور اسے جنت کی بشارت بھی دے دو۔ جب دیکھا تو وہ صدیق اکبرؓ تھے۔ پھر ایک اور شخص نے اجازت طلب کی تو آپ نے فرمایا اسے اجازت دے دو اور جنت کی بشارت بھی دے دو۔ دیکھا تو وہ حضرت عمر ؓ تھے۔ اسکے بعد ایک اور شخص نے اجازت طلب کی تو آپ تھوڑی دیر خاموش رہے پھر فرمایا اسے بھی اجازت ہے اور جنت کی بشارت بھی ان مصائب و مشکلات کے ساتھ جو اسے پہنچیں گی۔ جب دیکھا تو وہ عثمان غنیؓ تھے۔ ( بخاری )۔
حضرت عبد اللہ بن سہر ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی سعید بن زید کے پاس آیا اور ان سے کہا میں عثمان سے بہت زیادہ بغض رکھتا ہوں تو آپ نے فرمایا تو نے نہایت بری بات کہی تو نے ایک ایسے آدمی سے بغض رکھا جو اہل جنت میں سے ہے۔ ( امام احمد )۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں ہر نبی کا رفیق ہو گا اور جنت میں میرا رفیق عثمان بن عفان رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہے۔ حضرت جابر ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک جنازہ لایا گیا کہ آپ اس کی نماز جنازہ پڑھائیں لیکن آپ نے اس پر نماز نہیں پڑھی۔ آپ سے عرض کی گئی یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو کسی کی نمازجنازہ چھوڑتے نہیں دیکھا۔آپ نے فرمایا یہ عثمان ؓ سے بغض رکھتا تھا اس لیے اللہ نے بھی اس سے بغض رکھا ہے۔ (ترمذی )۔
پیر، 16 جون، 2025
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ
رسول پاک ﷺ کے تمام صحابہ کرام رضوان اللہ علیھم اجمعین بڑی شان و مرتبت والے ہیں جن کو ظاہری زندگی میں نبی کریم ﷺ کا دیدار اور صحبت نصیب ہوئی۔ ان خوش نصیب ہستیوں میں جلیل القدر صحابی خلیفہ ثالث امیر المومنین خلیفۃ المسلمین حضرت سیدنا عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ بھی ہیں۔
حضرت عثمان ؓ کی شخصیت اسلامی تاریخ میں ایک درخشاں ستارے کی مانند ہے۔ آپؓ کی زندگی بے شمار فضائل و مناقب سے بھری ہوئی ہے۔ آپ عام الفیل کے چھ سال بعد پیدا ہوئے۔ آپ کی نانی حضورکے والد ماجد کی حقیقی بہن تھیں اس طرح حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ رسول پاک ﷺ کی پھوپھی زاد بہن کے بیٹے تھے۔آپ کا شمار ان صحابہ کرامؓ میں ہوتا ہے جنہوں نے ابتدا ئے اسلام میں اسلام قبول کیا۔
حضرت عبد اللہ بن عمرؓ فرماتے ہیں بیشک نبی کریم ﷺ بدر والے د ن کھڑے ہوئے اور فرمایا بیشک عثمان اللہ اور اسکے رسول ؐ کے کام میں مصروف ہے اور بیشک میں اس کی بیعت کرتا ہوں اور حضور نبی کریم ؐ نے مال غنیمت میں سے بھی آپ کا حصہ مقر فرمایا اور آپ کے علاوہ جو کوئی اس دن موجود نہیں تھا اس کے لیے حصہ مقرر نہیں کیا۔ ( ابو دائود )۔
آپ کو یہ بھی فضیلت حاصل ہے کہ اللہ کے پیارے حبیب ؒؓ کی دو صاحبزادیاں حضرت رقیہ اور حضرت ام کلثوم رضی اللہ تعالیٰ عنھا یکے بعد دیگرے آپ کے نکاح میں آئیں اسی لیے آپ کو ذوالنورین کے لقب سے پکارا جاتا ہے۔
نور کی سرکار سے پایا دو شالہ نور کا
ہو مبارک تم کو ذوالنورین جوڑا نور کا
آپ حافظ قرآن ، عالم قرآن ، جامع قرآن اور ناشر قرآن بھی تھے۔ اللہ تعالیٰ نے آپ کو علم و حکمت کی بے شمار دولت سے مالا مال فرمایا تھا۔حضرت علیؓ آپ کی علمی عظمت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں : خدا کی قسم میں نہیں جانتا کہ میں آپ سے کیا کہوں ، مجھے کوئی بات ایسی معلوم نہیں جس سے آپ واقف نہیں اور نہ ہی ایسی کوئی بات بتا سکتا ہوں جس سے آپ بے خبر ہوں۔میں آپ سے کسی بات میں سبقت نہیں رکھتا ، نہ ہی میں نے تنہائی میں رسول کریم ﷺ سے کوئی ایسا علم حاصل کیا ہے جو آپ تک پہنچائو ں۔ آپ نے رسول اللہ ؐ کو اسی طرح دیکھا جیسے میں نے دیکھا ، آپ نے آپ کو ایسے ہی سنا جیسے ہم نے سنا ، آپ نے ان کی صحبت ایسی ہی پائی جیسے ہم نے پائی۔( نہج البلاغۃ)۔
آپ کو یہ خا ص اعزاز حاصل ہے کہ آپ نے دو مرتبہ ہجرت فرمائی ایک مرتبہ مکہ مکرمہ سے حبشہ کی طرف اور دوسری مرتبہ مکہ مکرمہ سے مدینہ منورہ کی طرف۔
اتوار، 15 جون، 2025
جمعہ، 13 جون، 2025
اسلام میں رواداری کی اہمیت
اسلام میں رواداری کی اہمیت
اسلام ہمیں امن ، محبت ، برداشت اور رواداری کا درس دیتا ہے۔قرآن مجید اور احادیث مبارکہ میں رواداری کا درس ملتا ہے اور نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ سے ہمیں اس کا عملی نمونہ بھی ملتا ہے۔ رواداری کا مطلب ہے دوسروں کے عقائد ، خیالات اور رویوں کو برداشت کرنا اور ان کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’دین میں کوئی جبر نہیں ‘‘۔ یعنی اسلام کسی پر اپنا عقیدہ مسلط نہیں کرتا بلکہ انسانوں کو آزادی فکر اور اختیار رائے دیتا ہے۔ رواداری کی یہ بنیاداسلام کے آغاز میں ہی رکھی گئی تھی۔
سورۃا لبقرۃ آیت ۸۳ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :’’ لوگوں سے نرمی اور بھلائی کی بات کہو ‘‘،
اللہ تعالیٰ نے بنی نوع انسان کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا کہ ایک دوسرے کے ساتھ حسن اخلاق ، گفتگو میں نرمی اور رواداری کا مظاہرہ کرو۔نبی کریم رئوف الرحیم کی حیات طیبہ میں ہمارے لیے رواداری کا اعلی ترین نمونہ موجود ہے۔ نبی کریمﷺ جب وادی طائف اسلام کی تبلیغ کے لیے گئے تو وہاں کے اوباش لڑکوں نے نبی کریمﷺ کو پتھر مارے۔ فرشتوں نے عرض کی یا رسول اللہ ؐ اگر آپ حکم کریں تو ان کو پہاڑوں کو ملا کر صفہ ہستی سے مٹا دیں۔نبی کریم ﷺنے فرمایا نہیں مجھے امید ہے ان میں ایسے لوگ موجود ہیں جو اللہ کی عبادت کریں گے۔ جب ریاست مدینہ کی بنیاد رکھی گئی تو نبی کریم ﷺ نے یہودیوں اور عیسائیوں سے معاہدے کر کے رواداری کا ایسا عملی نمونہ پیش کیا اور ایک پْر امن معاشرے کی بنیاد رکھی جس کی مثال قیامت تک نہیں ملے گی۔
رواداری نہ صرف ایک اخلاقی قدر ہے بلکہ ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد بھی ہے جس سے معاشرے میں باہمی احترام اور ہم آہنگی کو فروغ ملتا ہے۔ اور معاشرے سے فساد اور نفرت کا خاتمہ ہوتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا سچا مومن وہ ہے جس سے لوگوں کی جان و مال محفوظ ہو۔
اسلامی معاشرہ ایک مثالی معاشرہ بن سکتا ہے اگر اس میں بسنے والے تمام افراد ایک دوسرے کے عقائد ، خیالات اور جذبات کا احترام کریں۔ہمیں نبی کریم ﷺکی سیرت مبارکہ کو اپناتے ہوئے معاشرے کو رواداری ، برداشت اور محبت کا گہوارہ بنانا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم اپنے بچوں کو ایک دوسرے کا احترام کرنا سکھائیں ان کے اندر اعلی اخلاقی اقدار اور رواداری کو پروان چڑھائیں تاکہ ہماری آنے والی نسل ایک پْر سکون معاشرے میں اپنی زندگیاں بسر کر سکے۔
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : آسانی پیدا کرو ، دشواری نہ ڈالو، خوشخبری سنائو خوف نہ پھیلائو۔( بخاری )۔
آج جب پوری دنیا نفرت ، تعصب اور شدت پسندی کا شکار ہے تو اس کا حل قرآن مجید اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات کی روشنی میں رواداری کو اختیار کرنا ہے۔
جمعرات، 12 جون، 2025
سیرت النبی ؐ اور عصر حاضر(۲)
سیرت النبی ؐ اور عصر حاضر(۲)
موجودہ دور میں جن چیلنجز کا سامنا ہے ان میں اخلاقی زوال ، خاندانی نظام کی تباہی ، معاشرے میں بے سکونی ، دین سے بیزاری اور نوجوان نسل کا گمراہی کے راستے پر چلنا شامل ہے۔ ان تمام معاملات کو ٹھیک کرنے کا واحد ذریعہ سیرت النبی ﷺ کو اپنانا ہے۔
عصر حاضر میں معاشرے میں بد دیانتی ، جھوٹ ، حسد ، غیبت ، چغلی ، ظلم و ستم اور دھوکہ ، ذخیرہ اندوزی اور ناجائز منافع خوری عام ہو چکی ہے۔ ان تمام اخلاقی بیماریوں کا علاج نبی کریم ﷺ کی حیات طیبہ میں موجود ہے۔ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :’’مجھے اچھے اخلاق کی تکمیل کے لیے بھیجا گیا ہے ‘‘۔
اس پْر فتن دور میں خاندانی نظام زوال کا شکار ہے۔لڑائی جھگڑے ، والدین سے بد سلوکی اور اولاد کی پرورش پر توجہ نہ دینا عام ہو چکا ہے۔ ہمیں نبی کریم ﷺکی ذات مبارکہ سے شوہر ، بیوی ، والدین ، بچوں اور رشتہ دوروں کے حقوق و فرائض کے متعلق رہنمائی ملتی ہے۔اگر گھر کے تمام افراد نبی کریم ﷺ کی سیرت پر عمل پیرا ہوتے ہوئے اپنی اپنی ذمہ داریوں کو سمجھیں تو خاندان میں سے لڑائی جھگڑے ختم ہو جائیں اور امن و سلامتی قائم ہو جائے۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : ’’تم میں سے بہتر وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لیے بہتر ہے اور میں اپنے گھر والوں کے لیے سب سے بہتر ہوں ‘‘۔ ( ترمذی )۔
معاشی بد حالی کو بہتر کرنے کے لیے نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ سے رہنمائی لینا ضروری ہے۔ اس کے بغیر ہم معاشی حالات کو بہتر نہیں کر سکتے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت میں دیانت ، قرض کی ادائیگی ، زکوۃ کی اہمیت ، سود اور بد عنوانی کی مذمت کی۔ آپ نے عدل ، مساوات اور حقوق العباد کی ایسی لازوال مثالیں قائم کیں جن کی مثال قیامت تک نہیں ملیں گی۔
نوجوان قوم کا سرمایہ ہوتے ہیں۔ اگر نوجوانوں کی تربیت نبی کریم ﷺ کی سیرت مبارکہ کی روشنی میں ہو اور وہ خود کو سیرت محمدی ؐ کے سانچے میں ڈھال لیں تو وہ کسی بھی قوم کی قسمت کو بدل سکتے ہیں۔ حضرت علی المرتضی ؓ ، حضرت اسامہ ؓ ، حضرت زیدؓ ، حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ اور دیگر صحابہ کرام جنہوں نے اپنی جوانیاں نبی کریم ﷺ کے سائے میں گزاریں اور اپنی زندگیوں کو سیرت محمدی ؐ کے مطابق گزارا۔ انہوں نے تاریخ میں ایسے کارنامے سر انجام دیے جو رہتی دنیا تک یاد رکھیں جائیں گے۔ دور حاضر میں اگر ہم روحانی سکون حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں اپنی زندگیوں کو سیرت النبی ﷺ کے مطابق بسر کرنا ہو گا۔
سرمایہ حیات ہے سیرت رسولؐ کی
اسرار کائنات ہے سیرت رسول ؐ کی
پھولوں میں ہے ظہور ستاروں میں نور ہے
ذات خدا کی بات ہے سیرت رسول ؐ کی
سیرت النبی ؐ اور عصر حاضر(۱)
سیرت النبی ؐ اور عصر حاضر(۱)
خلق عظیم و اسوہ ء کامل حضور ؐکا آداب زیست سارے جہاں کوسکھا گیا۔
آج سے چودہ سو سال قبل اقوام عالم میں ہر طرف تاریکی چھائی ہوئی تھی خاص طور پر عرب میں ہر طرف بد اخلاقی ، لڑائی جھگڑا ، عورتوں کی بے حرمتی عام تھی۔ہر طرف ظلم و جبر کا دور دورہ تھا۔ پھر اللہ تعالی نے اقوام عالم پر احسان کیا اور عرب میں بدر منیر چمکا جس کی آمد سے ظلمت کے اندھیرے چھٹ گئے ، عورتوں اورغلاموں کو عزت مل گئی۔حضور نبی کریم ﷺ کی آمد سے ایسا نور چمکا جس نے پوری اقوام عالم کو جینے کا سلیقہ سکھایا اور آداب معاشرت سکھائے۔
بنجر دلوں کو آپؐ نے سیراب کر دیا
ایک چشمہ صفات ہے سیرت رسولؐ کی
ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’بیشک اللہ نے ایمان والوں پر بڑا احسان فرمایا جب ان میں ایک رسول مبعوث فرمایا جو انہی میں سے ہے۔ وہ ان کے سامنے اللہ کی آیتیں تلاوت فرماتا ہے اور انہیں پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے اگرچہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے ‘‘۔ ( سورۃ آل عمران : آیت ۱۶۴)۔
یہ حضور نبی کریم ﷺ کی نظر کرم اور صحبت کا ہی اثر تھا کہ ابو بکر ؓ آئے تو صدیق اکبر بن گئے ، عمر ؓ آئے تو فاروق اعظم بن گئے ، عثمان ؓآئے تو ذوالنورین کا لقب پایا ، علی المرتضی ؓ آئے تو شیر خدا حیدر کرار بن گئے اور خالد بن ولیدؓ آئے تو سیف اللہ کا لقب پایا۔حضور نبی کریم ﷺ کی سیرت طیبہ میں زندگی کے ہر شعبے کے لیے راہنمائی موجود ہے۔وہ معاشرتی معاملات ہو ں یا پھر خاندانی ، انصاف کی فراہمی ہو یا پھر جنگ کا میدان ، حکومتی معاملات ہوں یا پھر دین کی تبلیغ الغرض آپ کی حیات مبارکہ ہمارے لیے مشعل راہ ہے۔
تاریخ کے آئینے میں دیکھا جائے تو ہر دور میں بنی نوع انسان کو مختلف مشکلات اور چیلنجز نے گھیرے رکھا ہے۔ عصر حاضر میں مختلف فتنے سر اٹھا رہے ہیں۔
جدید سائنس ، ٹیکنالوجی ، سوشل میڈیا اور معاشی و فکری انقلاب نے ہمیں بے شمار سہولیات فراہم کی ہیں۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کو روحانی اور اخلاقی طور پر کمزور بھی کیا ہے۔ موجودہ حالات میں اگر کوئی ایسا معیار یا اصول ہے جو انسان کو غلط اور صحیح کی پہچان کرا سکے۔معاشرے کو امن و سلامتی ،عدل و انصاف اور اعلی انسانی اقدار کی طرف رہنمائی کر سکے تو وہ صرف اور صرف نبی کریمﷺ کی سیرت مبارکہ ہے جس کو اپنا کر ہم موجودہ چیلنجز کا مقابلہ کر سکتے ہیں۔
حضور نبی رحمت ؐ کی سیرت طیبہ قیامت تک رہنمائی کاواحد ذریعہ ہے۔ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’بیشک تمہارے لیے رسو ل اللہ (ﷺ) کی ذات میں
بہترین نمونہ موجود ہے ‘‘۔ ( سورۃ الاحزاب )۔
تصویر زند گی کو تکلم عطا کیا
حسن تصورات ہے سیرت رسول ؐکی
بدھ، 11 جون، 2025
اسلام میں عہد شکنی کی مذمت
اسلام میں عہد شکنی کی مذمت
دین اسلام واحد دین ہے جو انسان کے ظاہر و باطن ، فردو ملت اور دنیا و آخرت الغرض ہر پہلو کی اصلاح کرتا ہے۔ سچائی ، امانت ، دیانت اور وفاداری جیسی اعلی اخلاقی اقدار دین اسلام کی بنیاد ہیں۔ انہی میں سے مومن کی ایک صفت عہد وفا کرنا بھی ہے۔ جیسے اگر جسم سے روح نکل جائے تو جسم بے جان ہو جاتا ہے اسی طرح اگر انسان عہد وفا نہ کرے تو معاشرے میں اس کا اعتماد کھو جاتا ہے۔ دین اسلام میں عہد شکنی کو نہ صرف ایک اخلاقی برائی کہا گیا بلکہ وعدہ خلافی کو منافقت کی علامت قرار دیا گیا ہے۔
ایمان کی علامات میں سے ایک علامت وعدہ پورا کرنا بھی ہے اور عہد شکنی کو کبیرہ گناہ قرار دیا گیا ہے۔
سورۃ الرعد آیت نمبر ۲۵ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’اور وہ جو اللہ کا عہد اس کے پکے ہونے کے بعد توڑتے ہیں اور جس کے جوڑنے کو اللہ نے فرمایا اسے قطع کرتے ہیں اور زمین میں فساد پھیلاتے ہیں ان کا حصہ لعنت ہی ہے اور ان کا نصیب بْر ا گھر ‘‘۔
سورۃ آل عمران آیت نمبر ۷۶تا۷۷ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ ہاں کیوں نہیں جس نے اپنا عہد پورا کیا اور پرہیز گاری کی اور بیشک پرہیز گار اللہ کو خوش آتے ہیں۔ وہ جو اللہ کے عہد اور اپنی قسموں کے بدلے ذلیل دام لیتے ہیں آخرت میں ا ن کا کچھ حصہ نہیں اور اللہ نہ ان سے بات کرے نہ ان کی طرف نظر فرمائے قیامت کے دن اور نہ انہیں پاک کرے اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔‘‘
اس آیت مبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے عہد شکنی پر وعید سناتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ نہ ہی ان سے بات کرے گااور نہ ہی ان کی طرف نظرکرم کرے گا اور ان کے لیے سخت عذاب ہو گا۔
قیامت والے دن اللہ تعالیٰ لوگوں سے وعدے کے متعلق سوال کرے گا کہ وہ دنیا میں کیے جانے والے وعدوں کو پورا کرتے رہے یا پھر عہد شکنی کرتے رہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :’’ اور وعدہ پورا کرو بیشک عہد کے متعلق سوال ہونا ہے‘‘۔ ( سورۃبنی اسرائیل آیت ۱۷)۔
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : منافق کی تین نشانیاں ہیں جب وہ بات کرتا ہے تو جھوٹ بولتا ہے ، جب وعدہ کرتا ہے تو اسے وفا نہیں کرتا اور اگراس کے پاس کوئی امانت رکھوائی جائے تو اس میں خیانت کرتا ہے۔( بخاری )۔
عہد شکنی کرنے سے صرف ایک فرد متاثر نہیں ہوتا بلکہ اس کے نقصانات پورے معاشرے پر مرتب ہوتے ہیں۔ عہد شکنی کرنے سے لوگوں میں اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور آخرت میں بھی سزا ملے گی۔اگرہم کسی سے کوئی عہد کرتے ہیں تو اسے ہر حال میں پورا کرنے کی کوشش کریں جس سے نہ صرف معاشرے میں ہمارا اعتماد بہتر ہوگااور لوگ عزت کی نگاہ سے دیکھیں گے بلکہ روز قیامت اللہ تعالیٰ بھی اجر عظیم عطا فرمائے گا۔
جمعرات، 5 جون، 2025
بدھ، 4 جون، 2025
شعائر اسلام(۲)
شعائر اسلام(۲)
مقام ملتزم : کعبۃ اللہ میں بڑی عظمت و شان اور دعائو ں کی قبولیت والی جگہ مقام ملتزم ہے۔ یہ کعبۃ اللہ کے دروازے کی دہلیز کا نیچے والا حصہ ہے۔ کعبہ کی دیوار کے ساتھ کھڑے ہو کے ہاتھوں کو بلند کر کے دہلیز کو پکڑ کر بار گاہ رب العزت میں دعائیں کی جاتیں ہیں۔چشم تصور سے دیکھیں کہ کتنے بر گزیدہ انبیا و رسل نے اس مقام پر دعائیں مانگی تھیں۔ ہمارے آقا ومولا اپنا سینہ مبارک دیوار کعبہ کے ساتھ لگا کر اور اپنا چہرہ مبارک ساتھ لگا کے اس مقام پر دعائیں مانگتے تھے۔
صفا و مروہ: صفا مروہ نوعیت کے اعتبار سے عام پہاڑیوں کی ہی طرح ہیں لیکن انکی نسبت اللہ تعالی کے نیک بندوں سے ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی نشانی قرار دیا۔ جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کے حکم سے حضرت ہاجرہ اور حضرت اسماعیل علیہم السلام کو خانہ کعبہ کے قریب ویرانے میں چھوڑ کر آئے اور ساتھ میں چند کھجوریں اور پانی تھا۔ جب پانی ختم ہو گیا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کو پیاس لگی ارد گرد دور تک کوئی بھی آبادی کے آثار موجود نہیں تھے۔ حضرت ہاجرہ پانی کی تلاش میں کبھی صفا کی پہاڑی پر جاتیں اور کبھی مروہ کی پہاڑی پر۔ اللہ تعالیٰ کو اپنی نیک بندی کی یہ ادا پسند آئی تو اسے حج کا رکن بنا دیا۔ جب بھی حاجی حج کرنے آئے گا تو ان پہاڑیوں پر ایسے ہی چکر لگائے گا جیسے حضرت حاجرہ نے لگائے تھے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ بیشک صفا اور مروہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے ہیں تو جو اس کے گھر کا حج یا عمرہ کریگا اس پر کچھ گناہ نہیں کہ ان دونوں کے پھیرے کرے ‘‘۔ (سورۃ البقرۃ )۔
قربانی: اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ایک اور آزمائش میں ڈالا اور حکم دیا کہ اپنے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کریں۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالیٰ کی اس آزمائش میں بھی کامیاب ہوئے اور اپنے بیٹے سے کہا کہ اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تمہیں ذبح کر رہا ہوں بتا اس میں تیری کیا رائے ہے۔ بیٹے نے کہا جیسے آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے آپ ویسے ہی کریں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : ’’ پھر جب وہ اس کے ساتھ کام کے قابل ہو گیا تو اسے کہا اے میرے بیٹے میں نے خواب دیکھا ہے کہ میں تجھے ذبح کر رہا ہو اب تو بتا تیری کیا رائے ہے۔ کہا اے میرے باپ کیجیے جس بات کا آپ کو اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے۔ خدا نے چاہا تو قریب ہے کہ آپ مجھے صابرین میں پائیں گے۔ (سورۃ الصفٰت )۔
یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
جب حضرت ابراہیم علیہ السلام اللہ تعالی کے اس حکم کو پورا کرنے لگے تو اللہ تعالی نے جنت سے ذبیحہ حضرت اسماعیل علیہ السلام کی جگہ بھیج دیا۔
ارشاد باری تعالی ہے : ’’تو جب ان دونوں نے ہمارے حکم پر گردن رکھی اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹایا اس وقت کا حال نہ پوچھ۔اور ہم نے ندا فرمائی اے ابراہیم بیشک تو نے خواب سچ کر دکھایا ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ بیشک یہ روشن جانچ تھی۔ اور ہم نے ایک بڑا ذبیحہ اس کے صدقہ میں دے کر اسے بچا لیا ‘‘۔( سورۃ الصفٰت )۔اللہ تعالیٰ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یہ لا زوال قربانی اتنی زیادہ پسند آئی کہ اسے حج کا رکن بنا دیا۔ ارشاد باری تعالی ہے :’’ اور ہم نے پچھلوں میں اس کی تعریف باقی رکھی ‘‘۔(سورۃ الصفٰت )۔
سبسکرائب کریں در:
اشاعتیں (Atom)
-
معاشرتی حقوق (۱) اگر کسی قوم کے دل میں باہمی محبت و ایثار کی بجائے نفر ت و عداوت کے جذبات پرورش پا رہے ہوں وہ قوم کبھی بھی سیسہ پلائی د...
-
حضور ﷺ کی شان حضور ﷺ کی زبان سے (۱) حضرت واثلہ بن اسقع رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے حضور نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : بیشک اللہ تعالیٰ ن...
-
دنیا میں جنت کا حصول دنیا میں عورت ماں کے روپ میں ایک ایسی عظیم ہستی ہے جس کی وجہ سے گھر میں برکت ہوتی ہے۔ ماں گھر کی زینت ہوتی ہے اور م...